انگریزی میں کہتے ہیںSomeone should cry halt۔ کسی نہ کسی کو چیخ کر کہنا چاہیے:رک جائو‘ خدا کے لئے اب تو رک جائو۔ ’’سندھ کے آئی جی کلیم امام کے بارے میں تم نے کچھ نہ لکھا‘‘ ایک بہت عزیز دوست نے شکایت کی۔ کلیم امام کے بارے میں لکھنے سے کیا حاصل۔ بہت سے ممتاز اخبار نویسوں نے زور لگایا تو کیا ہوا؟ جہاں تک اس ناچیز کا ادراک ہے‘ اٹھارہویں ترمیم کے بعد آئی جی کا تقرر‘ اصلاً صوبائی حکومت کا حق ہے۔ وفاق مشورہ دے سکتا ہے مگر مشورہ ہی۔ زیادہ سے یہ کہ اس کی رضا مندی حاصل کی جائے۔ وزیر اعظم نے اتفاق کر لیا تھا۔ ایک ایسے افسر کے نام پر جس کی دیانت اور معاملہ فہمی کا چرچا ہے۔ کلیم ہی کی طرح وہ ایک عملی آدمی ہے۔ مشتاق مہر خوب سمجھتے ہیں کہ خوش سلیقگی سے کرنا ہو تو پولیس صوبائی حکومت کی تعاون ہی سے معاملات نمٹا سکتی ہے۔ وزیر اعظم کی تائید کے بعد یہ سوال وفاقی کابینہ میں کیوں اٹھا۔کپتان نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ سے وعدہ کر لیا تھا۔ وعدے پورے کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ موزوں ترین آدمی کا انتخاب اور اس پہ واضح پیمان کے بعد‘ پیچھے ہٹنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ وعدہ نہ کیا ہوتا ‘ پھر کابینہ میں بحث کا جواز کیا تھا؟ وزراء کو یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے تھی۔ سندھ میں وزیر اعظم کے سیاسی حلیفوں کو بھی۔ کاروبار حکومت میں ایک ذرا سی غیر ذمہ داری اور بے احتیاطی بعض اوقات بحران کا باعث بنتی ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ سندھ کی زرداری حکومت پولیس کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے‘ ناروا مقاصد کے لئے۔وڈیرے ستم ڈھاتے ہیں۔ ڈاکو پالتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان کے واقعات ہوتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کو زچ کیا جاتا ہے اوربعض اوقات ہراساں بھی۔ یہ سب اعتراضات اپنی جگہ پوری طرح درست ہیں۔ نکتہ چینی کرنے والوں کا یہ استدلال بھی ناروا نہیں کہ اٹھارہویں ترمیم نے صوبوں کو ضرورت سے زیادہ اختیارات بخش دیے ہیں۔بجا ارشاد‘ بالکل بجا ارشاد مگر ملک کو دستور کے تحت ہی چلایا جا سکتا ہے۔سندھ حکومت کایہ اعتراض بالکل درست ہے کہ وزیراعلیٰ گورنر سے مشورہ کرنے کے پابند نہیں۔ بے شک اس میں کوئی حرج بھی نہیں کہ آئین کی خلاف ورزی تو بہرحال نہیں۔مگر اسے پابند نہیں کیا جا سکتا‘ مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ قاعدے کی بات یہ ہے کہ آئین میں ترمیم کی جائے۔ ظاہر ہے کہ حالات سازگار نہیں۔ اس ایک کام کے لئے تو ہرگز نہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی دو تہائی اکثریت حکمران پارٹی کو حاصل نہیں اور سینیٹ میں تو سادہ برتری بھی نہیں۔ایسے میں زیادہ حکمت زیادہ صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ ہاتھوں سے دی ہوئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم پر بحث کے ہنگام‘ سیاسی پارٹیوں نے مصلحت سے کام لیا۔ ایک ایسے شخص کو ذمہ داری سونپ دی گئی‘ ہرگز ہرگز جو اس نازک کام کا اہل نہ تھا‘ جناب رضا ربانی۔ وہ بے لگام صوبائی اختیارات کے قائل ہیں۔ان لوگوں میں سے ایک جو نہیں سمجھتے کہ استعداد کارمیں اضافہ کئے بغیر اختیارات نچلی سطح پر منتقل نہیں کئے جاتے۔ہر پائیدار کام سلیقہ مندی سے ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ ‘بتدریج اور مرحلہ وار۔مضبوط بنیادوں کے بغیر پختہ عمارت کبھی تعمیر نہیں ہوتی۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے بنیادی ستونوں میں سے ایک بلدیاتی ادارے ہیں۔ دوسرے شائستہ اور جمہوری سیاسی پارٹیاں۔نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بننے کے لئے بے تاب تھے۔اے این پی کو صوبہ سرحد کا ایسا نیا نام رکھنا تھا‘ جو اس کے حامیوں کو خوش آتا ہو۔ وسیع تر قومی مفاد سے ایک حد بے نیاز اور صوبائی اختیارات کے باب میں حریص قیادت۔ کسی ایک بھی سیاسی پارٹی کو سوجھا نہیں کہ شہری حکومتوں کے بغیر جمہوریت ادھوری ہی نہیں بلکہ خستہ حال بھی ہوتی ہے۔ مرکز سے صوبوں نے اختیارات چھین لئے مگر بڑے شہروں اور اضلاع کو منتقل نہ کئے۔ یہ ایک تضاد ہے۔ بہت بنیادی تضادات اس کے سوا ہیں۔ پاکستان ایسے معاشرے کو پارلیمانی نظام سازگار ہی نہیں۔ ملوکیت اور غلامی کی ان گنت صدیاں اور جاگیرداری نظام۔ اہل زر الیکشن جیت کر آتے ہیں‘ اکثر دھوکے اور دھاندلی سے۔نفرت اور تعصبات کی آگ بھڑکاتے ہوئے۔ پھر انہی میں سے صوبائی اور وفاقی کابینہ تشکیل ہی نہیں پاتی‘ وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم بھی انہی میں سے چنے جاتے ہیں۔اکثر ادھورے لوگ ‘اپنے فرائض جو ڈھنگ سے ادا نہیں کرسکتے۔اسد عمر ایسے وزیر خزانہ کو چلتا کیا گیا۔ ریلوے کا وزیر ایک ایسا شخص ہے‘ جو بیشتر توانائی سیاست پہ صرف کرتا ہے۔ جس کے پاس اتنا بہت سا فالتو وقت ہے کہ ہر روز ٹیلی ویژن پہ نمودار ہوتا ہے اور بعض اوقات تو کئی بار۔نام و نمود کا شوق اس کی جان کے درپے رہتا ہے۔ خاموش رہنا اس کے لئے ممکن ہی نہیں۔ باصلاحیت آدمی ہے‘ ڈٹ جائے اور قاعدے‘ قرینے کو ملحوظ رکھے تو چند برس میں مرتے ہوئے ادارے کو زندہ کر سکتا ہے۔مگر یہ بات اسے کون سمجھائے؟ پنجابی کے ایک شاعر نے کہا تھا: وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں بھانویں کٹیے پوریاں پوریاں جی عادات نہیں بدلتی خواہ آدمی کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں۔سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے کوہ احد اپنی جگہ سے ٹل سکتا مگر عادت نہیں بدلتی۔اہل علم کا کہنا یہ ہے کہ اپنی خراب عادت سے جنگ ہی جہاد اکبر ہے۔ اردو کے شاعر نے یہ کہا تھا: سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا ایک وحشت ہے‘ چاروں طرف پھیلی ہوئی ایک وحشت۔ فرد سے زیادہ اجتماعی حیات کو جذباتی توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ ہی ہیجان کا شکار ہے۔ اندمال کیا‘ المناک بات یہ ہے کہ اس مرض کا اکثر لیڈروں کو احساس تک نہیں۔علاج کا آغاز نہیں ہو سکتا جب تک کہ مرض کے وجود کو تسلیم نہ کیا جائے۔جب احساس ہی کارفرما نہ ہو تو تدارک کیا: وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا جس شدت سے نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے‘ اسی قدر صبر و تحمل درکار ہے۔ طاقت کے بل پر نہیں‘ اس طرح کے معرکے غورو فکر‘ تعلیم و تبلیغ اور نہایت نجابت کے ساتھ بات چیت کے ذریعے سر کئے جاتے ہیں۔ادھر ہمارا حال یہ ہے کہ: کشتیاں ٹوٹ چکی ہیں ساری اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو سکول برباد‘ ہسپتال برباد‘ سول ادارے تباہ حال‘ سیاسی پارٹیاں خاندانوں کی گرفت میں۔پالیسیاں پارلیمنٹ کو تشکیل دینا ہوتی ہیں اور فیصلے کابینہ صادر کرتی ہیں۔یہاں سب کچھ ایک آدمی کے ہاتھ میں۔عالی جناب عمران خان‘ جناب آصف علی زرداری اور محترم نواز شریف۔ اجتماعی دانش بروئے کار آئے تو کیسے آئے؟ بحث و مباحثہ ہونا چاہیے۔ مثبت انداز میں مسلسل جاری رہنے والا مباحثہ۔ زندگی نقالی کا نام نہیں۔ پارلیمانی نظام برطانوی معاشرے کے لئے ڈھالا گیا۔ قطعاً یہ پاکستان کو سازگار نہیں۔ملک کو یکسر نئی سول سروس اور بالکل نئے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے۔ رائج تعلیمی نصاب فرسودہ ہے۔ قومی تقاضوں سے بے نیاز۔موجودہ سول سروس غیر ملکی حکمرانوں نے تعمیر کی تھی۔وہ خود حکمران ہیں سیاستدانوں کی کیوں سنیں۔سیاسی لیڈر اقتدار کے لئے بے تاب رہتے ہیں مگر ملک چلانے کی تربیت اپنے لوگوں کو نہیں دیتے۔ خرابی در خرابی ہے۔ بحران در بحران ہے‘ ایک بیماری دم توڑتی ہے تو دوسری جاگ اٹھتی ہے۔ رک جانا چاہیے‘ غور کرنا چاہیے۔انگریزی میں کہتے ہیںSomeone should cry halt۔ کسی نہ کسی کو چیخ کر کہنا چاہیے:رک جائو‘ خدا کے لئے اب تو رک جائو۔