اسلام آباد(خبر نگار،92نیوزرپورٹ،این این آئی)سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی کی رولنگ آئین سے متصادم قراردے کر کالعدم قرار دیدی جبکہ قومی اسمبلی اوروفاقی کابینہ بحال کردی۔سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجربینچ نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی کی رولنگ کے بعدکئے جانیوالے وزیر اعظم کے تمام اقدامات اورصدرمملکت کااسمبلی تحلیل کرنے کافیصلہ بھی کالعدم قراردیدیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے پانچویں روز از خود نوٹس کیس کا محفوظ فیصلہ جاری کیا۔جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بینچ میں شامل تھے ۔آٹھ صفحات کامختصرمحفوظ فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل نے سنایاجبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے میں کہاگیا وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کے اہل نہیں تھے ،سپیکر فوری اجلاس بلاکرکل صبح ساڑھے دس بجے عدم اعتمادپرووٹنگ کرائیں، ووٹنگ کرائے بغیر اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہ کیا جائے ،سپریم کورٹ نے حکم دیاکہ تحریک عدم اعتمادکامیاب ہوتونیاوزیراعظم فوری منتخب کیاجائے ،تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے ،حکومت کسی صورت ارکان کوووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتی،سپیکرتحریک عدم اعتمادنمٹانے تک اجلاس موخرنہیں کرسکیں گے ۔چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے ریمارکس دیئے پانچ صفر سے فیصلہ سنا رہے ہیں، موجودہ معاملات نمٹائے جاتے ہیں، وزیراعظم صدر کو ایڈوائس نہیں کرسکتے تھے ، اب تک کے قانونی اقدامات غیر آئینی تھے ۔سپریم کورٹ نے وزیر اعظم عمران خان کوبھی بحال کردیا۔سپریم کورٹ نے قرار دیا موجودہ حکمنامے سے آرٹیکل 63 کی کارروائی متاثر نہیں ہوگی، صدر کی نگران حکومت کے احکامات کالعدم قرار دیئے جاتے ہیں۔قبل ازیں دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے ہمیں قومی مفاد کو بھی دیکھنا ہے ،ایک بات واضح نظر آرہی ہے کہ رولنگ غلط ہے لیکن اس سے پہلے حزب اختلاف کی جماعتوں کا بھی تازہ انتخابات کرانے کا مطالبہ تھا۔سپریم کورٹ کی طرف سے نئے انتخابات کی تجویز پر شہباز شریف نے کہا اگر سپیکر کی رولنگ غیر قانونی ہے تو اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدمات بھی غیر قانونی ہیں،غداری کے الزام کیساتھ الیکشن کیسے لڑیں گے ۔شہباز شریف پھر روسٹرم پر آگئے اور کہا غداری کے الزام کے ساتھ ہم اپنے گھر والوں کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے تو عوام میں کیسے کھڑے ہوں گے ۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہاغیر قانونی رولنگ کے نتیجے میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پہلے والے انتخابات کی طرح ہی ہوں گے ،انتخابات میں جانے سے پہلے انتخابی اصلاحات ضروری ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کرونگا لیکن موجودہ صورتحال میں بہترین حل یہ ہے کہ عوام سے تازہ مینڈیٹ کیلئے رجوع کیا جائے ۔مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے کہااٹارنی جنرل کی آخری گزراش دھمکی آمیز ہے ،کون کس کو نہیں بخشے گا ،کس نے کس کو سرپرائز دیا اس میں نہیں جائیں گے لیکن اگر اسمبلی کی تحلیل کو بحال رکھا گیا تو ایسا کرنا اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے مارشل لا دور کی شق 58(2)(b)کو زندہ کرنے کے مترادف ہوگا، ماضی میں صدر جنرل ضیا الحق اور غلام اسحاق نے سازش کرکے آئین اور اسمبلی کا گلا کاٹا اوراب وزیر اعظم اور صدر مملکت نے سپیکر کے ساتھ ساز باز کرکے گلا کاٹا۔ چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو کہاآپ کے موکل کے خلاف بھی سنجیدہ الزامات ہیں،ہمیں عوام اور آئین کا استحکام چاہئے ،عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہارات کو نجی ہوٹل میں تمام ایم پی ایزنے حمزہ شہباز کو وزیراعلی بنا دیا، حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی بلا لی،آئین ان لوگوں کیلئے انتہائی معمولی سی بات ہے ۔چیف جسٹس نے کہا پنجاب کے حوالے سے ہم کوئی حکم نہیں دیں گے ،آپ پنجاب کا معاملہ ہائیکورٹ میں لیکر جائیں۔ صدرعلوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل شروع کئے تو ن لیگی وکیل رہنما اعظم تارڑ نے کہا عوامی نمائندوں کو اسمبلی جانے سے روکیں گے تو وہ کیا کریں؟ ۔جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال کیاکہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اس سے تحفظ ہوگا؟ ،کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں؟۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا پارلیمنٹ کی کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہو گی؟، کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے ؟۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا وزیراعظم کون ہوگا؟۔ علی ظفر نے کہاوزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔چیف جسٹس نے کہا اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟،علی ظفر نے کہا اگر ججز کا آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے ؟جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے ؟ ،کہیں تو لائن کھینچنا پڑے گی۔