کئی دن سے ایک عجیب حالت ہے۔یہ کیفیت اس کیفیت سے مختلف ہے جو قلم اور زبان کے محاذ پر تجزیہ کر کے طاری ہوتی ہے۔جس محفل میں جائو ایک ہی بحث ہے اور عام طور پر ایک بٹا ہوا اجتماع ہوتا ہے۔ ہر ایک عجیب جذباتی ہیجان کا شکار نظر آتا ہے۔میرے لئے یہ بہت آسان ہے کہ میں یہ کہہ کر مطمئن ہو جائوں کہ اسلام آباد پر چڑھائی کی کیفیت ختم ہو گئی ہے اور یہ بات بھی قابل اطمینان ہے کہ عمران خان کی زبان میں قدرے ٹھہرائو آیا ہے مگر یہ سوچنا ہے کہ جو بندوبست اب ہوا ہے یہ ملک کے مسائل کا حل ہے؟قدرے مشکل بات ہے۔ہر روزنامہ ایک نئی خبر لاتا ہے۔شہباز شریف لندن گئے تو خبر آئی کہ وہ نواز شریف کو یہ بتانے گئے ہیں کہ انہیں 10روز کے اندر اندر اسمبلیاں تحلیل کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ایسی اطلاعات آنے لگیں کہ پالیسی سازوں کو احساس ہو گیا ہے کہ انہوں نے عمران کو نکال کر غلطی کی ہے۔اب کیا اس کا تدارک کرنا چاہتے ہیں۔کہنے والوں نے کہا کہ نہیں ایسا بھی نہیں‘ وہ جلد الیکشن کرا کر اس فتنے کو دبا دینا چاہتے ہیں۔یہ بھی کہا کہ نئے انتخاب نومبر سے پہلے ہوں گے۔ایسا کیوں ہے؟ بلکہ 29نومبر سے پہلے کی بات کی جانے لگی۔ ہمارے ہاں گزشتہ کچھ عرصے سے آرمی چیف کی تقرری زیر بحث آئی ہے مگر یہ نہیں ہوتا کہ حساس اداروں کے اندر جو پیشہ وارانہ گفتگوہوتی ہے اس کو بھی بیان کیا جائے۔جو باتیں انتہائی خفیہ ہوں‘ انہیں سرعام بڑے اعتماد اور تیقن سے سنایا جاتا ہے کہ فلاں دربار میں یہ کہا گیا اور فلاں لابی یہ چاہتی ہے اور فلاں لابی کا یہ کہنا ہے۔ایسی گفتگوئوں کی بہتات ہو گئی۔جن باتوں تک پہنچنے کے لئے فر شتوںکے بھی پر جلتے تھے‘ وہ بڑے سکون سے بیان ہونے لگیں اور لوگ اس سب کچھ پر خوش بھی ہوئے تھے‘ بلکہ ہوتے ہیں۔یہ حالات کوئی معمولی نہیں ہیں۔ دوسری طرف ہمارے سابق وزیر اعظم نے بھی حد کر دی تھی۔صاف اور دو ٹوک لفظوں میں فوج‘رینجرز‘ پولیس اور بیورو کریسی کو اپنی حدود میں رہنے کے مشورے دینا شروع کر دیے۔ان کا لہجہ اور چہرے کی کرختگی یہ بتاتی تھی کہ ان کی حکم عدولی کی گئی تو پھر اس ملک میں قیامت آنے کو کوئی نہیں روک سکتا۔خیر یہ لہر بھی گزر گئی۔رانا ثناء اللہ کا طنطنہ بھی ذرادب گیا‘ مگر تابکے۔قصہ مختصر یہ کہ کسی کو پناہ نہ تھی۔پوچھا جاتا کہ یہ حکومت مشکل فیصلے کیوں کرے اور اگر انہوں نے کرنا ہے تو یہ فیصلے کر کے بدنام ہو کر گھر کیسے چلی جائے۔ یہ بھی کیا قباحت ہے کہ فیصلے بھی مشکل کرو‘بجٹ بھی پیش کرو اور اس کے بعدالیکشن کا ڈول بھی ڈالتے جائو۔کتنے نفلوں کا ثواب ہو گا اور یہ سب جھٹ پٹ کر دو‘ کیونکہ نومبر سے پہلے انتخاب کرانا ہے۔ اب لگتا ہے کہ وہ ذرا لمبے عرصے کی تیاری کر رہی ہے۔بے یقینی ہی بے یقینی ہے۔ دوسری طرف مشورے ہونے لگے‘ کیوں نا تحریک انصاف واپس اسمبلیوں میں چلی جائے ۔ایسا ہو تو قدرے سکون ہو جائے گا اور قانونی اور پارلیمانی جنگ بھی کوئی راستہ اختیار کر لے گی۔ مگر اس سے تو پارٹی کا سارا بیانیہ غارت جاتا ہے جو اس نے تصادم کی شکل میں تیار کر رکھا ہے۔کیا وہ ان چوروں کے ساتھ بیٹھے گی۔جی‘ جب اقتدار میں تھی تو تب انہی کے ساتھ بیٹھی تھی۔تاہم اب یہ ثابت کرنا ہے کہ غیر ملکی سازش کے بعد تو یہ بالکل اس قابل نہیں کہ اس کے ساتھ بیٹھا جائے وگرنہ ’’چور‘‘ ’’ڈاکو‘‘ تو یہ پہلے بھی تھی۔ہر بات کے اندر ایک تضاد ہے۔ان کا بیانیہ یہی ہے کہ وہ اسلام آباد آئیں گے۔۔یہ ان کا جمہوری حق ہے۔یہ حق انہیں سپریم کورٹ دلائے۔ضمانت دے کہ ان کا راستہ رانا ثناء اللہ نہیں روکے گا،چاہے وہ آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کی سرکاری طاقت کے ساتھ آئیں۔یہ بھی مان لیا جائے کہ وہ پرامن رہیں گے، چاہے ان کے پاس اسلحہ تھا یا ہو گا۔کوئی چیف منسٹر سیاسی مقاصد کے لئے وفاق پر اپنے حفاظتی کیل کانٹوں سمیت کیسے آ سکتا ہے تاکہ اسے روکا جائے تو وہ اسے بھی اپنا جمہوری حق سمجھیں۔ہم نے ملک کا مذاق بنا رکھا ہے۔ ادھر یہ حال ہے کہ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے صاف بتا دیا ہے کہ آخری دو مہینوں کے لئے ایک پائی کا ترقیاتی فنڈز نہیں ہے۔خرم دستگیر کہتے ہیں کہ بجلی نہیں پیدا کر سکتے۔اگرچہ ذرائع موجود ہیں کہ وسائل نہیں ہیں۔ہر شے کی قیمتیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں۔عام آدمی کا کباڑہ ہو رہا ہے اور ہم کہتے ہیں معیشت کی حالت درست کر رہے ہیں۔واقفان حال کہتے ہیں پاکستان کی حالت ایسی کبھی نہیں ہوئی۔جب پاکستان بنا تھا تو کاغذ پر لگانے کے لئے پنیں تک نہ تھیں۔ان کی جگہ بیری کے کانٹے استعمال ہوتے تھے۔خیموں میں وفاقی دفاتر لگا یاکرتے تھے۔تنخواہیں اپنے صاحب ثروت لوگوں سے مانگ تانگ کر سرکار دیا کرتی تھی۔ تب کئی برس تک ہمارا بجٹ فاضل تھا،خسارے کا نہ تھا۔اللہ نے برکت دے رکھی تھی۔ آج سانحہ مشرقی پاکستان کا ذکر کرتے ہیں کہ تب اتنی تشویش نہ تھی جتنی اب دلوں میں جاں گزیں ہے۔دل بیٹھے جا رہے ہیں۔یہ جو لوگ مل کر ملک بچانے نکلیں ہیں‘ ان کے الگ الگ مفاد ہیں۔جب ملک کے مائی باپ بنے بیٹھے ہیں، ان کے پاس کوئی راہ عمل نہیں۔اگر وہ سمجھتے ہیں تو غلطی پر ہے۔ہم سب بری طرح پھنس چکے ہیں۔یہ راستہ نہیں ہے۔راستہ ضرور نکلے گا‘ مگر ہمیں سب سے پہلے اپنی نیتوں کو درست کرنا پڑے گا۔بخاری شریف کی پہلی حدیث کا یہ ٹکڑا اکثر دہرایا جاتا ہے کہ اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔بس اتنا ہی کر لیجیے۔اپنی اپنی نیتیں درست کر لیجیے۔ضرور راہ نجات نکل آئے گی۔