1987ء کی بات ہے مال روڈ پر ایک صحافی کی دکان تھی۔ وہ پبلشر بھی تھا اور کتابیں امپورٹ بھی کرتا تھا۔ اس زمانے میں وہ اپنی دکان اور پبلشنگ ہائوس کو بہت وقت دیا کرتے تھے۔ پاکستان کے سیاسی نظام پر انگریزی میں کسی اچھی کتاب کی تلاش میں تھا۔ جب بک شیلف دیکھ کر تسلی نہ ہوئی تو مَیں موصوف کے دفتر کے اندر چلا گیا۔ ان سے پوچھنے ، ان سے کچھ مشورہ کرنے۔ اس صحافی نے کافی کی دعوت دی اور انگریزی زبان کے بڑے بڑے رائٹرز اور ان کی تحریروں پر بات ہونے لگی۔ انہوں نے بتایا کہ آپ ان رائٹرز کو ضرور پڑھیں۔ کچھ ملکی اور کچھ غیرملکی۔ کتابیں خرید کر جب میں نے ان سے اجازت چاہی تو مجھے کہنے لگے ’’یہ کتاب میری طرف سے‘‘۔ کتاب کا نام تھا "Give us back our onions" (ہمارے پیاز واپس کرو)۔ یہ طنز تھا اس عہد کے حکمرانوں پر۔ یہ انگریزی کالموں کا مجموعہ تھا خالد حسن کا۔ یہ میرا خالد حسن سے پہلا غائبانہ تعارف تھا۔ وہ پبلشر صحافی بعد میں بہت مقبول ہوئے اور ان کا ایک انگریزی ہفت روزہ ہے۔ اس ہفت روزے نے انگلش جرنلزم کو بڑے نام دیئے ۔ خالد حسن کو پڑھا اور پڑھتا ہی چلا گیا۔ اس کے کالم اور کتابیں میری لائبریری کا حصہ بنتے چلے گئے۔ وہ قائداعظمؒ کے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید کے برادر نسبتی تو تھے ہی مگر ایک کہنہ مشق سفارت کار بھی تھے۔ تقریباً چالیس کتابیں لکھیں۔ باخبر اور حاضر دماغ صحافی تھے۔ انگریزی زبان کے صاحب طرز، صف اول کے کالم نگار خالد حسن سے میں کبھی نہیں ملا مگر ان کی تحریروں سے عشق زندگی کا حصہ رہا۔ وہی خالد حسن جو بھٹو پر لکھتا ہے تو اس سے محبت کے باوجود اس کے تضادات بیان کرنے میں کوئی رعایت نہیں کرتا۔ خالد حسن بیوروکریسی کا حصہ بھی رہے اور کچھ مشہور سرکاری افسران کو وہ سول سرونٹس کی بجائے CIVIL SERPENTS یعنی اژدھے قرار دیا کرتے تھے۔ وہی بیوروکریٹس جن کی وجہ سے پاکستان کی تقدیر کا رخ ہی تبدیل ہوگیا۔ خالد حسن میڈم نورجہاں اور قرۃ العین حیدر کی محبت میں گرفتار نظر آتے ہیں۔ وہ فیض احمد فیض اور اے حمید کا دوست ہے۔ بے نظیر بھٹو کا شناسا، سیالکوٹ کو ٹوٹ کر چاہنے والا …زندگی کے ایسے کرداروں سے متعارف کرانے والا کہ انسان سوچتا رہ جائے کہ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ ہر بڑے قلمکار کی طرح طنز و مزاح میں پروئے ہوئے جملے اس کی جیب میں ہمشیہ موجود ہوتے تھے۔ خالد حسن کے کالموں میں، تحریروں اور خاکوں میں بار بار زمرد ملک اور حامد جلال کا ذکر ملتا ہے۔ حامد جلال مشہور تاریخ دان پروفیسر عائشہ جلال کے والد تھے جو منٹو کے بھی عزیز تھے۔ زمرد ملک …خالد حسن کا کالج فیلو تھا۔ شاعری، نجوم، پتنگ بازی، وجودیت، انقلاب اور بلیئرڈ پر بات کرتا تو سننے والے دیر تک سنتے۔ وہ دست شناسی، زائچہ بنانے، گورمکھی، سگمنڈ فرائڈ، روسی غلام گردشوں میں جنم لیتی کہانیوں، پنجابی کی صوفیانہ شاعری اور مصوری پر نہ صرف دسترس رکھتا تھا بلکہ ان سب پر منفرد خیالات بھی رکھتا تھا۔ ایک دن زمرد کو مال روڈ پر کتابوں کی ایک دکان کے کے سامنے دل کا دورہ پڑا اور وہ اچانک مر گیا۔ خالد حسن پر دو عورتوں کا خاصا IMPACT رہا۔ نورجہاں اور قرۃ العین حیدر۔ پر لطف بات یہ ہے کہ یہ دونوں خواتین بارعب بھی تھی اور جلالی بھی۔ مگر خالد نے ان دونوں سے نہایت آسانی سے اظہار پسندیدگی کردیا۔ خالد حسن کی ایک کتاب کا نام ہے ’’سکور کارڈ‘‘۔ اس میں ذوالفقار علی بھٹو، نورجہاں، سیالکوٹ اور پاکستان ٹائمز کے خاکے ہیں۔ انگریزی میں یہ کتاب باکمال بلکہ بہت ہی باکمال ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ راجہ انور نے کیا ہے۔ راجہ انور کہتے ہیں کہ ہم دونوں نے بھٹو کے ساتھ کام کیا۔ ہم دونوں ضیاء الحق کے تمام عہد میں جلاوطن رہے۔ ہم دونوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ جرمنی میں گزارا۔ وہ آسٹریا میں رہے اور میں فرینکفرٹ میں۔ راجہ انور کے مطابق ’’ترجمہ واقعی صرف ترجمہ نہیں ہوتا بلکہ یہ اصل تخلیق کی طرح ہی دوسری زبان میں تخلیق کا کام ہوتا ہے‘‘۔ سکور کارڈ کے ترجمے …مقابل ہے آئینہ میں یہ چاروں خاکے پڑھنے کے لائق ہیں۔ میڈم نورجہاں پر بات کرتے ہوئے خالد حسن کہتے ہیں ’’نورجہاں ایک بڑی خاتون تھیں جسے روایتی معیارات پر ماپنا ،تولنا درست نہیں۔ وہ اپنا معیار خود تخلیق کرتی تھیں۔ یہ ان جیسی دبنگ عورت ہی کہہ سکتی تھی ’’میں حسن پرست ضرور ہوں مگر بدکردار نہیں‘‘۔ خالد حسن پاکستان ٹائمز میں کام کررہے تھے، نور جہاں اور اعجاز کی طلاق کا معاملہ چل رہا تھا۔ خالد نے میڈم سے فون پر ملاقات کا وقت مانگا۔ وقت طے ہوگیا۔ لاہور کی موجودہ لبرٹی کے قریب میڈم کے بنگلے کے نفیس ڈرائنگ روم میں سلور ٹرالی میں چائے آئی اور پھر میڈم بھی۔ میڈم نے سفید ساڑھی پہن رکھی تھی اور انگلیوں میں ہیرے کی انگوٹھی بھی۔ پہلی ملاقات کی سفید ساڑھی اور ہیرے اور سونے کی جیولری خالد حسن کی یادداشت میں ایسی محفوظ ہوئی کہ خالد کو ہمیشہ وہی پہلی ملاقات والی نورجہاں ہی یاد رہی۔ قرۃ العین حیدر کے ساتھ خالد کا تعلق بڑا منفرد تھا۔ وقفوں وقفوں سے ملاقاتیں، خطوط کا تبادلہ، رسمی انٹرویو … غیر رسمی مکالمے، ٹیلی فونک رابطے۔ خالد قرۃ العین کو اردو ادب کا ’’حاضر امام‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ادب کی خاتون اول نے ایک دن خالد سے کہا ’’آئو تمہیں وقت کا تصور سمجھائوں‘‘۔ یہ بات 1980ء کی ہے۔ تم ساٹھ کی دہائی کو کتنا پرانا محسوس کرتے ہو؟ خالد ’’ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے‘‘۔ ’’اب ساٹھ کی دہائی میں کھڑے ہوکر چوتھائی صدی پیچھے چلے جائو‘‘ قرۃ العین نے کہا۔ یہ بھی تمہیں پچھلے کل ہی کی بات لگے گی۔ خالد نے لکھا ’’جب میں نے غور کیا تو پلک جھپکتے ہی 1935ء میں چلا گیا اور حیران رہ گیا۔ وہی بھٹو جس کا خالد عاشق تھا اور ہمیشہ رہا اس کے بارے میں وہ کہتا ہے ’’بھٹو کو اپنے دوستوں کے اخلاص پر ہمیشہ شک رہتا تھا۔ وہ ذاتی تنقید کے معاملے میں بہت حساس تھا اور عوامی خزانے کو غیرضروری خرچ کرنے پر ذرہ برابر نہ چوکتا تھا‘‘۔ ضیاء الحق کے دور میں خالد حسن نے فیض صاحب کو لکھاکہ وہ ضیا کے خلاف معرکے کا حصہ نہ ہونے پر افسردہ ہے کہ وہ لندن میں ہے۔ فیض صاحب نے جوابی خط میں ایک چینی مقولہ بھی لکھا ’’جب سیاست کی گنجائش نہ ہو تو بہترین راستہ یہ ہے کہ انسان خوب محنت کرے، دل جمعی سے مطالعہ کرے اور خیرخواہ دوست بنائے‘‘۔ بے نظیر سے خالد کا بڑا قریبی تعلق رہا۔ محترمہ کی اچانک موت پر وہ بہت دنوں تک آزردہ رہا۔ افسوس خالد حسن کو اپنے ملک کی مٹی دفن ہونے کے لیے میسر نہ آسکی۔