تین اپریل 2022ء پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس دن وہ کچھ ہو گیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔اپوزیشن کو اپنی جیت کا پورا یقین تھا اس کے پاس نمبرز پورے تھے۔ کپتان کا کہنا تھا کہ وہ آخری دن سرپرائز دے گا ۔کپتان نے ایسا سر پرائز دیا کہ اپوزیشن تو ایک طرف ، سب میڈیا اور حکومت کے اراکان بھی حیران رہ گیا۔ عمران خان نے یہ سر پرائز کرکٹ کی کیری پیکر سیریز سے سیکھا ہے۔ جب چینل نائن کے اسٹریلیا کے کرکٹ بورڈ سے اختلاف ہو گئے تو -76 1975 میں چینل نائن کے مالک نے اسٹریلیا ، انگلینڈ ، پاکستان، اور ویسٹ انڈیز کے کھلاڑیوں کو ملا کر تین ٹیمیں بنا دیں اور انکے درمیان میچز کروانا شروع کر دئیے۔اس وقت تک انڈر آرم بالنگ لیگل تو تھی لیکن کرائی نہیں جاتی تھی ایک میچ میں جب میچ جیتنے کے لئے چار رنز سے کم کی ضرورت تھی تو گریگ چیپل کے بھائی ٹریور چیپل نے آخری گیند انڈر آرم کروا دی۔ بلے باز ہکا بکا رہ گیا۔ بالنگ والی سائڈ میچ جیت گئی مگر اسٹریلیا کے پریس میں آئن چیپل پر بہت تنقید ہوئی کہ وہ ٹیم کا کپتان تھا۔ آسٹریلیا کے باولر ڈینس للی نے یہ بات اپنی ڈائری میں لکھی تھی۔ان دنوں عمران خان بھی کیری پیکر سیریز کا حصہ تھے۔ لگتا ہے اپوزیشن کی عدم اعتماد کی قرارداد کو ریجیکٹ کرانے میں یہ داؤ استعمال کیا گیا۔ کھیل میں کچھ باتیں لیگل تو ہیں مگر انکا استعمال اسپورٹس مین سپرٹ کے خلاف سمجھا جاتا ہے اسی طرح کا ایک قانون ہینڈلڈ ود بال کا ہے جس کے تحت اگر بلے باز بال کو دانستہ یا نادانستہ ہاتھ لگا دے تو تو اسکو اؤٹ قرار دیتے ہیں بعض اوقات بلے باز کھڑی بال کو بالر کی جانب پھینک دیتا ہے اگر مخالف ٹیم اپیل کردے تو بلے باز آوٹ ہو جاتا ہے لگتا ہے خان صاحب نے اس میچ کے لئے سب قوانین کا مطالعہ کر لیا تھا۔ اجلاس شروع ہوا اور تلاوت قران مجید اور نعت خوانی کے بعد وزیر قانون فواد چوہدری کھڑے ہوئے اور آئین کے آرٹیکل 5 کا حوالہ دیا اور قرارداد کو ریجیکٹ کرنے کے مانگ کی۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری جو سپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے انہوں نے 200 کلو میٹر کی رفتار سے رولنگ شروع کی اور ایک ہی سانس میں تحریک عدم اعتماد کو ریجیکٹ کر دیا۔ اپوزیشن کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا تھا۔ اب اپوزیشن اس رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ میں گئی ہے اگر سپریم کورٹ سپیکر کی اس رولنگ کو جائز قرار دیتی ہے تو اپوزیشن کے بہت سے اراکان پر غداری اور سازش کا مقدمہ بن سکتا ہے اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ اپوزیشن کے حق میں آتا تو حکومت پر آرٹیکل 6 کے تحت آئین توڑنے کا مقدمہ بن سکتا ہے۔ اب آئینی ماہرین اس بات پر تقسیم ہیں کہ سپیکر کے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ کچھ ماہرین کہتے ہیں آرٹیکل 69 کے تحت اسمبلی کی کاروائی کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ ماہرین فہمیدہ مرزا کے کیس کا حوالہ دیتے ہیں جہاں پر عدالت نے سپیکر کی رولنگ کو رد کردیا تھا۔ اب جو بھی ہو یہ بات تو طے ہے کہ میچ اب ختم ہوچکا ہے اب میچ نئے سرے سے شروع ہوگا۔ وزیر اعظم کی درخواست پر صدر اسمبلی توڑ چکے ہیں اور وزیر اعظم نئے الیکشن کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب الیکشن تین ماہ میں ہوتے ہیں یا دو ماہ میں۔ بہت سی باتیں ابھی واضح نہیں کچھ ماہرین کا کہنا جب وزیر اعظم خود اسمبلی توڑتا ہے تو الیکشن 90 دن کے اند ر ہوتے ہیں اور نگران وزیر اعظم کا تقرر نہیں ہوتا۔ اب اتنے کم عرصہ میں نئی حلقہ بندی کے ہونا ممکن نہیں۔نئی حلقہ بندی کے بغیر جو الیکشن ہونگے وہ بھی متنازعہ ہونگے۔ اب یہ الیکشن کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔اب اس سلسلہ میں سب سے بڑا شاک پاکستان مسلم لیگ نواز کو ہوا ہے۔ شہباز شریف وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے۔ حمزہ شہباز وزیر اعلی بننے کی کاوش میں تھے۔ پاکستان میں ایک نیا ریکارڈ بننے جا رہا تھا کہ ملک کا وزیراعظم باپ اور سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلی بیٹا۔مسلم لیگ کی قیادت کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ شریف خاندان کے علاوہ ان کے پاس بھی کوئی دوسری آپشن نہیں ہے۔ صدر زرداری 2022ء میں الیکشن نہیں چاہتے تھے انکی خواہش تھی کہ یہ نظام 2023 تک چلتا رہے عمران خان کو نکال کے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ عمران موجود ہے اور باقی سب غائب۔ پاکستان مسلم لیگ نوازکی خواہش تھی کہ الیکشن جلد ہوں مگر مارچ کے مہینہ میں عمران خان کی مقبولیت ایک دم پھر سے عروج پر ہے کے پی کے میں کپتان کا راستہ روکنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ پنجاب میں دیکھنا ہے کہ ترقی کا نعرہ چلتا ہے یہ کہ قومی خودداری اور غیرت کا۔ شہباز شریف کا بھکاری والا بیان پاکستان تحریک انصاف خوب اچھالے گی۔ عمران خان کی حکومت جو ایک ماہ پہلے مقبولیت لے لحاظ سے کھائی میں پڑی تھی تحریک عدم اعتماد نے اسکو نئی زندگی دے دی ہے۔ 1988 میں قومی اسمبلی کا لیکشن پیپلز پارٹی نے جیتا تھا اور تین دن بعد جاگ پنجابی جاگ کے نعرے نے صوبائی اسمبلی کے نتائج بدل کے رکھ دئیے تھے۔ اب دیکھیں کس کا بیانیہ بکتا ہے ووٹ کی عزت جو نعرہ لگانے والوں کے ہاں بھی نہیں یا ملک کی عزت کا۔ اب کپتان اور امریکہ بھی امنے سامنے ہونگے آنے والے الیکشن میں۔ کالم کی اشاعت تک شاید سپریم کورٹ کا کوئی بڑا فیصلہ آجائے۔ جو بھی فیصلہ آئے یہ بات تو طے ہے کہ اس سال الیکشن ضرور ہونگے اور نئی حکومت بنے گی اور وہ کس کی حکومت ہوگی یہ تو آنے والہ وقت بتائے گا۔