گزشتہ روز مسافر بس اور آئل ٹینکر کے تصادم سے 20 سے زائد قیمتی جانوں کا نقصان ، ہر طرف کہرام کا سماں اور فضا سوگوار ہے۔یہ نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری ،ہر روز ٹریفک حادثات کے درجنوںواقعات رونماء ہوتے ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا نہ کی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور آئندہ ایسے حادثات سے بچنے کیلئے کونسے اقدامات کرنے چاہئیں۔سکول ،آفس ،ہسپتال یا کسی بھی تفریحی جگہ جانے کیلئے سائیکل سے لیکر موٹرسائیکل،کار،وین اور بس سمیت درجنوں ذرائع نقل و حمل ہیں جس کے ذریعے ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں۔ان جدید سفری سہولیات نے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ سائنسی ترقی جہاں بہت بڑی نعمت ہے وہیں پر اس کے استعمال میں لاپرواہی سے یہ آسانی تباہی و بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔ ٹریفک حادثات میں لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیںاور شدید نوعیت کے حادثات میں بعض زخمی زندگی بھر معذوری کے روگ کے ساتھ بے بسی اور لاچاری کی کیفیت میں زندگی کے دن پورے کر رہے ہوتے ہیں۔ جانی نقصان کی علاوہ موٹر سائیکلز اور گاڑیوں کی صورت میں مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ وین ،منی مزدا یا بس غرض کوئی بھی سواری ہو’’ اوورلوڈنگ ‘‘تو جزو لازم بن چکا ہے ، نفع خور ٹرانسپورٹر سیٹیں مکمل ہونے کے بعد مسافروں کی ایک لمبی قطار کھڑے کیے بنا چلنے کا نام ہی نہیں لیتے مزید ازاں کوسٹر کی چھت پر سوار کرنا بھی امر لازم بن چکا ہے ،ہائی ایس ٹویوٹا والے چودہ سیٹر وین میں بائیس افراد سوار کرنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں اور رہتی سہتی کسر’’ ٹول بکس‘‘ پر دو مسافر بٹھا کر پوری کر دیتے ہیں ،فرنٹ سیٹ پر تین افراد کی’’ اوور لوڈنگ ‘‘کرنے سے ڈرائیور پوری مہارت سے گاڑی کو کنٹرول نہیں کر پاتا جو حادثات کا سبب بن رہا ہے ،شرمناک پہلو یہ ہے کہ درجنوں مسافروں سے بھری گاڑی کو چلانے والے ڈرائیور حضرات کی اکثریت کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہو تا ہے اگر کسی کا لائسنس بن بھی جائے تو سب جانتے ہیں کہ لائسنس کیسے حاصل کیا جاتا ہے ،یہاں پر قانون نافذ کرنیوالے محافظوں کی بات کی جائے تو خاص طور پرلاہور کے وارڈن آئے روز کسی نہ کسی سے دست و گریبان نظر ہوتے نظر آتے ہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹرز کو ڈرائیونگ لائسنس، فٹنس سرٹیفیکیٹ اور روٹ پرمٹ چیک کرنا تو درکنار زائد کرایہ وصولی کی بھی کھلی چھٹی دے رکھی ہوتی ہے ۔ ٹریفک پولیس کی کرپشن اور من مانیوں کی لمبی داستان پھر کبھی سہی لیکن سیکیورٹی کے لحاظ سے غفلت ، لاپرواہی یا مبینہ سرپرستی کہہ لیں۔مبہم یا ٹیمپرڈ نمبر پلیٹ پرایک لاکھ روپے تک جرمانہ اور دو سال تک قابل قید جرم ہے ۔لیکن آپ آج ہی مشاہدہ کرکے دیکھ لیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں کسی ایک رکشہ کی بھی نمبر پلیٹ اوریجنل اور نمونہ کے مطابق نہیں ہے جبکہ بیشتر کی نمبر پلیٹ چسپاں ہی نہیں ہوتیں یا انتہائی مبہم۔