عجب معاملہ ہے کہ دوسال کے عرصے میں تمام تر حکومتی دعوؤں اورکاوشوں کے باوجود عوام مشکلات کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ مختلف شعبوں میں موجود مافیا آئے روز نیا بحران پیداکرکے حکومتی رٹ کو چیلنج کررہا ہے۔ حکومت ایک شعبے میں مافیا پرہاتھ ڈالتی ہے تودوسرے شعبے میںموجود عناصر سرگرم ہوجاتے ہیں۔ایف آئی اے ‘ـ نیب اور دیگر اداروں کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مختلف کمپنیاں دھڑلے سے حکومت اور عوام کو بلیک میل کرکے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم عمران خان حکومت سنبھالنے سے قبل ایسے عناصر کی سرکوبی کا اعلان کیا کرتے تھے مگر اب یہ عناصر بلاخوف دندناتے پھر رہے ہیں۔ وزیراعظم روزانہ عوام کی ڈھارس اور امید بندھاتے ہیں کہ جلد ان عناصر کو کیفرکردارتک پہنچادیا جائے گا مگر اگلے ہی روز سرکاری افسران کی نااہلی کے باعث مافیا ‘ـوزیراعظم کے احکامات کو منہ چڑارہا ہوتا ہے ۔ جس سے عوام کی تکالیف کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ جاتی ہے‘واضح مثال10روز سے ملک میں جاری پٹرول بحران ہے۔پٹرول بحران کے حقائق اور محرکات سے پہلے بحران پیدا ہونے کی ایکسکلیوسو فیکٹ شیٹ پڑھ لیجئے:ایک سرکاری دستاویز چند روز قبل میرے ہاتھ لگی ‘یہ دستاویز موجودہ حالات کا نوحہ ہے۔ماجرا کچھ اس طرح ہے کہ چیف فنانشل آفیسر اوجی ڈی سی ایل ارتضیٰ علی قریشی سمیت چار امیدواروں کو ایم ڈی‘ـ اوجی ڈی سی ایل کے عہدے کیلئے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پراسس مکمل کرنے کے بعد چار نام وفاقی حکومت کو ارسال کیے۔قواعد کے مطابق چارناموں کی کلیئرنس کا عمل شروع ہوا تو ملک کی دوٹاپ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ارتضیٰ علی قریشی اور شہریارلودھی کی شہرت اور Suitablity پرتحفظات کا اظہار کرتے ہوئے دونوں امیدواروںکو ایم ڈی‘ـ اوجی ڈی سی ایل کے عہدے کیلئے نااہل قراردیدیا۔ رپورٹ وزیراعظم کو ارسال کی گئی تو وزیراعظم نے دونوں ناموں کو سمری سے نکالتے ہوئے دیگر دونام وفاقی کابینہ کو حتمی منظوری کیلئے پیش کرنے کی ہدایت کردی۔ چیف فنانشل آفیسر کسی بھی کمپنی کی ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے۔کارپوریٹ ورلڈ میں چیف فنانشل آفیسر کی اہمیت ایم ڈی سے کہیں زیادہ ہے اور پھرپاکستان کی سب سے بڑی کمپنی اوجی ڈی سی ایل کے چیف فنانشل آفیسر کی اہمیت کا اندازہ آپ خود لگالیجئے۔ارتضیٰ علی قریشی کو نیب کی تحقیقات کا سامنا بھی ہے جبکہ انکا نام پانامہ اسکینڈل کی جاری ہونیوالی فہرست میں بھی آچکا ۔اب پٹرولیم ڈویژن کی حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے بعدہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چیف فنانشل آفیسرارتضیٰ علی قریشی کے خلاف مؤثر کارروائی کی جاتی مگر بااثر عناصر اور کاریگروں نے چیف فنانشل آفیسر کے کنٹریکٹ میں دوسری مرتبہ تین سال کیلئے توسیع حاصل کرکے وزیراعظم اور حکومتی تحقیقات پر طمانچہ مارتے ہوئے نعرہ بلند کیا ہے کہ روک سکو تو روک لو… بورڈ کا یہ اقدام شفافیت ‘ـمیرٹ کے اصولوں اور وزیراعظم کے احکامات پر سوالیہ نشان ہے ۔ اسی بورڈ میں وفاقی سیکرٹری پٹرولیم میاں اسد احیا الدین سمیت حکومتی ڈائریکٹر زبھی موجود ہیں۔اب ذرا ملاحظہ کیجئے پٹرول بحران کے محرکات اور کاریگروں کی کرامات۔ گزشتہ دس روز سے ملک میں پٹرول کا بحران جاری ہے۔ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی بلاتعطل سپلائی اورپرائسنگ میں ڈی جی آئل کا کلیدی کردار ہے۔ پٹرولیم ڈویژن کے سیکرٹری سمیت کوئی بھی افسر ڈی جی آئل سے زیادہ معلومات اور مہارت نہیں رکھتاکیونکہ ڈی جی آئل کے عہدے پر آئل ڈائریکٹوریٹ کے 20سال سے زائد تجربے کے حامل افسر کو تعینات کیا جاتا ہے۔ ایسا افسر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں‘آئل ریفائنریوں‘ اوگرا‘ایف بی آر سمیت تمام متعلقہ اداروں کی چالاکیوں اور کاریگریوں سے بخوبی آگاہی رکھنے کے باعث حکومت کی بروقت اور درست رہنمائی میںمعاون ثابت ہوتا ہے۔ وزیراعظم ایڈہاک ازم کے سخت خلاف ہیں ایسے میں چار ماہ ماہ قبل ڈی جی آئل کے عہد ے پر23سالہ تجربے کے حامل افسر کے بجائے وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کے جوائنٹ سیکرٹری شفیع الرحمان آفریدی کو قائمقام ڈی جی تعینات کیا گیا جس کے باعث گزشتہ چار ماہ سے پوری پٹرولیم انڈسٹری بے قابو ہوچکی ہے۔سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن نے سوچاہوگا کہ وزیراعظم کی ہدایت کے باوجود 341ادارے مستقل سربراہان سے محروم ہیں ‘وہاں ایک ایکٹنگ ڈی جی تعینات ہونے سے کیا فرق پڑے گا۔ شفیع الرحمان آفریدی کے ذریعے آئل ریفائنریوں نے اپریل کے مہینے میںحکومت سے ایک حکم جاری کروایا جس کے تحت آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو پٹرولیم مصنوعات درآمد کرنے سے روک دیا گیا۔یہ فیصلہ آج تباہ کن ثابت ہورہا ہے۔ آئل ریفائنریاں 10روپے فی لٹر خسارے کا نقصان بتا کر پٹرول وڈیزل کی مطلوبہ سپلائی نہیں دے رہی تو آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔آئل کمپنیوں کے زیر اثر ایکٹنگ ڈی جی آفریدی صاحب ‘اب انکوائری کمیٹی کیساتھ مل کر تحقیقات میں مصروف ہیں۔وزیراعظم نے ستمبر 2018ئمیں پاکستان سٹیل ملز کی بحالی کا پلان تیار کرنے کیساتھ فوری طور پر مستقل ایم ڈی‘ چیف فنانشل آفیسر اور متعلقہ تجربے کے حامل افراد کو بورڈ میں شامل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ کمیٹیوں نے پلان تیار کیا۔ کئی حل سامنے آئے اور بالآخر حکومت نے سٹیل ملز کو بحال کرنے کے بجائے9ہزار325ملازمین کو گھربھیجنے کی منظوری دیدی مگر وزارت صنعت وپیداوار کے بابوؤں اور مشیر صاحب نے 20ماہ گزرنے کے باوجود مستقل ایم ڈی‘چیف فنانشل آفیسرکی تعیناتی کی اورنہ ہی متعلقہ تجربے کے حامل افراد کو بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل کیا۔ کیونکہ خدشہ تھا کہ کہیں کوئی سٹیل انڈسٹری کا سرپھراپاکستانی ایم ڈی تعینات ہو کر پاکستان سٹیل ملز کوبحال کرنے کا عملی پلان نہ پیش کردے۔عجب معاملہ ہے مرض کی تشخیص اور وجوہات جاننے کے بجائے ڈائریکٹ علاج کرنے کا بے سود سلسلہ جاری ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آزمودہ نسخہ جات بھی کارگر ثابت نہیں ہورہے۔ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں‘ کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا!