پاکستان اور ایران نے دوطرفہ تعاون کو بڑھانے اور علاقائی سکیورٹی سمیت مختلف مسائل سے مشترکہ طور پر نمٹنے کا عزم کیا ہے۔ پاکستان کے دورہ پر آئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے وزیراعظم، وزیر خارجہ، سپیکر قومی اسمبلی اور آرمی چیف سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور امریکہ ایران کشیدگی پر ایران کا نکتہ نظر پیش کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قرشی نے ایرانی ہم منصب کو یقین دلایا کہ پاکستان مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ خطے میں استحکام کے لیے فریقین کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات میں اپنے دورہ ایران کے دوران کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد میں تیزی کی امید ظاہر کی۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس موقع پر چابہار پورٹ کو گوادر سے منسلک کرنے کی تجویز پیش کی۔ ایک مشکل وقت میں ایرانی وزیر خارجہ کی پاکستانی حکام سے ملاقاتوں کو دونوں ہمسایہ ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے معاون سمجھا جا رہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کابظاہر وزیراعظم عمران خان کے ایرانی دورہ کے دوران کئے گئے فیصلوں کے جائزہ اور عملدرآمد کے معاملات سے متعلق دکھائی دیتا ہے تاہم خلیج میں امریکی بحری بیڑے کی موجودگی اور جنگ کی دھمکیوں نے ایران کو ہمسایہ مملک سے تعاون طلب کرنے کی راہ دکھائی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے ایران پہنچتے ہی اپنے عوام کو یہ اطلاع دی کہ ’’پاکستان امریکہ کی جانب سے ایران پر دبائو بڑھانے کی حالیہ کوششوں کو غیرمنصفانہ سمجھتا ہے‘‘۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستانی حکام سے اپنی ملاقاتوں کو مثبت ‘تعمیری اور مفید قرار دیا ہے۔ یقینا دونوں ممالک کو جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے اس صورت حال میں مسلم دنیا کے ساتھ امریکہ کے جارحانہ طرز عمل کو زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ یہ عالم اسلام کے لیے باعث تشویش امر ہونا چاہیے کہ امریکہ کئی سال پہلے لیبیا، شام اور ایران کو برائی کے محور قرار دیتا ہے اور پھر ایک ایک کر کے ان کے خلاف جارحانہ اقدامات کا آغاز کردیتا ہے۔ شروع میں پاکستان کو بھی ان ممالک کے درجہ میں شامل کیا گیا مگر پھر پاکستان کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے اس کے بارے میں اعلانیہ ایسے الفاظ ادا کرنے سے گریز کیا جانے لگا جو پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں قیام امن کے معاملات میں امریکہ سے تعاون ختم کرنے پر اکسائیں۔ امریکہ کئی سال سے خلیج میں ایک ہی طرح کا کھیل رچا کر اسلحہ فروخت کر رہا ہے۔ اس بار صدر ٹرمپ نے کانگرس کو بائی پاس کرتے ہوئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو 8 ارب ڈالر کا اسلحہ ہنگامی طور پر فروخت کرنے کی منظوری دی ہے۔ امریکہ کے سابق صدارتی امیدوار برنی سینڈر نے کھل کر ایران پر حملے کی تجویز کی مخالفت کی ہے۔ کچھ دن قبل ایک تقریب میں ایران میں سابق امریکی سفیر جب ایران کے خلاف کارروائی کو درست قرار دے کر اپنی نشست پر بیٹھے تو ایک خاتون نے سٹیج پر آ کر ان کی باتوں کو جھوٹ قرار دیا اور ایران پر جنگ مسلط کرنے کو عالمی امن کے ساتھ کھلواڑ قراردیا۔ احتجاجی خاتون کا کہنا تھا کہ اس طرح امریکیوں کی زندگی کو غیر محفوظ بنایاجاہا ہے۔ وہ انٹیلی جنس رپورٹس اب تک دنیا کے حافظے میں محفوظ ہیں جن کی بنیاد پر امریکہ نے دعویٰ کیا تھا کہ صدام حسین نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار جمع کر رکھے ہیں۔ صدام کی موت کے بعد یہ تمام رپورٹس جھوٹی ثابت ہوئیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم ٹونی بلیئر ان رپورٹس کے جھوٹے ہونے کا اعتراف کر کے مستعفی ہوئے مگر امریکی حکام نے آج تک اس پر معافی نہیں مانگی۔ دراصل امریکہ جنگ اور جنگی طاقت کو کرائے پر لیتا ہے۔ اس بار بھی اسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے جنگی اخراجات ملنے کا یقین ہے لہٰذا باقی سٹریٹجک فوائد کو وہ اضافی منافع سمجھ کر ایک بار پھر خلیج میں مسلز کی نمائش کر رہا ہے۔ جناب جواد ظریف گزشتہ چھ برسوں کے دوران دس بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ وہ اس امر سے واقف ہیں کہ پاکستان میں ایران مخالف سوچ عوامی سطح پر پذیرائی نہیں رکھتی۔ ذرائع ابلاغ بھی عموماً کسی برادر مسلم ممالک کے معاملات پر ناپسندیدہ انداز میں بات نہیں کرتے۔ دوسری طرف ایرانی ذرائغ ابلاغ اگرچہ حکومتی کنٹرول میں ہیں مگر وہاں پاکستان کا ذکر کئی بار نامناسب انداز میں ہوتا ہے۔ دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے کی کئی بنیادیں ہیں۔ پاکستان کشمیر اور بھارت کے معاملات میں حساس ہے جس طرح پاکستان یہ نہیں چاہتا کہ ایران کی خودمختاری اور آزادی کو نقصان پہنچے، اسی طرح پاکستان اپنے دیرینہ دوستوں اور اچھے ہمسایوں سے بھی توقع کرتا ہے کہ وہ بھارت سے تعلقات استوار کرتے وقت پاکستان کی سلامتی پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ چاہ بہار کو گوادر کے ساتھ منسلک کرنے سے خطے میں تجارت اور اقتصادی ترقی میں اضافہ ہو گا مگر ساتھ یہ بھی عرض ہے کہ ایرانی سرزمین کو بھارتی اڈوں اور سرگرمیوں سے پاک کیا جائے۔ پاکستان اور ایران ایک دوسرے کی معاشی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیتیں رکھتے ہیں۔ دونوں ملک سرحدوں کو بیرونی عناصر سے محفوظ بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو کئی مقامی تنازعات ختم ہو سکتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے اس پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے کہ دو برادر مسلم ممالک میں سے جھگڑے کے وقت کسی ایک کا حلیف نہ بنا جائے تاہم مصالحانہ کردار کے ذریعے دونوں میں جھگڑا ختم کروانے کی ضرور کوشش ہونی چاہیے۔ ایران اور سعودی عرب دونوں پاکستان کے لیے اہم ہیں اگر پاکستان کے مصالحانہ کردار سے دونوں جنگ سے محفوظ رہ سکتے ہیں تو یہ عمل خطے میں قیام امن کی نئی شروعات ہوسکتا ہے۔