تجزیہ:سید انورمحمود مسلح افواج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے سیاستدانوں کو افواج کو سیاست میں گھسیٹنیاور نام لے کر الزام لگانے سے گریز یا احتیاط کرنے کا مشورہ دینا قابل فہم ہے ۔اس طرح کے بے بنیاد الزامات اور نام لینے سے نہ صرف ملک کے محافظوں کے تشخص بلکہ مورال پر بھی اثر پڑتا ہے ۔اور کوئی پاکستانی اس پر خوش نہیں ہوگا۔درحقیقت ہر پاکستانی ہمہ وقت اپنی مسلح افواج کے پیچھے کھڑا ہونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا اور مکمل حمایت کرے گا۔تاہم افسوس کہ یہ انتہائی بدقسمتی کا وقت ہے ۔نہ صرف سیاستدان جن کے ماضی میں قابل فخر چیز بہت کم ہے بلکہ تمام ریاستی ادارے اور میں تو میڈیا کو بھی شامل کروں گا، اس کے ذمہ دار ہیں جہاں آج پاکستان کھڑا ہے ۔یہ کسی بھی ملک کیلئے قابل رشک پوزیشن نہیں ہے ۔ درحقیقت یہ تو انتہائی تشویشناک بات ہے ۔ ریاست پاکستان کو کئی محاذوں پر چیلنجز درپیش ہیں۔ہم سب نے اس ملک کو جس مصیبت میں ڈالا ہے ، اس سے نکالنے کیلئے بھی ہم سب کو اپنی پوری طاقت کیساتھ اس کے پیچھے کھڑا ہونا ہوگا۔اور جو میں نے کہا کہ سب تو میرا مطلب ہے کہ سیاستدان، ایگزیکٹو بشمول مسلح افواج، عدلیہ اور میڈیا۔لیکن مرمت کے کام کو موثر بنانے کیلئے پہلے نقصان کا باریک بینی سے جائزہ اور بغور تجزیہ کرنا ضروری ہے ۔ یہ سب کہاں سے شروع ہوا؟ہم اگر زیادہ پیچھے نہیں تو 1977ء میں جا سکتے ہیں جب بھٹو کا تختہ الٹا گیا تھا۔ہم پیچھے 1988ء میں جا سکتے ہیں جب جونیجو کو برطرف کیا گیا تھا۔ ہم 90ء کی دہائی کا حوالہ دے سکتے ہیں جب نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے حکومت میں باریاں لی تھیں۔ ہم جنرل مشرف کو بھی متعدد غلط اقدامات اور مارچ 2007کے غیر ضروری بحران کا ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں۔لیکن اب وہ سب کچھ تاریخ ہے جس سے سبق سیکھنا ہے اور دوہرانا نہیں ۔پھر بھی ہم دوہرا رہے ہیں۔اگر ہم نے 2020کے اواخر میں اس غیردانشمندانہ بیان بازی اور جارحانہ تُو تکار پر روک لگا دی ہوتی تو معاملات اس خرابی تک نہ پہنچتے ۔تاہم اسے ایک سے دوسرے مقام تک جاری رکھنے کی اجازت دی گئی، وجوہات انہیں معلوم ہیں جنہوں نے اسے نظرانداز کیا۔اگر اسے ابتدا میں ہی روک دیا گیا ہوتا تو ہمیں وہ تماشا نہ دیکھنا پڑتا جو اب ہم دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی برائی ہے جسے فوراً دفن کر دینا چاہیے ۔اسے دفن کرنا ہر ایک کے اور بالخصوص پاکستان کے مفاد میں ہے ۔ اس کے باوجود آگے کیا؟اس نقصان اور انحطاط کو کوئی کیسے روک سکتا ہے جو پہلے ہی اپنے جوبن پر ہے ؟ اس بے لگام سیاسی سرگرمیوں کو کوئی کیسے روک سکتا ہے جو پہلے ہی اپنی انتہا کو چھو رہی ہیں؟ 1977سے 2008تک میں نے ہر حکومت کا آنا اور جانا دیکھا ہے ، کچھ کو طلوع سحر کے وقت اور کچھ کو شام ڈھلے ۔ لیکن عمران خان حکومت کی بیدخلی سب سے مختلف تھی۔ ایسا نہیں کہ عمران خان غلطی سے پاک تھا۔اس کے پاس تجربے اور تدبیر کی کمی تھی اور اس نے دوسروں سے سیکھنے کی بہت کم کوشش کی۔لیکن اعدادوشمار اس کے حق میں تھے ۔ پی ٹی آئی کے پاس قومی اسمبلی میں 155ارکان تھے ۔ مسلم لیگ ن کے پاس 84، پیپلز پارٹی کے پاس 55اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے پاس 14 تھے ، جو مجموعی طور پر 153 بنتے ہیں۔ 155ارکان رکھنے والے وزیراعظم کو باہر نکال دیا گیا اور 84والے کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔منحرف ارکان کو کیسے پہلے سندھ ہاؤس میں چھپایا گیا اور بعد میں ان کی پریڈ کرائی گئی، میری نظر میں یہ پاکستانی جمہوریت کا انتہائی کمتر مظہر ہے ۔اس وقت جاری سیاسی ڈرامے کی کلید آرٹیکل 63اے کے حوالے سے صدارتی ریفرنس میں جلد فیصلہ تھا۔ بدقسمتی سے جو نہیں آیا اور ابھی تک نہیں آ سکا۔ اگر منحرف ارکان قومی اسمبلی کا معاملہ طے پا جاتا تو شاید ہم اس دلدل سے بچ جاتے جس میں آج ہم پھنسے ہوئے ہیں۔ہم نے اس ملک میں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا۔ہم نے 1970، 1970 میں بھی ایسا نہیں کیا اور نہ ہی اس کے بعد کبھی ایسا کیا۔جمہوریت اعدادوشمار کے الٹ پلٹ کا کھیل ہے ، ہم سال بہ سال اور دہائیوں بعددہائیوں تک اسے نظرانداز کرتے رہے ۔ اور مسلسل اسی گڑھے میں گرتے رہے ۔ کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ اب کیا؟ 1۔ اداروں پر تنقید بند کی جائے ۔ 2۔ اعدادوشمار کیساتھ کھلواڑ بند کیا جائے ۔ 3۔سپریم کورٹ کی جانب سے کسی نہ کسی وجہ سے زیرالتوا کرپشن کے تمام کیسز کا فوری نوٹس لیا جائے ، جو کسی بھی بہانے مزید التوا کے بغیر فیصلہ سنانے کا حکم دے سکتی ہے ۔ 4۔انحراف کی شق کے حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر فیصلہ کیا جائے کیونکہ یہ ایک ایسا کیڑا ہے جو ہماری پارلیمانی جمہوریت کو کھائے جا رہا ہے ۔ 5۔اور آخری یہ کہ فوری طور پر عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا جائے ، الیکشن کمیشن کے اس تخمینے کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ اسے اگلے الیکشن کے انعقاد کیلئے سات ماہ درکار ہیں۔ آئین میں 90 دن کی مدت کا تعین کر دیا گیا ہے اور الیکشن کمیشن کو آئین کی پاسداری کرنی چاہیے ۔ آج پاکستان مزید کسی تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔یہ کسی دوسرے حل کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا،کم از کم طاقت کے استعمال کی بنیاد پر۔ ایسا صرف ہمارے دشمنوں کیلئے ہی باعث مسرت اورفائدہ مند ہوگا۔ مجھے کوئی شک نہیں کہ تمام ریاستی ادارے اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ دشمن کو یہ خوشی میسر نہ ہو سکے ۔ تجزیہ،انورمحمود