قسطنطنیہ یعنی آج کے استنبول پر آزاد خیال، سیکولر اور لبرل میئر کی جیت کا جشن جہاں اس شہر کی سڑکوں پر شمپئن کی بوتلیں کھولنے اور رقص و سرور سے ہو رہا تھا تو دوسری جانب پورے اسرائیل میں اس فتح کی خوشی دیدنی تھی۔ دنیا بھر میں ستاون سے زیادہ اسلامی ممالک میں زیادہ تر سیکولر اور لبرل حکمران مسلط ہیں اور وہاں روزانہ ہر بڑے شہر میں ایسے ہی میئر منتخب ہوتے ہیں لیکن استنبول میں طیب اردوان کے نرم خو "جمہوری اسلام" کے ہارنے کی بھی یہودیوں کو مسرت تھی۔ خواب غفلت میں سوئے ہوئے مسلمانوں کے لیے یہ ایک معمول کا واقعہ ہوگا، لیکن وہ صہیونی جو 1896 ء سے صہیونی پروٹوکولز کی تحریر سے لے سے اب تک اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک پل بھی آرام سے نہیں بیٹھے،انکے لئے یہ امید کی ایک کرن ہے۔ 1916 ء میں برطانیہ کے بالفور ڈیکلئیریشن میں اسرائیل کو یہودیوں کا وطن منوانے کے بعد 1920 ء میں انہوں نے یروشلم کی طرف ہجرت کا آغاز کیا۔ 14 مئی 1948 ء کو اسرائیل کے قیام تک اور اسکے بعدبھی آج تک وہ تمام یہودی جو یورپ اور امریکہ میں اپنی پرآسائش رہائش گاہیں چھوڑ کر حیفہ اور تل ابیب جیسے صحرائی ویرانوں میں دشمنوں کے درمیان آ کر آباد ہوئے ہیں ، وہ سب اپنی مذہبی کتابوں میں دی گئی پیشگوئیوں کی صداقت پر ایمان رکھتے تھے۔ یہ یہودی اسی یقین کی بنیاد پر اپنی پرتعیش زندگی اور عیش و عشرت کا ماحول چھوڑ کر آئے تھے کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ ایک دن آل یعقوب یروشلم کے اجڑے ہوئے تختِ داؤدی سے پوری دنیا پر حکومت کرے گی اوراس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہونگے۔ یہودیوں کو یہ بشارت اس دور میں ملی تھی جب بابل کا حکمران بخت نصر انہیں غلام بنا کر اپنے ملک لے گیا تھا۔ وہاں انکے پیغمبر لیسعیاہ (Isaiah) نے آٹھویں صدی قبل مسیح انہیں یہ خبر دی تھی کہ ایک دن تمہیں اس غلامی سے نجات مل جائے گی اور تمہارے درمیان ایک مسیحا ایسا آئے گا جو حضرت داؤدؑ اور سلیمانؑ کے تخت سے ایک عالمی حکومت قائم کرے گا۔ یہودی اپنے ہر آنے والے دن کی منصوبہ بندی، اپنے حالات حاضرہ کا تجزیہ اور دنیا میں اپنے کردار کا تعین صرف اور صرف آج کے دور کے بارے میں اپنی کتابوں میں موجود پیشگوئیوں کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ استنبول کی سیکولر فتح سے صرف ایک ماہ پہلے اسرائیل نے اپنا سترہواں یوم تخلیق منایا۔ اس دن انہوں نے غلامی سے آزادی (Redemption) کے سلسلے کا دوسرا سکہ جاری کیا۔ پہلا سکہ 67 عیسوی میں جاری کیا گیا تھا جو دراصل رومیوں کے خلاف یہودیوں کی بغاوت کا اعلان تھا ۔ ایک ہزار نو سو باون (1952) سال بعد "صہیون میں ہیکل" (Temple in Zion) جیسے اسرائیلی ادارے نے غلامی سے آزادی کا دوسرا سکہ جاری کیا ہے۔ پہلا سکہ بھی چاندی کا تھا اور یہ بھی چاندی کا ہے۔ اس پر لاگت پچاس ڈالر آئی ہے لیکن یہ 170 ڈالر میں فروخت کیا جارہا ہے تاکہ جنگ کا سامان اکٹھا ہو۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس سکے کا نام سائرس ٹرمپ (Cyrus-Trump) سکہ رکھا گیا ہے اور اس پر امریکی صدر ٹرمپ اور ایرانی بادشاہ سائرس کی تصویریں ہیں۔ سائرس وہ ایرانی بادشاہ تھا جس نے یہودیوں کو بابل کی حکومت کی غلامی سے نجات دلائی تھی اور یروشلم میں دوبارہ آباد کیا تھا۔ سکے پر ایران کی وہ قدیم مہر موجود ہے جس میں ایک شیر ہاتھ میں تلوار پکڑے ہوئے ہے اور اسکے ساتھ سکے پر امریکہ کا عقاب والا قومی نشان بھی موجود ہے۔ سکے کے نشانات بتاتے ہیں کہ دو ہزار سالہ یہودی تاریخ میں دو اہم واقعات ہیں اور دو ہی اہم مدد گار شخصیات، ایک ایرانی بادشاہ سائرس اور دوسرا ڈونلڈ ٹرمپ، ایک نے انہیں یروشلم واپس لا کر بٹھایا اور دوسرے نے یروشلم کو ان کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ یہودی اپنے پیغمبروں کی بتائی گئی خوشخبریوں اور تنبیہوں پر اپنی داخلی اور خارجی پالیسیاں بناتے ہیں ،لیکن یہ مسلمان امت اپنے مخبر صادق سید الانبیاء ﷺ کی آخر الزماں کی ترتیب زمانی کو فراموش کیے ہوئے ہے۔ ایسی ترتیب جو یروشلم کی آبادی سے مدینہ کی ویرانی اور پھر دوبارہ قسطنطنیہ کی فتح کو بیان کرتی ہے۔ یروشلم کی آبادی کا آغاز ہو چکا ہے۔ جیسے ہی یہ شہر اس دنیا کا مرکزی مقام (Center stage) بنے گا، مدینہ کے باسی اسے چھوڑ جائیں گے، یہاں تک کہ امام مہدیؑ کے بارے میں جو روایت ملتی ہے وہ یہ ہے "ایک خلیفہ کی موت کے وقت لوگوں میں اختلاف ہو گا۔ اس دوران ایک آدمی مدینہ سے نکل کر مکہ کی طرف بھاگے گا۔ پھر اسکے پاس اہل مکہ میں سے لوگ آئیں گے اور اسے خلافت کے لئے نکالیں گے لیکن وہ اسے ناپسند کرتے ہوں گے، مگر لوگ انکے ہاتھ پر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کر لیں گے (مسلم)۔ یعنی مدینہ سیدنا امام مہدیؑ کے لیے بھی جائے پناہ نہیں رہے گا۔ اس بیعت کے بعد اس جنگ کا آغاز ہوجائے گا جیسے ملحمۃ الکبریٰ کہا جاتا ہے۔ اس بڑی جنگ یعنی ملحمۃ الکبریٰ کا جو نقشہ اور ترتیب احادیث کی کتب میں میرے آقا ﷺکی زبان مبارک سے بیان ہوئی ہے اسکا آخری بڑا معرکہ ترکی اور شام کے سرحدی علاقوں کا وہ میدان ہوگا جہاں دو شہر اعماق اور دابق واقع ہیں۔شام کے شہروں ادلب سے لے کرکو بانی تک اور ترکی کے شہروں ریحان علی سے لے کر عرفہ تک ، یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسوقت شام کے مہاجرین بھی آباد ہے اور جنگ بھی جاری ہے۔ انہی شہروں کے درمیان دریائے فرات بہتا ہے جو رسول اکرم ﷺکے بقول ترکوں کی دوسری جنگ کا ٹھکانہ ہوگا۔ احادیث کے مطابق جنگ کا آغاز عراق میں فرات کے کنارے سونے کا پہاڑ نکلنے سے ہوگا، مصر خراب ہوگا اور پھر فرمایا "جب اہل شام میں خرابی پیدا ہوگئی تو تم میں کوئی خیر و بھلائی نہ ہو گی (ترمذی)۔ یہ تمام پیشگوئیاں تودنیا پر روز روشن کی طرح واضح ہو چکیں ہیں اور وہ منکرین جو ان احادیث کو من گھڑت کہا کرتے تھے انکے منہ پر طمانچے کی صورت ثبت ہیں۔ مصر، فلسطین، شام، عراق، یمن، حجاز اور ترکی کا جنوبی حصہ یہ وہ خطے ہیں جو اس بڑی جنگ کا میدان ہیں اور اسوقت یہ تمام علاقے اس عالمی جنگ کا میدان بن چکے ہیں۔ لیکن یہ بڑی جنگ سیدنا امام مہدیؑ کے ظہور کے بعد برپا ہوگی، جسکا آخری معرکہ آج کے اس شام اور ترکی کے سرحدی علاقے میں لڑا جائے گا۔ اسکی تفصیل یوں ہے "اہل روم اعماق یا دابق کے مقام پر پہنچ جائیں گے، انکی طرف ایک لشکر مدینہ سے پیش قدمی کرے گا جو اس زمانے کے بہترین لوگ ہوں گے۔ رومی کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جو ہمارے لوگ تم قید کر کے لائے ہو ہم انہی سے جنگ کریں گے۔ جس پر مسلمان کہیں گے کہ ہم ہرگز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ مسلمان ان سے جنگ کریں گے۔ ایک تہائی بھاگ جائیں گے جن کی توبہ اللہ قبول نہیں کرے گا، ایک تہائی شہید ہوں گے اور ایک تہائی فتح یاب۔ اسکے بعد یہ لوگ قسطنطنیہ فتح کریں گے (مسلم)۔ اس جنگ کے بارے میں اہل روم (مغرب) کی تیاری کا عالم دیکھیں "پھر رومی اپنے بادشاہ سے کہیں گے کہ ہم اہل عرب والوں کے لئے آپکی جانب سے کافی ہیں، وہ جنگ عظیم کے لئے اکٹھے ہوں گے اور اسی جھنڈوں کے تحت آئینگے اور ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار سپاہی ہونگے (مستدرک حاکم، ابن حبان)۔ یعنی اس جنگ میں مغرب یا اہل روم کے نو لاکھ ساٹھ ہزار (9,60,000) سپاہی شریک ہونگے۔ یہ جدید دور کی جنگوں کی شاید سب سے بڑی اور کئی گناہ زیادہ تعداد ہوگی۔ کالموں میں بار بار اس دور فتن کا تذکرہ کرنا اور ہر نئے واقعے کو سید الانبیائؐ کی بتائی گئی ترتیب زمانی اور پیش گوئی کے مطابق دیکھنے، جانچنے اور بیان کرنے کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے جو خود رسول اکرمؐ نے فرمایا، "حذیفہ بن یمان ؓنے فرمایا یا لوگ رسول اللہ ﷺ سیخیر کے بارے میں سوال کرتے اور میں شر کے بارے میں پوچھتا، اس خوف سے کہ کہیں شر مجھے پکڑ نہ لے (بخاری، مسلم)۔ انہی حذیفہ بن یمانؓسے روایت ہے "یہ فتنے ایسے لمبے ہوجائینگے جیسے گائے کی زبان لمبی ہوتی ہے۔ ان فتنوں میں اکثر لوگ تباہ ہو جائینگے۔ البتہ وہ رہیں گے جو پہلے سے ان فتنوں کو پہچانتے ہونگے (کتاب الفتن)۔ استنبول پر سیکولر لبرل طبقے کی فتح ایک علامت ہے، یہ وارننگ ہے ، ایک انتباہ ہے۔ فتنوں کے اس دور میں جو ایسی تنبیہوں اور وارننگوں کو پس پشت ڈالے گا جن کی اطلاع سید الانبیائﷺ نے دی تھی تو تباہی اسکے گھر کو خود ڈھونڈ نکالے گی۔