دی ہیگ(این این آئی) نوبیل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی نے عالمی عدالت انصاف میں میانمار کی سربراہ کی حیثیت سے اپنے ملک میں ہونے والے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی محض مفروضہ ہے ،راخائن میں فسادات ہمارا اندرونی معاملہ ہے ۔ افریقی ملک گیمبیا کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں میانمار کیخلاف روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور خواتین کی عصمت دری پر تحقیقات کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔ دوسری سماعت کے موقع پر آنگ سانگ سوچی نے کہا کہ کیا ایسے ملک میں نسل کشی کا تصور کیا جا سکتا ہے جہاں غیر قانونی عمل پر فوج کے افسروں اور اہلکاروں سے نہ صرف تفتیش کی جاتی ہے بلکہ انہیں کڑی سزائیں بھی دی گئیں، راخائن کا معاملہ پیچیدہ ہے جہاں روہنگیا اقلیت کو کچھ مشکلات کا سامنا بھی ہے انہیں فسادات کے نتیجے میں لاکھوں افراد کے بنگلہ دیش میں پناہ لینے کا علم ہے اور ان کی حالت زار پر افسوس بھی ہے ، بدامنی اور دہشت گردی میں ملوث روہنگیا سلویشن آرمی کیخلاف کارروائی کی گئی ہے ، یہ لوگ حکومت کو متعدد وارداتوں میں مطلوب تھے ۔حیران کن طور پر آنگ سانگ سوچی نے اپنے ملک کے فوجی جنرلز اور شدت پسند بدھوں کی حمایت کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی، بچوں کے قتل، خواتین کی عصمت دری اور املاک کو نذر آتش کرنے کے سفاکانہ اور غیرانسانی عمل کا دفاع کیا۔آنگ سانگ سوچی نے کہا کہ رخائن میں بدامنی اور دہشت گردی میں ملوث ارکان روہنگیا سلویشن آرمی کیخلاف کارروائی کی گئی ہے تاہم اپنی گفتگو میں آنگ سانگ سوچی نے اقوام متحدہ کی غیر جانبدار رپورٹ کا تذکرہ نہیں جس میں نسل کشی کے شواہد پیش کیے گئے تھے ۔ گیمبیا کے وکیل اینڈریو لووینسٹین نے اقوام متحدہ کی رپورٹ پیش کی جس میں ایک گاؤں ’من گئی‘ میں 100 بچوں سمیت 750 افراد کو قتل کرنے کے شواہد پیش کیے گئے تھے ، علاوہ ازیں ایک خاتون کا بیان پیش کیا گیا جسے فوجی اہلکار نے نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنایا بلکہ 20 دن کے بچے کو فرش پر پٹخ کر قتل کردیا تھا۔