کہتے ہیں ایک دانشور بادشاہ کے لئے تقریر لکھا کرتا تھا ایک روز بادشاہ کی تقریر میں ایک مختصر سا جملہ لکھا ہوا دیکھا گیا کہ ’’آٹا ندارد‘‘ یعنی آٹا نہیں ہے۔ بادشاہ بھی تب سمجھدار ہوا کرتے تھے۔ بادشاہ نے پتہ چلوایا تو حقیقت کھلی کہ اس دانشور نے بے خیالی میں گھر کی صورت حال دو لفظوں میں لکھ دی۔ بادشاہ نے اس کے گھر گندم بھجوائی اور انعام و اکرام ۔ ادھر تو ساری عوام ہی چیخ رہی ہے کہ آٹا ندارد کوئی بندوبست کرنے کی بجائے بادشاہ کے سارے رتن مسخریاں کر رہے ہیں۔ آٹے سے محروم لوگوں کی آوازیں حکومتی مسخروں کے شور میں دب کر رہ گئی ہیں۔ ایک اٹھتا ہے تو کہتا ہے لوگ نومبر دسمبر میں آٹا زیادہ کھاتے ہیں اس لئے آٹے کا بحران پیدا ہو گیا۔ بندہ پوچھے نومبر دسمبر کیا پہلی مرتبہ آیا۔ یہ صاحب یعنی شیخ رشید صاحب تو گندم شاید کھاتے ہی نہیں انہیں تو ویڈیو کلپس میں بریانی میں سے لیگ پیس چن چن کر کھاتے ہوئے اور عمران خان کو انہیں دیکھ کر شرماتے ہوئے دیکھاگیا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ آٹا افغانستان کے لئے سمگل ہو رہا ہے اوراس کام کا ن لیگ کے دور میں آغاز ہوا۔ پھر بیان بدل کر کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے یہ سمگلنگ روک دی ہے اگر روک دی ہے تو پھر وہ آٹا کہاں ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ بحران مصنوعی ہے۔ اگر مصنوعی ہے تو حکومت ذمہ دار ہے اور تاجر یہ کر رہے ہیں تو حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ کہنے والے تو کہتے ہیں کہ عمران خان کے سہولت کار آٹا کھا گئے۔ غرضیکہ جتنے منہ اتنی باتیں عوام بٹ بٹ منظر نامہ دیکھ رہے ہیں حکومت کے بلند بانگ دعوے اور بڑھکیں خان صاحب کی ناراضگی غصہ اور نوٹس اپنے دوست اعجاز یاد آ گئے: مرے بالوںمیں چاندی آ گئی ہے تری زلفوں کا سونا کیا کروں میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز فیاض چوہان ہیں کہ آٹے کا کوئی بحران ہے ہی نہیں۔ گویا کہ لوگ ایسے ہی عادتاًچلا رہے ہیں۔ زخموں پر نمک پاشی اور کیا ہوتی ہے۔ غالب نے بھی تو کہا تھا ناں: یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہے دوست ناصح کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا ویسے ایک حساب سے دیکھا جائے تو حکومت کامیاب جا رہی ہے کہ آئے روز کوئی نہ کوئی بحران پیدا کر دیتی ہے لوگ دوسرے معاملات ہی بھول جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے کان میں درد ہو رہا ہو تو کان میں دوائی ڈالتے ہوئے گرم گرم چمچ کان پر لگا دیا جائے اور کان جل جائے اندر کی درد تو فوراً ختم ہو جائے گی۔ بڑی الجھن چھوٹی الجھن کو خود ہی ختم کر دیتی ہے پھر غالب یاد آئے: دل ہوا کشمکش چارہ زحمت میں تمام مٹ گیا گھِسنے میں اس عقدے کا وا ہو جانا آسماں نے یہ بھی دیکھنا تھا کہ اب آٹا پائو کے حساب سے بکے گا۔ پہلے تو سبزیاں کلو کی بجائے پائو کے حساب سے بکنے لگی تھیں۔ اب 20روپے پائو آٹا ہے اور اگر کچھ دن یہی صورت حال رہی تو بات چھٹانک تک آئے گی۔ بات صرف آٹے تک محدود نہیں۔ جو شخص بھی روٹی کھاتا ہے اس نے اپنے کام اور کاروبار سے روٹی پیدا کرنی ہے کل سے مستری نے 1300روپے سے دیہاڑی بڑھا کر 1400روپے کر دی ہے جہاں بھی آپ حیرت کا اظہار کرتے ہیں جواب ملتا ہے بائو جی! آپ کہاں رہتے ہیں۔ آٹے کے ریٹ تو دیکھیں گویا تمام چھوٹے موٹے تاجروں اور محنت مزدوری کرنے والوں نے آٹے کے حساب سے اپنا منافع اور اجرت طے کر لی ہے۔ وہ جو پہلے صرف محاورہ تھا کہ آٹے تیل کا بھائو معلوم ہو جائے گا’’اب حقیقت لگنے لگا ہے۔ وہی عارف پروہنا کا عوامی شعر: آٹا مہنگا تیل وی مہنگا ہن سجناں دا میل وی مہنگا وفاق سندھ پر معترض ہے کہ 34روپے کلو والا آٹا 80روپے کلو میں کیوں فروخت ہو رہا ہے مراد شاہ نے جواب میں کہا ہے کہ دو تین روز میں بحران پر قابو پا لیا جائے گا۔ ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال کے باعث یہ صورت حال پیدا ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب میں تو وسیم پلس صاحب ہیں اور وہ بہت غصے میں بھی ہیں مگر انہیں کوئی درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔ بات یوں ہے کہ اگر سچ مچ حکومت اس بحران کی ذمہ دار نہیں تو پھر تاجران فلور ملز کا علاج تو گورنر پنجاب نواب آف کالا باغ نے دریافت کر لیا تھا۔ انہوں نے فلور مل مالکان کو گورنر ہائوس کھانے پر بلایا اور عین کھانے کی میز پر انہیں کہا کہ پیچھے ہٹ کے کان پکڑ لیں۔ پھر کہا کہ چلو رعایت دی جاتی ہے کہ اگر کل تک آٹا مارکیٹ میں نہ آیا تو اس حکم کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ ڈنڈا پیر اے بگڑیاں تگڑیاں دا۔ یہ تو کوئی بات نہیں کہ تاجران اور بیورو کریسی نے پورے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے انتظامی سطح پر کوئی محکمہ چاہے وہ صحت کا ہو یا تعلیم کہ وہاں متعلقہ شخص اپنے تجربہ سے کام چلائے‘ وہاں بھی بیورو کریٹ کو فٹ کر دیا جاتا ہے۔ معاشی سطح پر تاجر نہیں جینے دیتے۔ ٹیکس لگتا ہے تو تاجران کا ٹیکس بھی اس میں شامل ہو جاتا ہے۔ ناجائز منافع خوری عام ہے۔ ملازمین کا استحصال کون نہیں کرتا۔ آپ بیکریوں پر یا سٹورز پر دیکھ لیں بے چارے ملازم 8گھنٹے کی بجائے بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں۔ سہمے رہتے ہیں کہ ذرا سا احتجاج بھی انہیں بے روزگار کر سکتا ہے۔ چیک کرنے والی کوئی اتھارٹی ہم نے تو نہیں دیکھی اور نہ سنی۔ آٹا نایاب ہوا تو یقینا پرانا دور یاد آیا کہ فقیر گھر گھر سے آٹا مانگا کرتے تھے۔ اس کا جھولا آٹے سے بھر جاتا تھا۔ آٹا عام تھا۔ امریکہ نے میکسی پاک گندم ہمیں بھیجی تو آٹے کا ایک نیا دور شروع ہوا ہمارے جھولے میں میکسی پاک تھی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ یہ گندم اونٹوں پر لادی گئی تھی اور اونٹوں کے گلے میں تختیاں آویزاں تھیں جن پر لکھا تھا۔Thank you America اب زمانہ بدل گیا ہے ڈالر آ گئے ہیں ابھی میں گوجرانوالہ کی ایک شادی کی خبر دیکھ رہا تھا جس میں بارات والوں نے ڈالر لٹائے۔ ڈالر ایک سمبل بن گیا ہے۔ جو بھی ڈالر کی جگہ خریدوفروخت کے لئے نئی کرنسی لائے گا اپنی بقا کا ضرور سوچے گا۔ چلیے بات تو چلی تھی آٹے کی تو پھر ہمارے دوست بابا نجمی کی آٹے پر لکھی نظم کے ایک دو بند دیکھ لیں: آٹا شامیں لے کے آویں بھاویں لہو دے مُل لیاویں اج وی اکو سدھ اڑیا آٹالے اسمانی چڑھیا ساڈے ویڑے کہڑا وڑیا سول حکومت آمر ورگی رات لمیری ‘انبھی سرگی جیویں پچھاں بولے سڑیا آٹا لے اسمانی چڑھیا ساڈے ویہڑے کیہڑا وڑیا