کسی نے لکھا ہے کہ شبلی فراز نے ٹڈی دَل کو ٹڈی دِل کہا تو احمد فراز کی روح کانپ گئی ہو گی۔میرا خیال ہے کہ نہیں کانپی ہو گی کہ انہوں نے زندگی ہی میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ پراپرٹی ڈیلنگ کو پسند کرتے ہیں اور ان کے بچے اسی طرف گامزن ہیں۔ پھر فراز صاحب کے گھر کا سامان اٹھا کر باہر رکھ دیا گیا تھا۔ پہلے ٹڈی دل پر بات ہو جائے کہ یہ جو دال ہے اس کے اوپر زبر ہے زیر نہیں۔ دل کا مطلب ہوتا ہے لشکر یا اکٹھ کیا جاتا ہے ناں کہ ’’دل کے دل‘‘یعنی بہت زیادہ یہ جو ٹڈیاں ہیں یہ ایسے ہی دل کے دل اترتے ہیں۔ درختوں کی ٹہنیاں بھی ان کے وزن سے جھولنے لگتی ہیں۔ وہ فصلوں کو ڈھانپ لیتے ہیں اور چٹ کر جاتے ہیں اگر شبلی فراز نے دال کے نیچے زیر لگائی تو کوئی نہیں یہ تو دل بن گیا اور پھر ٹڈی دل کا مطلب ہوا ٹڈی کے دل والا۔ مجھے اپنا ایک پرانا جملہ یاد آیا کہ میں نے لکھا تھا کہ کراچی والے اکثر الفاظ کے پہلے حرف کے نیچے زیر لگا دیتے ہیں مثلا تابش لاہور والے زبر لگاتے ہیں مثلاً تابش اور پشاور والے پیش استعمال کرتے ہیں جیسے تابش اسی لئے کراچی والے زیردست‘لاہور والے زبردست اور پشاور والے پیش دست ہیں۔ مجھے ٹی وی کا ایک زبردست واقعہ یاد آ گیا کہ میاں شہر یار ایک گیت ریکارڈ کروا رہے تھے انہوں نے کمپوزنگ میں ایک حرف کے نیچے زیر پڑھوا دی۔ میں نے کہا میاں صاحب اس حرف کے نیچے زیر نہیں زبر ہے۔ اسے دوبارہ ریکارڈ کروانا ہو گا مسکرا کرکہنے لگے شاہ صاحب مجھے بھی شک تھا مگر میں نے اسے یوں پڑھوا دیا ہے کہ یہ صاف زیر یا زبر نہیں محسوس ہو رہی۔ میں نے ہنس کر کہا میاں صاحب آپ تو شاعری کے پیش پڑ گئے ہیں۔بہرحال شبلی فراز سے کیا شکوہ کہ جب آپ کے پاس اختیار آ جائے تو آپ زبروں کو زیریں بنا سکتے ہیں۔ ویسے لوگ حکومتی بیانات سے تنگ آ چکے ہیں کہ ان میں نہ سنجیدگی ہوتی ہے اور نہ وزڈم۔ایک خاتون نے تو لکھ دیا کہ ہمیں اب کورونا ٹڈی دل اور پی ٹی آئی کے مسخروں کے ساتھ رہنا ہو گا۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ حکومت واقعتاً ہر اچھا کام بھی برے طریقے سے کرتی ہے۔پھر اس کی ترجیحات بھی عجیب ہیں۔ اب دیکھیے ناں انہوں نے دو سال سانپ سانپ کہتے گزار دیے اور پھر سانپ گزر گیا اور اب یہ باقی تین سال اس کی لکیر پیٹیں گے۔ سانپ بھی نہیں مرا اور ان کی لاٹھی بھی نہیں بچی۔وہی کچھ ہوا کہ جب سارجنٹ سڑک پر اشارے کی سفید لکیر پر کھڑا ہوتا ہے کہ ’’ٹچ اٹ اف یوکین‘‘ Touch it if you canتو پھر سے جھنڈے والی گاڑی والا گزرتے ہوئے کہتا ہے ٹچ می اف یو کین Touch me if you canطاقتور طاقتور ہی ہے۔ اب نیب نے شہباز شریف کے تعاقب میں ایک نیا میلہ لگا دیا ہے۔ شبلی فراز ہی کہتے ہیں کہ شہباز شریف کو کسی بھی وقت پکڑا جا سکتا ہے۔ گویا وہ تو گھڑے کی مچھلی ہیں۔ تبھی تو یہ مچھلی آپ کے ہاتھوں سے پھسل رہی ہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ ن لیگ کو باقاعدہ زندہ کیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی بالکل ہی رہ گئی ہے۔لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ اس ہنگام میں کہ کورونا نے پورے ملک میں تباہی پھیلا رکھی ہے اور سوشل فاصلوں کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسے میں پکڑ دھکڑ سے جلوسوں کی صورت حال پیدا کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ہمارا لیڈر عمران خاں کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ یہ ڈاکو اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ میں منزل کو انجام نہیں کہہ سکتا کہ نواز شریف تو اپنی منزل مقصود پا چکے اب فواد چودھری ان ٹیسٹوں کی انکوائریاںکروا رہے ہیں کہ اس میں ہاتھ کس نے کیا۔ ان کے اپنے لوگوں کی تائید پر ہی نواز شریف کو رکھنا رسکی قرار دیا گیا۔ ویسے عمران خاں کے رویے میں لیڈروں والی بات کبھی نظر نہیں آئی۔ اب حالیہ ایک تصویر وائرل ہوئی ہے کہ جس میں وہ ایک حساس ادارے کا دورہ کر رہے ہیں تو سوائے ان کے سب نے ماسک پہنے ہوئے ہیں اور اسلام آباد میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا جا چکا ہے۔ اس پر لوگوں نے بڑے دلچسپ کمنٹس کئے ہیں ان کا کمنٹس کرنا بنتا ہے کہ آپ قانون کی پاسداری کیوں نہیں کر رہے۔ جب ملک کا وزیر اعظم قانون کو فالو نہیں کرے گا تو کون کرے گا: آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی کورونا کے پھیلائو کا الزام اب عدالتوں پر اور عوام پر دھرا جا رہا ہے حالانکہ سرحدوں پر چیک نہ رکھا گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹرز اور دوسرے عملے کو حفاظتی سامان تک مہیا نہ کیا گیا۔ کئی تو چیختے چلاتے دنیا ہی سے چلے گئے۔ محسن احسان کا شعر یاد آتا ہے: امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں سب سے اہم بات کہ حکمرانوں کے متضاد بیانات نے بھی لوگوں میں ابتری پھیلائی اور انہیں یکسو نہ ہونے دیا۔ ہسپتال میں مریضوں کا انجام دیکھ کر سب سہم گئے۔ صرف مریضوں ہی کا نہیں ان کے عزیز و اقارب کے ساتھ ان سے بھی زیادہ ظلم روا رکھا گیا۔صورتحال بگڑتی گئی اور اب تو یوں لگتا ہے جیسے عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا کہ ’’جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا‘‘یعنی survival of the fittest . دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کہاں گیا سماجی فاصلہ‘ کورونا میں مرنے والے بھی تقریباً ختم ہی ہوا چاہتے ہیں۔ ساری باتوں کے باوجود احتیاط میں کیا مضائقہ ہے۔ اپنے گرد ایک حصار کھینچ لینے میں کیا حرج ہے۔ بات ٹڈی دل سے شروع ہوتی تھی کہ حکومت کے ساتھ فوج بھی مدد کو پہنچ گئی ہے۔ دیکھیے کیا تدابیر کی جاتی ہیں۔ ویسے ہم نے ایک مضمونLocustsیعنی ٹڈی دل کے بارے میں پڑھایا تھا کہ باہر بھی ایک روایتی انداز ہے کہ جب یہ ٹڈیوں کے لشکر اترتے ہیں تو کسان مختلف انداز میں شور مچاتے ہیں گھنٹیاں پیٹتے ہیں اور جگہ جگہ آگ روشن کرتے ہیں کہ یہ ٹڈیاں کہیں تھک کر نہ بیٹھیں اور انڈے نہ دیں۔ دھواں پیدا کیا جاتا ہے۔ساری تراکیب کے باوجود ٹڈیاں فصلیں کھا جاتی ہیں کسان بھاری نقصان پر غمزدہ ہوتے ہیں مگر زندگی تو کرنی ہے آگے تو بڑھنا ہے سارے نقصان کے باوجود کسان اٹھ کر اپنے کھیتوں میں پہنچتے ہیں اور نئی فصل بونے کی تیاری کرتے ہیں زمین کے ساتھ پھر نئی امید باندھتے ہیں۔ اس ٹڈی دل کا قرآن میں بھی عذاب کے ضمن میں تذکرہ ہے اسلئے اللہ کی پناہ مانگنا ہم پر لازم ہے۔ جو مقدر میں ہے کھانا بھی ہے اور پینا بھی اپنے بس میں ہے کہاں مرنا بھی اور جینا بھی میرا احساس بھی ڈھلتا ہے مرے اشکوں میں دل جو دکھتا ہے تو جلتا ہے مرا سینہ بھی