ممکن ہوتا تو میں ڈہرکی کے اس درد مند اور ایثار کیش خاندان کے گھر جاتی۔ ادا علی نواز اور اس کی اہلیہ حبیبہ مائی کے گھر کی روشن دہلیز دیکھتی جس نے سات جون کو نصف شب کی تاریکی میں ہونے والے ہولناک حادثے میں مصیبت زدہ مسافروں کے لیے احساس اور دردمندی کے دیئے روشن کئے۔ تمام وقت خود کو تکلیف میں ڈال کر جتنا ممکن ہوسکا مصیبت زدہ مسافروں کی مدد کی۔ ممکن ہوتا تو میں سندھ کے اس غریب مگر کشادہ دل خاندان کے گھر اظہار عقیدت کے ایسے آنسو لے کر جاتی جیسے کسی مقدس درگاہ پر جاتے ہیں۔ قحط الرجال‘ ہوس پرسی اور خودغرضی کے اس دورمیں جنہوں نے مسافروں کی بے غرض مدد کر کے انسانیت کا سربلند کیا۔ ڈہرکی میں ہونے والے ٹرین حادثہ کے پیچھے ایسے بے ضمیروں کے کرتوت موجود ہیں جنہوں نے اپنی اپنی جگہ ذمہ داری سے صرف نظر کیا۔ بڑے سے بڑا بااختیار اور چھوٹے سے چھوٹا اہلکار اپنے فرض کی ادائیگی سے غفلت برتنے پر ایسے حادثوں کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ذمہ داری کا یہ دائرہ پھیلتا ہوا وزارت ریلوے کے سربراہ یعنی ریلوے کے وزیر تک پہنچتا ہے۔ تسلسل سے ہوتے ہوئے ٹرین حادثے بتاتے ہیں کہ ذمہ داران اپنی ذمہ داری سے غفلت برت رہے ہیں۔ ویسے یہ ہمارے قومی مزاج کا ایک بدصورت حصہ بنتا جارہا ہے کہیں گڑ بڑ ہو‘ ذمہ داری دوسرے پر ڈال دو۔ ذمہ دار شخص خوض غرض نہیں ہو سکتا۔ یا یوں کہہ لیں کہ خود غرض انسان ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔یہاں ہر طرف غرض کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ بے حسی کے جھکڑ‘ دلوں سے احساس اور مروت اڑا کرنہ جانے کون سی وادیوں میں لے گئے۔ یہاں سب اپنی جیب بھرنے اور اپنی ہوس کی پرستش کرنے میں مصروف ہیں۔ ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں۔خود غرض اور بے حسی کے اس ماحول میں جب ہم ادا علی نواز اور حبیبہ مائی کے درد سے بھرے گداز دلوں کو دیکھتے ہیں تو گاہے حیرت میں گم ہو جاتے ہیں۔ کہ اللہ جسے چاہے نواز دے کہیں پرآسائش محلات کے اندر خودغرض اور بخیل انسان پیدا کئے اور کہیں خستہ حال مکانوں میں کیسے کشادہ دل انسان پیدا کئے، جو اپنا آرام تج کر نصف شب اجنبی مصیبت زدوں کی خدمت پر د دل و جان سے مامور ہو گئے۔ٹرین کی پٹڑی سے لڑھک کر ویرانے میں گری ہوئی بوگیاں ان میں اوندھے پڑے ہوئے چیخ و پکار کرتے مسافر وقت کے اس ناگہانی لمحے میں کچھ جان سے گزرتے کچھ زخموں سے کراہتے ہوئے مسافروں کی صدائیں اور سب سے بڑھ کر ریلوے افسران کی بے حسی اور مجرمانہ غفلت پر نوحہ کرتی آوازوں کے اس وحشت انگیز منظر نامے میں ڈہرکی سندھ کے ’’ہیرو خاندان‘‘ کی خدمت گزاری اور ا یثار کیشی کو ایسی خبر آئی جیسے رستے ہوئے زخموں پر کسی نے مرہم لگا دیا ہو۔ جیسے دھوپ کے راستے پر چلتے چلتے مسافر دھریک کے گھناوٹ سے بھرے درخت کی آغوش میں آ جائے۔ حادثہ ہوا تو علی نواز کا خاندان سب سے پہلے جائے حادثہ پر مدد کے لیے پہنچا۔ نصف شب دھماکے کی آواز سے ٹرینیں ٹکرائیں تو علی نواز کا بے خبر سویا ہوا خاندان ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا اور پھر بھاگ کر جائے حادثہ پر پہنچا۔ جہاں قیامت کے مناظر تھے۔ چیخ و پکار تھی۔ کوئی ویرانے میں پڑا ٹرین کی پٹڑی پر گرا آخری سانسیں لے رہا تھا۔ یہ درد مند خاندان اپنے نوجوان‘ عورتوں اور مردوں سمیت ان مصیبت کے ماروں کی مدد کرنے لگا۔ ٹرین کی سیٹ نکال کر اسے سٹریچر کی جگہ استعمال کیا اوندھی پڑی بوگیوں میں سے اندر گھس کر پھنسے ہوئے مسافروں کو نکالا‘ زخمیوں کو بھاگ بھاگ کرپانی پلایا۔مسافروں کے ساتھ بچے بھی تھے جو بھوکے تھے‘ روتے تھے کرلاتے تھے، انہیں سنبھالا۔ علی نواز کی اہلیہ حبیبہ مائی نے دن رات چولہے پر بیٹھی کھانا بناتی رہی۔ وہ بتاتی ہے کہ ایک زخمی عورت اپنے تین چھوٹے بچوں کو لے کر آئی تو میں نے گائے کا دودھ دویا‘ انہیں پلایا۔ زخمی عورت کا چہرہ گرد سے اٹا ہوا تھا‘ وہ ننگے پائوں تھی۔ میں نے اس کا چہر دھلایا اور اپنا جوتا اتار کر اسے پہنا دیا۔ خبر میں ہے کہ حبیبہ مائی نے بتایا کہ چولہے پر کام کر کے اس کی انگلیاں جل گئیں۔ خود کو تکلیف میں ڈال کر خدمت گزاری کرنے والی حبیبہ مائی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ مطمئن تھی کہ ہم سے جو ہو سکا ہم نے کیا۔سنا ہے کہ ایک افسر نے خوش ہو کر اسے سخی دل خاندان کو پچاس ہزار انعام بھی دیا۔میں سندھ حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ علی نواز کے خاندان کو اس خدمت گزاری پر حکومت سندھ کی طرف سے انعام ملنا چاہیے۔سندھ سے ٹھنڈی چھائوں جیسی خبر کا آنا تو ویسے ہی اچھنبے کی بات ہے۔ ہم تو حکمرانوں کی عجب کرپشن کی غضب کہانیاں سننے کے عادی ہیں۔یا پھر کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ لگنے سے تڑپ تڑپ کر جان دیتے بچوں کی تکلیف دہ خبروں پر افسوس کرنے کے عادی ہیں۔ آج ہی کے اخبار میں سندھ سے آنے والی خبر نے دل دہلا دیئے کہ استعمال شدہ سرنجیں بچوں پر استعمال کرنے سے سندھ کے دیہاتوں میں بچے ایڈز کے مریض بن رہے ہیں۔ یہ خبر پہلے بھی آئی تھی میں نے اس پر کالم لکھا تھا۔ آج خبر میں ہے کہ ایڈز کا شکار ہونے والے پچاس بچے اپنے خوابوں سمیت منوں مٹی کے نیچے جا سوئے ہیں۔ کوئی بتائے گا ان بچوں کے بے وقت موت بلکہ قتل کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سرزمین سے ہی ہمیں تھری بچوں کے مرنے کی خبریں تواتر سے آتی ہیں۔ المناک خبروں کے اس ہجوم میں ڈہرکی کے سخی دردمند ہیرو خاندان کی خبر سے ہمارے دل خوشی مسرت اور فخر سے بھر گئے کہ انسانیت ابھی زندہ ہے۔ہم تو عادی تھے بے ضمیری‘ تنگ دلی‘ بے حسی اور لوٹ کھسوٹ کی داستانوں کے۔ موت کے زرد ہاتھوں میں ٹھنڈی ہوئی لاشوں کی جیبوں سے پیسے نکالنے کی خبروں کے۔ ہمیں تو ایسے مسیحائوں سے واسطہ پڑتا رہا ہے جو تڑپتے ہوئے مریض کو اس وقت تک ہاتھ نہیں لگاتے جب تک لواحقین فیس کی ایک ایک پائی ادا نہ کردیں۔ استثنیٰ موجود ہے ،مگر معاشرے کی مجموعی صورت پر بات کریں تو یہی بے حسی کے نوکیلے کانٹوں سے اٹا ہوا منظر نامہ دکھائی دیتا ہے۔ قحط الرجال کا سماں ہے اور ایسے میں ڈہرکی کا یہ ہیرو خاندان‘ احساس اور دردمندی کی بے مثال داستان رقم کر کے ہمارے دلوں میں اتر گیا۔