چیئرمین سینٹ کے غیر متوقع انتخابی نتائج آنے پر حکومتی پارٹی جشن جبکہ اپوزیشن سوگ منا رہی ہے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی ووٹ دینے والے اپوزیشن کے سینیٹروں کی روشنِِ ضمیری پر انہیں خراج تحسین پیش کر رہے ہیں اور میاں شہباز پارٹی سے بے وفائی کر کے حکومت کے حق میں ووٹ ڈالنے والے سینیٹروں کو ضمیر فروشی کا طعنہ دے رہے ہیں۔ سوال بڑا دلچسپ ہے کہ 14سینیٹرز روشن ضمیر ہیں یا ضمیر فروش؟ اس اہم سوال کا جواب ہم ضرور آپ سے شیئر کریں گے مگر پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ اگست 2019ء میں چیئرمین سینٹ کا انتخاب مارچ 2018ء میں چیئرمین سینٹ کے الیکشن کا ایکشن ری پلے تھا تب سینٹ میں جو پارٹی پوزیشن تھی اس کے مطابق مسلم لیگ ن کے پاس 30پیپلز پارٹی کے پاس 20اور پی ٹی آئی کے پاس صرف 17سیٹیں تھیں۔ اس وقت یہ بات یقینی سمجھی جا رہی تھی کہ مسلم لیگ ن بلوچستان عوامی پارٹی کی 11اور ایم ایم اے کی 6نشستوں کے علاوہ آزاد وغیرہ کو ملا کر اپنا چیئرمین آسانی سے منتخب کروا لے گی۔ مگر ان دنوں بھی غیب سے معجزہ رونما ہوا اجماع ضدین ہوا اور ناممکن ممکن ہوا اور پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا درپردہ اتحاد وجودمیں آیا۔ اس اتحاد نے صادق سنجرانی کی صورت میں ایک نیا رخ روشن پیش کیا جس کو روشن ضمیر سینیٹروں نے ووٹ دیے اور یوں راجہ ظفر الحق کو 57سے اوپر متوقع ووٹ ملنے کی بجائے صرف 46ووٹ ملے۔مسلم لیگ ن کی شکست پر بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ آج ہم نے سابق فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کے اوپننگ بیٹسمین کو شکست سے دوچار کر دیا۔ ایم ایم اے کی بحالی ہو‘ جماعت اسلامی کی اس میں دوبارہ شرکت کا معاملہ ہو یا موجودہ حکومت کے فسطائی ہتھکنڈوں سے جمہوریت کو محفوظ رکھنے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کا محاذ ہو، ہم پر مولانا فضل الرحمن کی طرفداری کا الزام ملتا ہے۔ ہم نے ہمیشہ اس الزام کو خوش دلی سے قبول کیا ہے۔ چیئرمین سینٹ کی تبدیلی اور اس تبدیلی سے طاقت کے توازن کا فلسفہ بھی مولانا ہی کا پیش کردہ تھا مگر اس بار ہمیں کہنا پڑے گا کہ ع زاہد ترے عرفاں سے کچھ بھول ہوئی ہے لگتا ہے مولانا نمبروں کی کثرت سے شاداں و فرحاں تھے اس لئے انہوں نے کسی دقیق و عمیق ہوم ورک کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہی سبب تھا کہ جب شبلی فراز کی قیادت میں حکومتی پارٹی چل کر ان کے گھر آ گئی تو مولانا نے حکومتی وفد کا اکرام و احترام تو کیا مگر کسی ’’لین دین‘‘ یا اپوزیشن کے لئے کسی ریلیف کی بات نہ کی۔ بلکہ اس ملاقات کے ایک دو روز بعد مولانا نے ایک جلسہ عام میں ’’بڑا بول‘‘ بول دیا کہ حکومتی پارٹی مجھ سے این آر او لینے آئی تھی مگر میں نے انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کے چیئرمین سینٹ کے امیدوار حاصل بزنجو نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ انہیں سینٹ ارکان کی وفاداری خریدنے کی کسی کارروائی کا کچھ علم نہیں مگر اب شکست کے بعد وہ ’’دست غیب‘‘ کی کارفرمائی کا شکوہ کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی نظر سینیٹروں پر نہ تھی۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں کہ عمران کا بیانیہ جیت گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ اگر لب کشائی سے پہلے غور فرما لیتیں تو ان پر منکشف ہوتا کہ عمران خان کا بیانیہ بھی شکست سے دوچار ہوا اور اسی طرح میاں نواز شریف کا بیانیہ بھی ہار گیا۔ عمران خان کا بیانیہ کیا تھا؟ عمران خان نے ایک ڈیڑھ برس قبل بڑی شدو مد سے کہا تھا کہ سینٹ میں سینیٹروں کی میلہ منڈی لگتی ہے جہاں ان کے ضمیروں کا سودا ہوتا ہے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ سینٹ میں خفیہ ووٹنگ ایوان کی توہین ہے۔میاں نواز شریف کا بیانیہ تھا کہ ووٹ کو عزت دو۔ ان کے اپنے سینیٹروں نے ہی ووٹ کی عزت اور حرمت کو پامال کیا اور پارٹی پالیسی کے برعکس ووٹ دیا۔ اگر مسلم لیگ(ن) سینٹ کے ٹکٹ عرفان صدیقی اورجاوید ہاشمی جیسی شخصیات کو نہیں دے گی اور ایسے لوگوں کو ٹکٹ دے گی جو بک بھی سکتے ہوں اورجھک بھی سکتے ہوں تو پھر ایسا ہی نتیجہ آئے گا جیسا جمعرات کے روز سینٹ میں آیا۔ مجھے کسی پارٹی کی فتح سے کوئی خوشی ہوئی اور نہ ہی کسی پارٹی کی شکست سے کوئی رنج پہنچا۔ البتہ مجھے یہ دیکھ کر بے حد افسوس ہوا کہ گزشتہ روز من حیث القوم ہمارا جو منفی امیج دنیا کے سامنے گیا وہ انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ ساری دنیا دیکھ رہی تھی کہ سینٹ کے مقدس ایوان میں کھڑے ہو کر سینٹ کے 64ارکان نے چیئرمین سینٹ کو ہٹانے پر رضا مندی ظاہر کی۔ مگر جب بیلٹ باکس میں ووٹ ڈالے گئے تو وہ صرف 50تھے۔ سیٹ سے بیلٹ باکس تک 14افراد نے اصولوں کی غیرت کا سودا کیا اور اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دیا۔ اگر وہ اپنا راستہ اپنی پارٹی سے جدا کر چکے تھے تو پھر انہیں باضمیر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ایوان میں کھڑا ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ دنیا کے سامنے ہماری اخلاقی ساکھ جس طرح برباد ہوئی تو اس قومی المیے پر ہر سیاسی پارٹی‘ ہر مذہبی جماعت اور ہر واجب الاحترام قومی ادارے کو بے پناہ تشویش ہونی چاہیے تھی کہ اخلاقی معیار کے اعتبار سے ہم کہاں کھڑے ہیں۔ آج ترقی یافتہ دنیا نے سائنس و ٹیکنالوجی معیشت ‘ سیاست و معاشرت‘ تہذیب و تمدن اور تعلیم میں بے پناہ ترقی کی ہے اس کے پیچھے ان کی اصل قوت اخلاقی قوت ہے۔ جب معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور ثقافتی اشارے نشاندہی کر رہے ہوں کہ قوم پستی کی طرف جا رہی ہے تو پھر قومی قائدین پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ ہم اخلاقی امراض میں کہاں تک مبتلا ہو چکے ہیں۔ ہم آج شدید نوعیت کے اخلاقی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔ معیشت میں دھوکا اور فریب‘ سیاست میں ذاتی مفاد کی برتری اور بے ایمانی ‘ معاشرت میں حقوق کی پامالی اور فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی وغیرہ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جناب عمران خان نے اس قوم کے سارے سیاسی معاشرتی امراض کی بڑی درست تشخیص کی تھی مگر جب مرحلہ علاج کا آیا تو عمران خان نے سیاسی منفعت کو سیاسی و اخلاقی امراض کے علاج پر ترجیح دی تبھی تو آج ضمیر کا سودا کرنے والوں کو ’’روشن ضمیر سینیٹرز‘‘ کا لقب عطا کیا جا رہا ہے۔