سیون ڈیڈلی سنز (Seven deadly sins) کا تذکرہ گزشتہ کالم میں تھا اور ہم تین انسانی رویوں پر بات کرسکے۔ یا یوں کہہ لیں سات میں سے تین جہنمی گناہوں پر ہلکا پھلکا تبصرہ کرسکے تھے، ورنہ تو ان پر بہت تفصیل سے لکھا جا سکتا ہے کہ کیسے یہ صرف فرد کی انفرادی زندگی کو خزاں آلود نہیں کرتے بلکہ اس کے اثرات فرد سے خاندان اور خاندان سے معاشرے تک پھیل جاتے ہیں۔ ایک ایسی انسانی عادت ہی اس فہرست میں شامل ہے جسے ہم شاید کوئی ایسی جہنمی برائی تصور نہ کرتے ہوں۔ اس کا نام ہے gluttony یعنی پیٹوپن‘ بسیار خوری‘ بسیار خوری کے مضمرات پر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ یہ انفرادی عمل کس طرح اجتماعی طور پر معاشروں کو متاثر کرتا ہے۔ بسیار خور شخص ضرورت سے زیادہ کھا کر صرف اپنی صحت اور زندگی کے ساتھ ہی کھلواڑ نہیں کرتا بلکہ وہ دوسروںکے حصے کی خوراک بھی ہڑپ کر جاتا ہے جو بھوکے پیٹ یا انتہائی کم غذا پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ بسیار خور اپنی پلیٹ ضرورت سے زیادہ بھرتا ہے اور بچ جانے والا کھانا کسی بھوکے کے پیٹ کی بجائے کچرا دان میں جاتا ہے۔ صرف متحدہ عرب امارات میں عام دنوں میں چالیس فیصد کھانا کچرا دان کی نذر ہوتا ہے جبکہ رمضان المبارک میں کھانا ضائع کرنے کی شرح ساٹھ فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ پیٹوپن بھی ایک روحانی بیماری ہے جس میں مبتلا شخص مناسب خوراک پر قناعت نہیں کرتا۔ اسلام ہماری رہنمائی یوں کرتا ہے کہ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائو۔ ابھی گنجائش ہوتو کھانے سے ہاتھ روک لو۔ اگلا نمبر آتا ہے Lust کا جس کا معنی ہے حدود و قیود کے بغیر جنسی خواہش۔ مزید بلیغ ترجمہ کریں تو ہر طرح کی ہوس میں مبتلا ہونا‘ وہ طاقت ہو‘ دولت ہو یا جنس ہو۔ اسلام میانہ اور توازن کا مذہب ہے اور زندگی پر حدود و قیود نافذ کرتا۔ حلال اور حرام کی تمیز کے ساتھ زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلام جنسی خواہش کو نکاح کے دائرے میں لا کر اسے حلال قرار دیتا ہے۔ اگلی نسل کے پروان چڑھنے کے لیے اسے میاں بیوی کے درمیان خلوص‘ محبت اور پیار کے اظہار کا ذریعہ بناتا ہے۔ ان حدود کے بغیر یہ سوائے ہوس کے اور کچھ نہیں۔ دنیا کا ہر مذہب اور ہر معاشرہ حدود و قیود کے بغیر جنسی خواہش کی مذمت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ مغربی معاشرے بھی جو آج کل مادر پدر آزاد ہیں، وہاں بھی ’’لسٹ‘‘ کو برا سمجھا جاتا ہے۔ تو ایس ایبلٹ نے اپنی لازوال نظم ویسٹ لینڈ میں sexual perversion کا تذکرہ کیا۔ یہ باقاعدہ نظم کا ایک اہم تھیم ہے۔ جس میں ٹی ایس ایبلٹ بتاتا ہے کہ بدکاری‘ جنسی ہوس پرستی پر چلتا ہوا معاشرہ کس طرح روح سے خالی مشینی قسم کے انسانوں پر مبنی ہوتا ہے اور ایسے بے روح معاشرے میں ہر شخص حقیقی‘ اطمینان اور سکون سے عاری ہوتا ہے۔ اسی زوال کو ایلبٹ روحانی اور جذباتی باندھ پن سے تعبیر کرتا ہے۔ گلوبل ویلج میں یہ جذبانی اور روحانی بانجھ پن ہر سماج پر وارد ہو چکا ہے،جو بدکار معاشرے کا نقشہ ٹی ایس ایلبٹ اپنی نظم میں کھینچتا ہے،اس کا عکس اپنے معاشرے میں بھی دیکھ لیجئے۔ ایک طرف ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا عروج بے مثل ہے تو دوسری طرف اخلاقی اقدار کے زوال کی بھی حد نہیں۔ ہوس کاری اب کوٹھیوں‘ کوٹھوں اور بالا خانوں کی محتاج نہیں۔ انٹرنیٹ کے شب بھر کے سستے پیکیج ایک نشے کی طرح معاشرے کو لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ پھر کوڑے کے ڈھیر پر زینب جیسی پیاری بیٹیوں کی مسلی ہوئے مردہ جسم ملتے ہیں تو یہ سب اسی شیطانی ہوس کی کارستانی ہے۔ زینب کا سانحہ اور موٹروے گینگ ریپ حکومت انتظامیہ‘ سوشل میڈیا کی مکمل توجہ حاصل کرنے والے واقعے ہیں۔ وگرنہ ایسے سانحے تو روز ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان پر بند کیسے باندھا جائے۔ سماج کے جسم میں لہو کی جگہ دوڑتی ہوئی ہوس کی اس تاریکی کو اخلاقی تربیت کے کس موثر نظام سے بتدریج اجالے میں بدلا جائے۔ دین کی تعلیمات موجود ہیں۔ بہت واضح ہیں مگر محض ان کے وعظ و نصیحت سے کام نہیں چلے گا۔ ایک ایسا معاشرہ بنانا جہاں انسانوں کے کردار میں integrity کی چمک ہو‘ محض گفتگو سے آگے بڑھ کر کام کرنا ہوگا۔ تفریح اور کتھارسس کے لیے مثبت سرگرمیاں فروغ دینا ہوں گی۔ آرٹ اور فنون لطیفہ کی ترویج کرنا ہوگی۔ کام کے بعد تفریح کے حق کو تسلیم کر کے ایسے ذرائع پیدا کرنے ہوںگے ، جہاں معاشرے کا ہر فرد مثبت تفریحی سرگرمیوں سے اپنے دل کو مسرت انبساط اور اطمینان سے بھر سکے۔ کسی بھی معاشرے میں منفی سرگرمیوں کا اظہار اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے اندر کے حبس کو باہر نکلنے کا موقع دیتے یا پھر انہیں موقع نہیں ملتا۔ حقیقی طور پر بات کہنے‘ سننے اور سمجھنے کا فقدان ہوتا ہے۔ اس میں کمیونی کیشن کرائسس کا نام دوں گی‘ جتنا اس بات کو لکھنا آسان ہے‘ عملی طور پر اس سارے تصور کو وقوع پذیر کرنا اتنا ہی مشکل۔ حدود و قیود دین نے بتائیں ہیں‘ ان سے آگاہ کریں۔ انہیں بتائیں کہ پابندیاں آپ کو محدود نہیں کرنی بلکہ محفوظ رکھیں۔ زندگی کے ہر میدان میں آپ کی بہتر نشوونما اور اطمینان قلب کی ضامن ہیں۔ انہیں نکاح کی اہمیت بتائیں۔ نکاح کو معاشرے میں بے جا رسم و رواج کے بوجھ سے آزاد کر کے آسان بتائیں۔ زندگی کا ساتھی چننے میں اپنے بچوں کی رائے کو بھی اہمیت دیں۔ اساتذہ اور والدین کا فرض ہے کہ نوجوان کو integrity کا تصور سمجھائیں کہ ایک مضبوط اور مہذب کردار کی بنیاد ہی دیانت اور اینٹیگرٹی پر ہے۔ Integrity is doing the right thing when no one is watching. مگر اس سے پہلے انہیں رائٹ اور رانگ کا فرق سمجھانا ہوگا۔ (جاری)