اسی طرح ٹویوٹا ہائی ایس ،وین ،بس ،ٹرک سمیت پبلک ٹرانسپورٹ والے غیرنمونہ نمبر پلیٹ یا بغیر نمبر پلیٹ ہی دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔غیرنمونہ یا بغیر نمبر پلیٹ ہونے کی وجہ سے نا صرف یہ لوگ کھلم کھلا ’’ون وے‘‘ کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ اشارے پر رکنے کی بھی زحمت نہیں کرتے اور حادثات کا باعث بن رہے ہیں۔آپ کسی اشارے پر رکتے ہوئے ارد گرد والی کاروں کی نمبر پلیٹ پر ایک نظر ڈالیں، ایک نئی واردات دیکھنے کو ملے گی۔نمبر پلیٹ تو اوریجنل یا نمونہ والی ہی ہوگی مگر نمبر پلیٹ کو بلیک کلر کے ایک خاص لیمینشن پیپر کے ساتھ مبہم کیا گیا ہے۔اس طریقہ کار کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اس طریقہ سے نمبر پلیٹ سیف سٹی کے کیمرہ میں نہیں آتی اور ہم آن لائن چالان سے بچ جاتے ہیں۔چالان سے بچنے کیلئے اس قسم کا غیر قانونی طریقہ اختیار کرنا قانون شکنی اور قابل گرفت عمل ہے۔ اس طرح کی مبہم نمبر پلیٹ کا مقصد صرف چالان بچانا نہیں ہے بلکہ دیگر جرائم بھی ہیں۔آپ چوری ، ڈاکہ زنی،اغوااور قتل و غارت کرکے آسانی سے بھاگ سکتے ہیں اور آپ گاڑی کی نمبر پلیٹ واضح نہ ہونے کی وجہ سے قانون کی نظروں سے اوجھل ہونے میں کامیات رہتے ہیں۔متعدد شکایات اور حادثات کے باوجود اوور سپیڈ اور فاسٹ لین کا غیر قانونی استعمال پبلک ٹرانسپورٹرکی روٹین بن چکا ہے ۔ پبلک ٹرانسپورٹ ڈرائیور ز ان تمام قانون شکنیوں کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہوتے ہیں۔کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیورز گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے بعدایکسیلیٹر پر پائوں آتے ہی اس ’’زمینی سواری‘‘ کو ہوا میں اڑانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں،اور یہی’’ اوووسپیڈ‘‘ حادثات کا اہم پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔یہ سب تکلیف دہ مناظر ہر روزہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں۔سرعام یہ ظلم و ستم ہورہا ہے لیکن انتظامیہ اور متعلقہ ادارے یہ سب دیکھنے والی بینائی سے قاصر نظر آتے ہیں لوگ مرتے ہیں تو مریں ، سب اچھا ہے کی رپورٹ ۔اگر سیف سٹیز اٹھارٹی کی بات کی جائے تو سنئیر صحافی علی ساہی کی رپورٹ کے مطابق پنجاب سیف سٹیز اٹھارٹیز کے 7678کیمروں میں 2500ناکارہ ہوچکے ہیں۔ای چلان کیلئے لگائے گئے 355کیمروں میں سے صرف 140کیمرے فعال ہیں جبکہ ٹریفک قوانین سے اگاہی کیلئے لگائی گئی 66ایس ایم ڈی میں سے صرف 2سے ہی اگاہی پیغامات نشر ہورہے ہیں جبکہ باقی ناکارہ کردی گئی۔ترقی یافتہ ممالک کی طرف نظر دوڑائی جائے تو ہمیں ایک دو نہیں سینکڑوں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جہاں پبلک ٹرانسپورٹر کیلئے باقاعدہ تعلیمی ادارے ہیں جہاں ڈرائیور کنڈکٹر اور ہیلپر کو تعلیم و تربیت دی جاتی ہے ۔اس لیے وہاں ٹریفک حادثات کی تعداد پاکستان سے بہت زیادہ کم ہے۔ان حالات میں انتہائی ضروری ہے کہ ہمارے ہاں بھی شعبہ ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کیلئے تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کیے جائیں اور وقتاً فوقتاًگاڑیوں کی فٹنس کی جانچ پرتال کو لازمی بنایاجائے اور روڈ سیفٹی کیلئے سڑک سے آگاہی کے بورڈ بھی نصب کیے جائیں تاکہ ٹریفک حادثات پر کنٹرول کر کے قمیتی جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