ہر جگہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا بہت ہی زیادہ ضروری ہے اور اگر احتیاط کا دامن کوئی بھی ذمہ دار چھوڑ دے تو حالات بہت زیادہ خراب ہو جائیں گے۔ روزانہ کی بنیاد پر فطرت کا خاموش احتساب تو بہرحال جاری ہے لیکن ہمارے ظاہری دشمن اور ہمارے دوست نما دشمن اپنی ہنر مندی سے پوری قوم کا راستہ کھوٹا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم پاکستان میں بسنے والے مسلمان اپنی زندگانی کی جملہ ترجیحات میں اہم ترین ترجیح اپنے ایمان اور عقیدے کے تحفظ کو قرار دیتے ہیں۔ طے شدہ اور سب سے مسلمہ حقیقت یہی ہے کہ یہ وطن سلطنت اور ریاست و حکومت اپنے تمامتر وسائل و مسائل کے ساتھ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی ظاہراً و باطناً قانوناً اور دستوراً پابند ہے۔ کوئی شخص، ادارہ، کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، کوئی گروہ‘ جماعت تنظیم، انجمن، مکتبہ فکر، اس پابندی سے کسی بھی لحاظ سے آزاد نہیں ہے اور کسی بھی حکمران کو اس کی جماعت کے افراد کو طاقت کے بل بوتے پر اور ووٹ یا مینڈیٹ کی آڑ میں ہرگز ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنی خام خیالی بدعقیدگی اور جماعتی قوت کو مسلمانوں کے اور اہل پاکستان کے عقیدے پر مسلط کرے۔ کسی بھی جماعت کی سیاسی حکومت میں اسلام اور پاکستان دشمنوں کا ایک مضبوط گروہ ہمیشہ ہی یہودیوں کے خاموش مفادات کے تحفظ کے لیے اپنا اسلام دشمن کردار ادا کرتا ہے اور پاکستان کے بنیادی نظریے کی عملی مخالفت سے پاکستان کی بنیادوں کو کمزور کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور ہماری تاریخ وطن کا یہ نامبارک اور منحوس تسلسل جو قیام پاکستان کے عظیم مقاصد کو گہنانے میں ایک بڑا سبب بنا ہوا ہے ایک ایسا غیر محسوساتی مگر کارگر حملہ ہے جو اپنے مناسب وقت کا منتظر ہوتا ہے اور پھر وہ ضرب کاری کے ساتھ قوم کے دینی اور ملی افکار کو مجروح کرتا ہوا قوم میں دینی و ملی افکار کو تشکیک کا نشانہ بناتا ہے۔ گزشتہ حکومت کے دور میں کئی وزیر اسی نامبارک اور قوم دشمن خاموش صیہونی تحریک کے عزائم کو پروان چڑھانے کا کام کیا کرتے تھے۔ ختم نبوت سے متعلقہ قوانین میں ہیر پھیر اور آئینی روح کو مجروح کرنے کے لیے قومی اسمبلی اور سینٹ کے ادارے کو ان بدنیت لوگوں کی بوالہوسی نے اس برے انداز سے استعمال کیا کہ پوری قوم کو اپنی معصومانہ قربانیاں پیش کرنا پڑیں۔ عقیدہ توحید و رسالت نہایت نازک مسئلہ ہے۔ اسے کسی بھی سیاسی انتظامی یا دیگر مصالح کے لیے استعمال کرنا بہت بڑی غیر دانشمندی ہے۔ گزشتہ حکومت کے غیر دانشمند وزراء ایسی ہی غیر مومنانہ حرکات کے مرتکب ہوتے تھے۔ ایک صوبائی وزیر نے اسمبلی میں نعت رسول مقبولﷺ پر پابندی لگوانے کی نہایت مکروہ کوشش کی تھی پھر اس نامعقول اور دینی و سیاسی شعور سے نابلد وزیر نے مرتدین کو صحیح العقیدہ ہونے کا سرٹیفکیٹ دینے کا جرم کیا تھا طاقت سے مخمور یہ لوگ اپنے انجام کو بالآخر پہنچ کر رہیں گے۔ لیکن قوم کی بدقسمتی اور حرماں نصیبی ہے کہ سیاسی حکومت بدلنے کے باوجود ابھی تک دینی و قومی حمیت سے بے بہرہ افراد مقتدر جماعت کی صفوں میں بھی موجود ہیں اور ان کے دماغ و زبان کی بے احتیاطی سے نہ صرف مسلمانان پاکستان کے دینی احساسات شدید مجروح ہو رہے ہیں بلکہ نظریہ پاکستان کے اساسی افکار بھی کمزور سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ عوامی خرچ پر لندن میں ایک سابق کرکٹر شاہد آفریدی نے بیان داغا کہ پاکستان کو کشمیر نہیں چاہئے یہ کس قوم کے نمائندہ ہیں؟ ان کو نظریہ پاکستان سے کتنی وابستگی ہے ؟ اور وہ پاکستان کی کشمیر پالیسی سے کتنے واقف ہیں؟ ان کو قائد اعظمؒ کا بیان کیوں بھول گیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بہت افسوس اور حیرت در حیرت کا مقام ہے کہ وطن کی شہ رگ سے انہیں نفرت ہے۔ مسلمانان عالم اور اہل پاکستان کے مذہبی جذبات کو اشتعال کی نذر کرنے کا ایک غلط ترین اقدام قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کی ایک خاتون رکن عاصمہ حدید کا ہے جو ایک بیان کی صورت میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے بھرے اجتماع میں دیا گیا۔ یہ بیان قومی اسمبلی کے جملہ اراکین کی موجودگی میں ہوا ہے۔ اس بیان میں مقررہ نے دین کی نہایت غلط تعبیر اپنے عقائد اور علم کے مطابق کی ہے۔ اسرائیل کی ہر حکومت عالم اسلام پر جبر و ستم ڈھانے کے بین لااقوامی ایجنڈے کی پوری طرح سے پشت پناہی کرتی ہے کسی بھی سال کی آپ کوئی سی تاریخ کو فراموش نہیں کر سکتے جب معصوم شیر خوار بچوں‘ عفت مآب خواتین‘ نوجوان فلسطینیوں اور بوڑھے علماء دین اور مجاہدین کو صیہونی شیطان صفت اسرائیلی فوجیوں کے ظلم کا نشانہ نہ بننا پڑتا ہو۔ لاکھوں یتیم مسلمان بچوں کی فریاد رسی کا خیال تو اس رکن اسمبلی کو نہ آیا اور نہ ہی ہزاروں عفت مآب مسلمان فلسطینی بیوائوں کی کسمپرسی صائمہ حدید کے خیالات پر پڑی اوس کو ہٹا سکی۔کتنے بدبخت ہیں وہ لوگ جنہوں نے بیت المقدس کو نذر آتش کیا تھا اب تو یہ تعداد کروڑوں کو پہنچ گئی ہے جو فلسطینی مہاجرین دربدر خوار پھرتے ہیں۔ اگر رکن اسمبلی کو اپنے خیالات پر اصرار ہے اور اسے وہ اپنا استحقاق سمجھتی ہیں تو انہیں یہ حقیقت کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اس ملک میں بسنے والے کروڑوں راسخ العقیدہ مسلمان بھی اپنا دینی‘ معاشرتی اور ریاستی استحقاق محفوظ رکھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنی کسی بھی حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے دینی جذبات کو مجروح نہ کرے اور کوئی بھی حکومت اپنے زیر اثر افراد کو یہ اجازت دینے کا استحقاق نہیں رکھتی کہ کوئی رکن اسمبلی اپنے مبنی بر غلط بیان سے راسخ العقیدہ مسلمانوں کو مشتعل کرے۔قومی اسمبلی کا رکن ہونا اور مقتدر جماعت کا نمائندہ ہونا کیا اس غیر ذمہ دارانہ بیان کا استحقاق فراہم کرتا ہیٖ؟بالکل نہیں قوم‘ ملک‘ سلطنت ‘ ریاست ‘ ادارے ‘ حکمران پابند ہیں کہ وہ نظریہ پاکستان کی اساس کی حفاظت کریں۔ کوئی فرد واحد اسلام دشمن، پاکستان دشمن اسرائیل کے لیے اور صیہونی مظالم کے دفاع کے لیے اگر نرم گوشہ رکھتا ہے تو اس فرد واحد سے جواب طلب کرنا چاہئے کہ وہ اسلامی عقائد کی وہ تشریح کیوں کرتا ہے جو امت مسلمہ کے اجتماعی عقائد سے متصادم ہے۔ راقم کے علم میں یہ حقیقت بھی ہے کہ وفاقی وزیر مذہبی امور نے موصوفہ کو اس طرز خیال اور اظہار بیان سے روکا تھا۔ جناب وزیر اعظم ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اگر وہ تفصیل سے ریاست مدینہ کے خدوخال ‘ سیاسی احوال کا مطالعہ فرمائیں گے تو ان پر یہودیوں کی سیاسی چالوں اور سیہ کاریوں کا سلسلہ واضح ہو جائے گا کہ یہودی ہمیشہ ہی فتنہ گری سے اور خفیہ چالوں سے مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ رکن اسمبلی عاصمہ حدید کی خوش ساختہ علمی موشگافیوں کا جواب تو جناب وزیر مذہبی امور کو برسر ایوان دینا چاہیے۔ مگر ہم جناب وزیر اعظم سے جو تحریک انصاف کے چیئرمین بھی ہیں، کی خدمت میں درخواست گزار ہیں کہ ایسے غیر محتاط وزراء اور احوال دین و وطن سے بے خبر ارکان اسمبلی سے قانونی جواب طلب کریں کہ وہ ایسے اشتعال انگیز بیانات سے آخر کس کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں۔