علی ظفر نے جونیجو حکومت کے خاتمے سے متعلق عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا۔چیف جسٹس نے کہاآپ کیوں نہیں بتاتے کیا آئینی بحران ہے ؟۔ بیرسٹرعلی ظفر نے کہا میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہااسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیراعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں؟۔وزیر اعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل شروع کئے تو چیف جسٹس نے سوال کیا بظاہر اس معاملے میں آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی،اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے توکیا حکومت الیکشن کا اعلان کردے ؟،ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا یہ قومی مفاد ہے ۔ وکیل امتیازصدیقی نے کہا عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کاروائی میں مداخلت نہیں کی، ڈپٹی سپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر عدالت کو جوابدہ نہیں،جسٹس منیب اختر نے کہا جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں،امتیاز صدیقی نے کہاکہ معذرت کیساتھ مائی لارڈ،7 رکنی بینچ کے آپ پابند ہیں،جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ان میں آبزرویشنز ہیں اورعدالت آبزرویشنز کی پابند نہیں،چیف جسٹس نے سوال کیاکہ کیا ڈپٹی سپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟ کیا رولنگ نیک نیتی پر مبنی تھی؟، ڈپٹی سپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے ؟ ، وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے ؟، ڈپٹی سپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی، سپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا وزیراعظم نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی۔ڈپٹی سپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے کہا پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کر سکتا ہے ،نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا، اب معاملہ عوام کے پاس ہے ،اس لئے سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیئے ،وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو جسٹس مظہر عالم نے پوچھارولنگ پر سپیکر اسد قیصر کے دستخط ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کیا کیا سپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے ؟۔جسٹس جمال خان نے سوال کیا رولنگ پر دستخط سپیکر کے ہیں ، ڈپٹی سپیکر کے دستخط کدھر ہیں۔جسٹس مظہر عالم نے کہا ایسا لگتا ہے ڈپٹی سپیکر کو لکھا ہوا ملا کہ یہ پڑھ دو۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد لیو گرانٹ ہوئی، چیف جسٹس نے سوال کیا لیو کون گرانٹ کرتا ہے ؟،اٹارنی جنرل نے کہا ہاؤس لیو گرانٹ کرتا ہے ، اٹارنی جنرل نے کہانیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے ، قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفنگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پر تیار ہوں ،وزیراعظم سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں اس لئے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے ، اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں، صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی،تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا، ووٹ ڈالنے کا حق آئین اور اسمبلی رولز سے مشروط ہے ۔چیف جسٹس نے کہا ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے ،اپوزیشن لیڈر کیلئے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا ۔شہباز شریف نے کہا حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی ہمارے ممبر 177 ہیں، آئین کی بحالی اور عوام کیلئے اپنا خون پسینہ بہائیں گے ،مسئلہ آئین توڑنے کا ہے ، جسٹس جمال خان نے کہا آئین کی مرمت ہم کر دینگے ، شہباز شریف نے کہا کہ اپوزیشن سے ملکر انتخابی اصلاحات کرینگے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے ،عام آدمی تباہ ہوگیا اس کیلئے ریلیف پیدا کرنے کی کوشش کرینگے ، اٹارنی جنرل نے کہا سب چاہتے ہیں اراکین اسمبلی کے نہیں عوام کے منتخب وزیراعظم بنیں لیکن جنہوں نے عمران خان کو پلٹا ہے وہ شہباز شریف کو بخشیں گے ؟۔ چیف جسٹس نے ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کی تعریف بھی کی۔ چیف جسٹس نے کہااپوزیشن پر بہت سنجیدہ الزامات عائد ہیں،اس لئے سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں۔سیاسی جماعتوں کا آپس میں تعلق اتنا خراب ہے کہ پتا نہیں ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں، میاں صاحب وہ آپ سے ناراض رہتے ہیں ہاتھ نہیں ملاتے ، جسٹس جمال خان مندو خیل کا کہنا تھا کہ میاں صاحب چھوڑ دیں آپ میں سے کسی کو کچھ نہیں کہا گیا، شہباز شریف نے کہا سازش کے ثبوت لے آئیں عدالت کی ہر سزا قبول کرتے ہوئے سیاست چھوڑ دونگا، چیف جسٹس نے کہا سیاسی لوگ سپریم کورٹ کے احاطہ کو ناپاک نہ کریں، ہم پر تنقید اور لڑائیاں بھی ہوتی ہیں،قوم قیادت کیلئے ترس رہی ہے ،مجھے کہا گیاباہر میڈیا ٹاک پر پابندی لگا دیں،لیکن میں نے عملے کو کہا سیاستدانوں سے کمرہ عدالت میں درخواست کروں گا، رضا ربانی نے کہا انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ الیکشن اور اسٹیبلشمنٹ دونوں متنازعہ ہوئے ،ان حالات میں اصلاحات کے بغیر انتخابات کا فائدہ نہیں ہوگا۔