یہ بات بار بار ہمارے مشاہدے میں آئی ہے اور آتی ہی چلی جا رہی ہے کہ کسی بھی گھر میں، کوئی بھی بچہ پیدا ہونے کے بعد ہمیں سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہوتی ہے کہ یہ بڑا ہو کر کیا بنے گا؟پھر رفتہ رفتہ یہ سوال ، استفسار یا خواہ مخواہ کا لمحۂ فکریہ ہمارے، ذہن، اعصاب اور حواس پر اس شدو مد کے ساتھ سوار ہو جاتا ہے کہ اس کے چھوٹے ہونے کے احتیاط اور احتیاج کو ہم سرے سے فراموش کر دیتے ہیں۔ہم اس کے لیے مکان اور مقام کی فکر میں پڑ جاتے ہیں،تربیت بھول جاتے ہیں۔مولانا الطاف حسین حالی نے سچ بلکہ سچ مُچ فرمایا تھا کہ: واعظو ! آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے وہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت حالانکہ اس سنجیدہ سوال کا ہمارے ایک مزاحیہ شاعر نے ان حضرات کی مرضی و منشا و خواہشات کے عین مطابق نہایت تسلی و تشفی بخش جواب دے کے یہ چیپٹر کب کا بند کر دیا ہے ، جو فرماتے ہیں: پوچھتے ہیں وہ کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟ پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا اسی طرح بے شمار لوگوں کو گھر میں بیٹی پیدا ہونے پر چار چار آنسو بہاتے دیکھا ہے۔ سنا ہے سگھڑ مائیں پہلے دن سے ہی اس کے غیر اسلامی جہیز کی فکر کرنے لگ جاتی ہیں۔ زمانے والے اس کو یہ کہہ کے گھر سے باہر نکلنے سے منع کرتے ہیں کہ زمانہ خراب ہے!! حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہر آنکھ میں ایک غنڈہ بیٹھا ہے، کیونکہ قانون بڑے لوگوں کی لاٹھی بن چکا ہے۔عام آدمی بھی یہی سمجھتا ہے کہ اس کے سوا ہر ایک کو کڑی سزا ملنی چاہیے۔ دوستو! یہ فکر کا نہیں، غور و فکر کا مقام ہے۔ ہمارے دین نے تو بیٹی کو رحمت قرار دیا ہے۔ والدین پہ اس کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری ہے، اس کے معاشرتی تحفظ پہ زور ہے، جائیداد میں مناسب حصہ دینے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، پِٹ سیاپے کا تو محل ہی نہیں ہے۔ رحمت پہ رویا نہیں ، شکر ادا کیا جاتا ہے۔ ذرا ہاتھ اٹھا کے بتائیں کہ ہمارے ہاں کتنے فیصد لوگ ہیں جو کسی پیر فقیر یا مزار پہ بیٹی کی دعا مانگنے گئے ہوں؟ اگر کسی کے گھر نہ چاہتے ہوئے بھی دو یا تین بیٹیاں پیدا ہو جائیں تو اسے وہ حدیثِ مبارکہ یاد آ جاتی ہے کہ ’جس نے دو بیٹیوں کی پرورش، تربیت اور نکاح میری سنت کے مطابق کیا وہ جنت میں میرے ساتھ ایسے ہوگا، جیسے ہاتھ کی انگلیاں‘ انصاف کے تقاضے میں مذکور اس شرط کو تو ہم گول ہی کر دیتے ہیں کہ پرورش کرتے ہوئے بیٹوں اور بیٹیوں میں رتی بھر فرق نہیں ہونا چاہیے۔ آج یہ ساری باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ آج پھرامرتا پریتم کے بقول: ’اِک روئی سی دھی پنجاب دی‘ کا محل ہے۔ سڑک پر ہونے والی بلاد کاری کے کاری کے زخم تازہ ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پہلے د ن اس واقعے کی ایک دو کالمی معمولی سی خبر لگی تھی، پھر اس خبر کا نوٹس لے لیا گیا۔ میڈیا کو ایک ہفتے تک کے لیے چینلز کا پیٹ بھرنے کا راشن مل گیا۔ اپوزیشن کو تنقید کے ذریعے حکومت کی احتساب سے توجہ ہٹانے کی سبیل دکھائی دی۔ لوگ حرکت میں آ گئے۔ سرِ عام سزا کے مطالبات سر اٹھانے لگے۔ہر بندہ پولیس کو تفتیش کے نئے نئے طریقے سُجھانے میں جُت گیا۔ غرض یہ کہ بھان متی کے کنبے نے مل ملا کے سارا مدعا پولیس کی ناقص کارکردگی اور حکومت کی نا اہلی پر ڈال دیا۔ زیادتی کیس پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے درخواستیں دائر ہونے لگیں۔ وکیل تو وکیل، حکمران بھی مذمت میں بر سرِ پیکار ہو گئے۔ اور تو اور اپنے میاں نواز شریف کو بھی اس واقعے پہ انسانیت شرمندہ دکھائی دینے لگی۔ گویا ہر ایک موقع شناس نے میڈیا کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اور سوسائٹی کی گندی دیوار پہ بیان کی پچکاری مارنا اپنا فرضِ منصبی جانا۔ نہیں نظر آئیں تو ’میرا جسم میری مرضی‘ والی لبرل بیبیاں کہیں نظر نہیں آئیں۔ مجھے نہایت کرو فر اور خضوع و خشوع کے ساتھ بر وقت بلکہ ہر وقت بیانات جاری کرنے والے ان تمام طبقات و حضرات سے صرف ایک سوال پوچھنا ہے کہ ذرا حساب لگا کے بتایا جائے (کیلکولیٹر استعمال کرنے کی اجازت ہے) کہ پپو قتل کیس کے مجرموں کے بعد ہمارے ہاں کتنے مجرموں کو چوکوں چوراہوں میں لٹکایا گیا؟ اس کا اہتمام بھی ایک فوجی آمر کے زمانے میں ہوا۔پھر ذرا میری یا مجھ جیسوں کی تسلی کے لیے ہی سہی لیکن خدارا بتا دیا جائے کہ آج بی بی کے قاتل زندہ ہونے پہ کون کون شرمندہ ہے؟ مرتضیٰ بھٹو کے قاتل کس قبر میں دفن ہیں؟ شاہ زیب کے واقعے کو نمٹانے میں کس کا سلیقہ کار فرما تھا؟ مختاراں اور ملالہ پر کیا کیا بیتی؟ ماڈل ٹاؤن کی حاملہ خواتین کے پیٹوں میں مرنے والے بچوں کی آہیں کس کس نے سنیں تھیں؟ اسی سانحے میں نہتی خواتین کے منھ میں لگنے والی گولیاں ان کے معدوں میں دفن ہیں یا اندھے، بہرے، گونگے قانون کے قبرستان میں؟ کوئی بھیدی یہ بھی بتائے کہ تین سال قبل بیچ چوراہے کے کچلے جانے والے سب انسپکٹر کے اچکزئی قاتل کہیں قانون کو تو اُچک کے اور اس کی گچک بنا کے تو نہیں کھا گئے؟ کوئی یہ بھی خبر دے کہ سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں زندہ جل جانے والے تین سو کے لگ بھگ افراد کے قاتل کس جیل میں گل سڑ رہے ہیں؟ نواز شریف کی گاڑی کے نیچے کچلے جانے والے بچے کی قبر اور خبر بھی کسی کو ہے؟ یا ہم سب مارکیٹ میں تازہ آنے والی پراڈکٹ کا مزہ لے رہے ہیں؟ پھر آپ سب جانتے ہیں کہ ریپ صرف کسی نہتی عورت ہی کا نہیں ہوتا، آج ہمارا مسیحا میڈیکل رَیپ اور ادویہ ساز کمپنیوں کے ساتھ مل کے مریضوں کا سرِ عام ریپ کر رہا ہے۔ ایک استاد اپنی جہالت اور ہوس کے بل بوتے پر تعلیم اور طلبہ کا ریپ روا رکھے ہوئے ہے۔دکان دار ملاوٹ اور خود ساختہ مہنگائی کے ذریعے غریب عوام کے ریپ کو روا سمجھے ہوئے ہے۔ وکیل مجرم کی وکالت اورڈھیلی ڈھالی سزاؤں اور سال ہا سال سے لٹکے کیسز کی صورت قانون کے ریپ کے جرم میں مبتلا ہے۔دفتر کے بابو کو فائلوں اور سائلوں کے ریپ میں مزہ آتا ہے۔گویا ہمارے معاشرے میں ہر کوئی کسی نہ کسی طرح کے ریپ میں مبتلا ہے اور چاہتا یہ ہے کہ سزا صرف دوسروں کو ہو جائے اور وہ بھی سرِ عام ہو!! اٹھارویں صدی کی انگلش سوسائٹی میں لارڈ رابرٹ پیٹر، ایک خوبصورت لڑکی ایرا بَیلاکی دو سنہری چوٹیوں پہ عاشق ہو گیا ، لڑکی کے انکار پر اس نے اس کی دونوں چوٹیاں کٹوا دیں تو الیگزینڈر پوپ نے ’Rape of thr Lock‘ جیسی شاہکار نظم کی صورت اتنی بڑی Mock-epicلکھ ماری، جو آج بھی انگریزی ادب میں کلاسیکی طنزیے کی صورت زندہ ہے۔ ہمارے ہاں تو ایک عرصے سے ریپ آف دی لاء ہو رہا ہے، کوئی بتائے کہ اس کا نوحہ کون لکھے گا؟؟