پاکستانی عوام کا ایک ہی مطالبہ ہے اور وہ ایک ہی خواہش کرتے ہیں کہ کسی طرح پاکستان میں مہنگائی کم ہو جائے نہ صرف عوام بلکہ حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ مہنگائی کم کرنے کا کوئی سرا ہاتھ جائے۔ اس پریشان کن لمحات میں تھوڑی سی روشنی دکھائی دی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں جو ان حالات میں خدائی سہارے سے کسی صورت کم نہیں دنیا بھر کیلئے یہ اچھی خبر ہے لیکن پاکستانیوں کیلئے اس سے اچھی خبر فی الحال نہیں ہو سکتی ۔پچھلے ہفتے امریکہ اور چین سمیت چند بڑی معیشتوں نے اپنے تیل کی پیداوار بڑھانے کا اعلان کیا وجہ یہ تھی کہ تیل کی بے قابو قیمتیں جو 84 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھیں اور اسی کے ساتھ کورونا کا نیا وائرس ایمی کرون بھی آگیا، اس سے پوری دنیا میں کھلبلی سی مچ گئی اس کا براہ راست اثر تیل کی قیمتوں پر پڑا۔25 نومبر کو امریکی خام تیل کی جو قیمت تھی78 ڈالر فی بیرل سے بڑھ گئی تھی وہ 10 فیصد کم ہو کر68 ڈالر فی بیرل تک گر گئی پاکستان اپنی ضرورت کا 80 فیصد تیل در آمد کرتا ہے اور پچھلے سال تیل مصنوعات کی در آمدات میں پاکستان نے 10 ارب ڈالر سے زائد ادا کئے اس سال یہ امپورٹ بل مزید بڑھنے کا امکان ہے پاکستان میں کورونا کے خدشات ویسے نہیں جیسے اور ممالک میں ہیں۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ جاری رہا تو پاکستانی معیشت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے یہ ہماری معیشت کو سہارا دینے کیلئے بہت اہم ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئی ہیں ہم تو چاہتے ہیں کہ تیل کی قیمتیں اور کم ہوں اور کم ہی رہیں اس سے مہنگائی میں کمی آئے گی اور لوگوں کو سکھ کا سانس ملے گا ۔دنیا جہاں کورونا کے نئے ویرینٹ سے پریشان ہے وہاں خام تیل کی عالمی قیمتیں کم ہونے سے پاکستان کے معاشی منصوبہ سازوں کو کچھ سکھ کا سانس ملا ہے لوگ پہلے تیل کی قیمتوں میں کمی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ اب جبکہ عالمی منڈی میں قیمتیں کم ہو رہی ہیں تو پاکستان میں بھی یہ کمی دیکھنے کو ملے گی اگر تیل کی قیمتیں اسی طرح کم رہتی ہیں تو حکومت کو اگلے 7 ماہ میں تقریباً 60 کروڑ ڈالر کی بچت ہو گی جب تیل کی قیمتوں کی ادائیگی کا وزن کم ہو گا تو بین لاقوامی ادائیگیوں کا توازن بہتر ہو جائے گا، ادائیگیوں میں کمی سے روپے کی گرتی ہوئی ،قدر کو سہارا ملے گا، زرمبادلہ ذخائر بھی مستحکم ہونگے جن میں اگست سے اب تک4 ارب ڈالر کی کمی ہو چکی ہے۔ خام تیل سستا ہونے سے ملک کے بیرونی کھاتوں کی صورتحال بھی بہتر ہو گی ،مقامی طور پر بھی فائدہ ہو گا ،پٹرول سستا ہو گا ،تو مہنگائی بھی کم ہو گی کیونکہ سفری لاگت اشیا کی قیمت کا تقریباً20 فیصد ہو تی ہے۔ مہنگائی کم ہوگی تو اسٹیٹ بنک شرح سود نہیں بڑھائے گا جس سے معیشت کا پہیہ بھی گھومے گا اور لوگوں کیلئے روز گار کے مواقع پیدا ہونگے اسکے علاوہ فرنس آئل اور ایل این جی سستی ہوگی تو بجلی کی قیمت بھی نہیں بڑھے گی سرکو لر ڈیٹ بھی کم ہو سکتا ہے جو اس وقت 2600 ارب تک پہنچ چکا ہے پچھلے چار ماہ میں پاکستان نے 6 ارب ڈالر کے قریب پٹرولیم مصنوعات پر خرچ کئے ہیں جن میں ایل این جی،کروڈ آئل وغیرہ شامل ہے۔گزشتہ ماہ پاکستان نے 1.6 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات امپورٹ کی ہیں اس تناسب سے ایک سال میں18 ارب ڈالر کی ہم پٹرولیم مصنوعات خرید رہے ہیں۔ گزشتہ سال ہم نے10 ارب ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات امپورٹ کی تھیں اگر پورے سال میں 5 ڈالر کروڈ آئل کی قیمت کم ہوتی ہے تو اس سے1.2 ارب ڈالر کی ہماری دآمدات کم ہو جائینگی اس سے پٹرول کی قیمت بھی 7سے8 روپے کم ہو سکتی ہے اس سے افراط زر میں بھی فائدہ ہو گا-آج کل سردیوں کا موسم ہے ،سردیوں میں ہیٹنگ آئل کی ڈیمانڈ ویسے ہی ہوتی ہے اگلے سال مارچ تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مزید کم ہونگی اوپیک بھی روزانہ 4 لاکھ بیرل پیداوار بڑھا رہا ہے جس طرح سے پٹرولیم کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں دیکھا جا رہا ہے کہ اس کا متبادل کیا ہو سکتا ہے جیسے 30 سے35 ڈالر کی ایل این جی ہے،تیل مہنگا ہے ۔یہاں تک کہ امریکا میں گیس کی قیمت 2012 سے مہنگی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اس کا مطلب ہے پوری دنیا میں پریشر ہے۔ پاکستان میں ہر15 دن بعد تیل کی قیمتیوں میں کمی بیشی ہوتی ہے اب یہ کمی 7 سے 8 روپے بن رہی ہے، اب حکومت نے لیوی اور جی ایس ٹی لگانا ہے تو شاید دو ماہ تو یوں ہی چلے اس بار دو ماہ کا گیپ تو پورا ہو گیا ہو گا ۔گر عالمی منڈی میں تیل کی قیمت مزید کم ہو بھی جائے تو پاکستان میں ابھی قیمتیں کم ہونا مشکل ہے۔ ہمیں کوئلے اور ایل این جی میں فائدہ ہو سکتا ہے، وہ سستی ہو سکتیں ہیں-اب سعودی عرب کی طرف سے تین ارب ڈالر آچکے آئی ایم ایف سے پیسے مل چکے، تیل کی قیمتیں کم ہوگئیں لیکن اس کے با وجود ڈالر اوپر ہی جا رہا ہے۔ اسکی وجہ ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ ایکسچینج ریٹ کی وجہ بھی ہے مارکیٹ ڈیمانڈ اور سپلائی پر بیس کرتی ہے کیونکہ پچھلا مہینہ میں جاری کھاتوں کا خسارہ 1.6 ارب ڈالر تھا تو وہ گیپ آگیا۔ مارکیٹ میں اس کا پریشر ابھی تک چل رہا ہے اس مہینے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے اگرچہ ایکسپورٹ کا نمبر اچھا آرہا ہے لیکن امپورٹ بھی کافی بڑھ گئی ہے تو اس وجہ سے ڈالر کی ڈیمانڈ زیادہ ہے سپلائی کم ہے۔ اسٹیٹ بنک مداخلت نہیں کر رہا اسی لئے ڈالر اوپر جا رہا ہے- عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد حکومت کو چاہیے کہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچائے، جس سے معیشت کو فائدہ ہوگا۔کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث عالمی معیشت سست روی کا شکار تھی، جس کا اثر پٹرولیم کے شعبے میں بھی ہوا۔تیل کی قیمتوں کا فیصلہ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کرتی ہے اور اوپیک نے سعودی عرب اور روس سے گزارش کی تھی کہ تیل کی قیمتوں میں استحکام کے لیے اپنی تیل کی پیداوار کم کریں مگر روس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے جواب میں سعودی عرب نے بھی رعایت دینا شروع کر دی اور اب تیل کی قیمت چند دنوں میں کافی کم ہو چکی ہے-تیل کی قیمتیں کم ہونے سے ملک میں مہنگائی کم کرنے میں مدد ملے گی۔اس سے شرح سود میں بھی چار فیصد تک کمی آ سکتی ہے۔ ن لیگ کے دور 2014 میں بھی ایسا بھونچال آیا تھا جس سے ن لیگ کو فائدہ ہوا تھا اور آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے میں مدد ملی تھی۔موجودہ بھونچال مسلم لیگ ن کے زمانے سے بڑا ہے اور حکومت کو چاہیے کہ اس کا فائدہ عوام تک پہنچایا جائے۔اگر اس کا فائدہ عوام تک پہنچے تو عوام آمدن میں اضافہ ہو گا کیوں کہ صرف تیل ہی نہیں دیگر چیزوں کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔اس سے بجلی اور گیس کی قیمتوں پر بھی اثر پڑے گا کیوں کہ اب بجلی اور گیس کی قیمت بڑھانے کی شاید ضرورت نہ پڑے۔ پاکستان کا امپورٹ بل آدھا ہو سکتا ہے اور سٹیٹ بینک کے پاس ڈالر کے ذخائر بھی بڑھ جائیں گے۔پاکستان تیل کے بدلے سعودی عرب کو موخر ادائیگیاں کرے گا۔ سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ موخر ادائیگیوں کا ہے اور جس مہینے میں تیل خریدا گیا، وہ ادائیگیاں اسی قیمت پر ہوں گی۔موخر ادائیگی کی سہولت صرف سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ ’ہم تیل کویت اور متحدہ عرب امارات سے بھی لیتے ہیں اور قطر سے گیس لیتے ہیں جو کہ نقد ہوتی ہے۔