آج سے ایک سوسال قبل برصغیر کی جدوجہد آزادی کے دوران برطانوی سامراج کی بربریت ،درندگی کے وحشیانہ مظالم کی داستان میںسانحہ جلیانوالہ باغ ایک ناقابل فرامو ش باب ہے۔ انگریزشاہی نے براہ ِراست تسلط وغلبہ کے دوران برصغیر میں جن گھنائو نے جرائم کاارتکاب کیا،آج ہندوستان کشمیری مسلمانوںپراسے کہیں زیادہ مظالم ڈھارہاہے جس کی گواہی ایک لاکھ سے زائدکشمیری شہداء کالہو دے رہاہے۔ ہندوافواج نے کشمیری مسلمانوںکوکشمیرکے چپے چپے پرگولیوں کانشانہ بناکرایک نہیں بلکہ بے شمارجلیانوالہ باغ ایسے سانحے عمل میں لائے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ جلیانوالہ باغ کاواقعہ انگریز سامراجی بربریت کی خونی یادگار ہے، مگر1990ء سے 1996ء تک سری نگرکے گائوکدل، حول ،خانیار،سوپور،ہندوارہ کپوارہ ، بجبہاڑہ ، چھٹی سنگھ پورہ میں عوامی جم غفیر پر جس طرح قابض بھارتی فوج نے اندھا دھند گولیاں چلا کر سینکڑوں کشمیری مسلمانوں کو نہایت بے رحمی سے شہید کیا 2008ئ، 2011ئ، 2016ء اور2018ء میں ہندوستانی قابض فوج نے جس بڑے پیمانے پرکشمیری مسلمانوں کوخاک اورخون میں تڑپایاکیا ہندوستان کواس پرکوئی شرمندگی کااحساس ہے ۔ فیض نے کیاخوف کہاہے چلو آئو دکھائیں ہم جوبچاہے مقتل شہرمیں یہ مزار اہلِ صفا کے ہیں،یہ اہل صدق کی تربتیں 13اپریل 1919ء کے روز امرتسر کے جلیانوالہ باغ کی چاردیواری کے اندر ہزاروںلوگ برطانوی حکومت کے خلا ف بطور احتجاج جمع تھے۔ اجتماع بالکل پرامن تھا اورکسی قسم کی گڑبڑ کاکوئی شک و شبہ نہیںتھا لیکن باغ کی چار دیواری میںگھرے ہوئے نہتے اورسادہ لوح حاضرین ِجلسہ کو کیاخبر تھی کہ برطانوی افسرشاہی اس جگہ خاک وخون کا کھیل کھیلنے کی قبل ا زوقت سازش تیارکر چکی تھی اور جولیڈر جلسے سے خطاب کرنے والے تھے، ان کی گرفتاریاں شروع ہوچکی تھیں۔یہ تھا وہ منظر جب برطانوی فوجی افسر جنرل ڈائر کے حکم سے فوج باغ کے اندر جانے والے واحد تنگ سے راستہ سے اچانک داخل ہو ئی اور بغیرکسی قسم کی پیشگی وارننگ اور اجتماع کو منتشر ہونے کاموقع دئے بغیر چاروںطرف سے فائرنگ شروع کردی ۔ باغ کے اردگرد اونچی دیوار کے باعث نہتے لوگوں کے لئے موقع واردات سے فرارہونے کاکوئی راستہ نہ تھا اور داخلے کے راستے پر موجود گورے فوجیوں کے دستے اندھا دھند گولیاں برسا رہے تھے۔ انہوں نے بھاگم دوڑ کر تے لوگوں کامسلسل پیچھا کیا اور نشستیں باندھ کر ان کونشانہ بنایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ صحن نہتے انسانوں کے خون سے لالہ زار ہوگیا، لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ جلیانوالہ باغ کے قتل و خون نے برصغیر کے عوام کوجھنجوڑ کر رکھ دیا اور برطانوی سامراج کے خلاف غم و غصے اور نفرت کاجوالامکھی پھوٹ پڑا۔پنجاب میں بغاوت کی لہر کو کچلنے کے لئے انگریزوں نے مارشل لا نافذ کردیا۔ بڑے پیمانہ پر گرفتاریاں عمل میںلائی گئیں۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو جوکہ کشمیر النسل تھے، کے سمیت اٹھارہ سرکردہ ہندوستانی لیڈروں پر سنگین الزامات پر مقدمہ چلایاگیا،جوشروع سے آخرتک جھوٹ اور کذب بیانی پرمبنی تھا لیکن سامراجی مظالم کانتیجہ الٹا نکلا۔ تحریک دبی نہیں بلکہ اور بھی شدت سے ابھرآئی۔بہت سے نوجوان جوعام حالات میں انگریزی راج کی افسر شاہی کا حصہ بنتے، وہ جذبہ حریت سے لبریز ہوکر برصغیر کوانگریزسامراج کے تسلط سے آزاد کروانے اور ذلت آمیز غلامی سے نجات دلوانے کے لئے سروں پرکفن باندھ کرمیدان میں نکل آئے۔ بعدازاں گاندھی نے برطانوی سامراج کے خلاف ملک گیر نفرت کی آگ کو ’’اہنسا‘‘ کے پوجاپاٹ سے بجھانے کی کوششیں شرو ع کردیں مگر ظالم سامراج کے ساتھ سودا بازی اور مفاہمت کے گاندھیائی فلسفہ برصغیرکے عوام کا جذبہ حریت کا شعلہ مدہم نہ کر سکا ۔ کہتے ہیں کہ عوام کا حافظ کمزو ر ہوتاہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ جتنا عوام پر ظلم ڈھانے والوںکا! اگرایسانہ ہوتاتو پھرجنرل ڈائر کواس کے بھیانک انجام تک پہنچانے کے لئے اودھم سنگھ پنجاب سے ایک سکھ نوجوان نہ اٹھتا۔ اس نے عزم کرلیاکہ وہ جلیانوالہ باغ کے قاتل جنرل ڈائر سے بدلہ لے کر ہی دم لے گا۔ ادوھم سنگھ اس فخرکے ساتھ پھانسی چڑھا کہ اس نے جلیانوالہ باغ میں سینکڑوں مقتولین کے خون کا بدلہ اس جنرل سے لیاکہ جس کے حکم پر یہ قتل عام ہوا۔ انگریزسامراج کولگ پتہ گیاکہ قاتل کومعاف نہیں کیاجاتاہے۔13، اپریل 2019 ء کو ہندوستان بھرمیں جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے سوبرس پورے ہونے پر برطانیہ سے اس قتل عام پرمعافی مانگنے پرسیمنار اور ریلیاں منعقد ہوئیں۔اچھا ہوا،اوریہ ٹھیک ہے کہ برطانیہ کو اس قتل عام پربرصغیرہندوپاک کے عوام سے معافی طلب کرنی چاہئے لیکن بنیادی سوال ختم نہیں ہوتا اوروہ اب بھی باقی ہے۔وہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہندوستان کشمیریوں کے خلاف جاری بربریت سے دستکش ہو رہا ہے اورکشمیری مسلمانوں سے معافی مانگ کران کاحق آزادی قبول وتسلیم کرتاہے ؟کیا قاتل جنرل ڈائرکے بھیس میں ہندوستانی فوج میں قاتل جنرلوں کی ایک بڑی تعدادموجود نہیںہے کہ جنہوں نے کشمیریوں کاقتل عام کیااورمسلسل اس جرم عظیم کاارتکاب کررہے ہیںاورکشمیری مسلمانوں کو ان کے جائزاورمبنی برحق مطالبہ آزادی پر اسی طرح گولیوں کانشانہ بنار ہے ہیں کہ جس طرح انگریز راج میں محض ایک جلیانوالہ باغ کاالمناک واقع دقوع پذیر ہوا تھا ؟ کیاکشمیری مسلمانوںکوفرنگی راج کی طرح برس ہابرس تک جیلوں،عقوبت خانوں اورٹارچرسیلوں میںمقید نہیںرکھا جاتا ؟کیا مقبوضہ کشمیر پر ہندوسامراج کی خوفناک آندھیاں بلاناغہ اورمسلسل جاری نہیںہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کل برطانوی سامراج برصغیرکے عوام کی گردنیں دبوچے ہوئے تھااور آج بھارت مقبوضہ کشمیرکواپنانو آبادیاتی علاقہ سمجھتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کی گردنیں اڑارہا ہے اورہندوسامراج کی سامراجیت اوراسکی فسطائیت پرپوری دنیاکوسانپ سونگ گیاہے۔خبردار!اس ملک کوجلیانولہ باغ کے قتل عام پرٹسوے بہانابندکرناچاہئے کہ جوکشمیرمیں سینکڑوں قتل عام کے سانحات کاذمہ دار اورمجرم ہے۔ یادرہے کہ جس طرح ماضی قریب میں انگریزسامراج کی سازشوں کوناکام بنانے کے لئے ایک زبردست اور نتیجہ خیز عوامی تحریک بالآخرکامیاب ہوئی اورانگریزسامراج کوبرصغیرکے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے عین اسی طرح آج کشمیری مسلمان اپنے خون سے اپنے مستقبل کاعنوان اوراپنی آزادی کے پیرے لکھ رہے ہیں اوروہ وقت دورنہیں کہ جب ہندو سامراج کے خلاف کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد کامیابی کی منزل سے ہمکنارہوجائے گی۔جلیانوالہ باغ کاالمناک واقعہ سوبرس گذرجانے کے باوجود کشمیری مسلمانوں کے جذبہ حریت کوبیدا رکرتا اور سنگ ِمیل دکھاتا ہے ۔