ممتاز مورخ سٹیفن پی کوہن پاکستان آرمی کو تین جنریشنز میں تقسیم کرتے ہیں۔ نوزائیدہ مملکت کی فوج کا حصہ بننے والے افسران بنیادی طور پر برٹش انڈین آرمی کا ورثہ تھے، چنانچہ اسی بناء پروہ انہیں ’برٹش جنریشن‘ کہا گیا۔ ان افسروں کی اکثریت کا تعلق جاگیر دارانہ پس منظر رکھنے والے ، مغربی بود و باش کے حامل ،نسبتاََ سیکولر اور وفادار سمجھے جانے والے متمول گھرانوں سے ہوتا تھا۔ اس دور میں کہ جہاں پاکستان آرمی روایات تو برٹش انڈین آرمی کی لے کر چل رہی تھی ، اس کا مادی انحصار امریکہ پرمنتقل ہو رہاتھا۔ اس نسل کے پاکستانی فوجی افسراپنے مقامی جوانوں کے ساتھ انگریز افسروں کے سے مخصوص لہجے میں مخاطب ہوتے اورآرمی میسوں میں برطانوی طرز کی شامیں بسر کرتے۔ان میںسے اکثر جنگ عظیم دوئم کا تجربہ رکھتے تھے اورکشمیرکے محاذ پر بھی لڑ چکے تھے۔ بوجہ یہ افسران عمومی طور پرمحدود پیشہ ورانہ اہلیت اورکم تجربے کے باوجود تیزی سے ترقیاں پا رہے تھے۔ (یحییٰ خان محض پینتیس سال کی عمر میں میجر جنرل بن گئے تھے، جبکہ آج کل ایک فوجی افسر اس عمر میں ابھی لیفٹینٹ کرنل بننے کا منتظر ہوتا ہے)۔افسروں کی ترقیوں اوراہم تعیناتیوںپر کنٹرول اب بھی برٹش کمانڈروں کے ہاتھ میں ہی تھا۔ ایوب خان سپرسیڈ ہونے کے بعد مشرقی پاکستان تعینات کئے گئے توانہوں نے بالواسطہ برٹش کمانڈر ان چیف سے ’معاملات درست کئے جانے‘ کی درخواست کی۔ جواب ملا ’ ترقیاں اور تعیناتیاں اگر میرٹ پر ہوں گی تو پاکستان آرمی کے لئے بہتر ہوگا۔‘پہلے پاکستانی کمانڈر ان چیف کی تعیناتی کا معاملہ در پیش آیا تو برٹش کمانڈران چیف نے جنرل ایوب سے ایک سال جونئیر جنرل افتخار کو عہدے کے لئے نامزد کیا۔نامزدکمانڈر ان چیف مگر اپنے خاندان اور عہدے کے متبادل امیدوار جنرل شیر خان سمیت کراچی کے قریب فضائی حادثے میں جان بحق ہو گئے۔ حادثے کے بعد فوج کا نیا سربراہ منتخب کرنے کے لئے وزیرِ اعظم نے سینئر کمانڈرز کی ایک کانفرنس طلب کی، جہاں جنرل ایوب کی شخصیت اور ’پریزنٹیشن‘ انہیں بھا گئی۔جنرل ایوب کو پاکستان آرمی کا پہلا مقامی کمانڈر انچیف مقرر کر دیا گیا۔ایک فضائی حادثے نے پاکستان کی سیاسی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ ایک طرف جہاںلیاقت علی خان اپنے مختصر دورِ حکومت میں اپنے قدم جمانے میں کوشاں رہے تو دوسری طرف کشمیر کی جنگ کے دوران سیاسی قیادت سے براہِ راست تعلقات استوارکرنے میں کامیاب ہو جانے والے افسران کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔ جنرل میسروی نے برطانیہ روانگی سے قبل ان معاملات پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ،’سیاست دانوں کا فوجیوںکو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنااور فوجیوں کا خود کو استعمال کئے جانے دینا، مستقبل کیلئے بُری مثال ہے‘۔برطانوی جنرل کے خدشات یوں درست ثابت ہوئے کہ کچھ عرصے بعد انہی افسروں میں سے ایک جنرل اکبر’راولپنڈی سازش‘ کے سرغنہ بن کر سامنے آئے۔کہا جاتا ہے کہ وزیرِ اعظم کے خلاف کمیونسٹوں کو انہی نے ترغیب دی تھی۔(سال 1954 ء میں نا صرف یہ کہ انہیں رہا کر دیا گیابلکہ کئی برسوں بعد وزیرِ اعظم بھٹو کی جمہوری حکومت میں انہیں سلامتی معاملات کا مشیر مقرر کر دیا گیا)۔ جنوری 1951ء میں جنرل ایوب نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ۔پہلے’ آرڈرآف دی ڈے‘ میں فوج کو سیاست سے دور رہنے اور’ سیاسی نظریات کے کسی پراپیگنڈے‘ کا حصہ بننے سے باز رہنے کا حکم دیا گیا۔تاہم کچھ عرصے بعد وہی جنرل ایوب امریکی دورے کے دوران اپنے ہوٹل میں بیٹھے ’ون یونٹ‘ کے تصورسمیت ، بحیثیت کمانڈر ان چیف پاکستان کا سیاسی منظر نامہ قلم بند کر رہے تھے۔کہا جا سکتا ہے کہ جنرل ایوب پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں اپنا اور اپنے ادارے کا کلیدی کردارتجویز کررہے تھے۔عائشہ جلال کے مطابق اس باب میں انہیں سویلین بیوروکریسی کا بھر پور تعاون حاصل تھا، جو مستقبل میں ’ون یو نٹ‘ کی صورت میں اپنے ہاتھ مضبوط ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔خواجہ ناظم الدین وزیرِ اعظم بنے تو ان کی ایماء پر ایک بیوروکریٹ کو گورنر جنرل بنا دیا گیا۔ گورنر جنرل نے سیاست دانوں کی باہم کشمکش سے اکتا کر جلد ہی آرمی چیف کواقتدار سنبھالنے کی دعوت دے دی،جسے قبول کرنے سے معذرت کر لی گئی۔خدا خدا کر کے 1956ء کا آئین بنا تو ایک اور بیوروکریٹ نے صدارت کا عہدہ سنبھالا۔صدربنتے ہی اسکندر مرزانے جنرل ایوب کو اپنی کابینہ میں بطور وزیرِ دفاع شامل کر لیا کہ دونوں روزِ اول سے امریکہ نواز کیمپ کے روح رواں رہے تھے۔جنرل ایوب نے جلد ہی سکندر مرزا کو راستے سے ہٹا کر پہلا فوجی انقلاب برپا کر دیا۔ اعلیٰ عدلیہ نے لکھا، ’جب انقلاب کامیاب ہو جائے تو اسے قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے‘۔ مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ ہی جمہوری حقوق معطل کر دیئے گئے ۔سیاست دانوں کے احتساب کا آغاز ہوا۔امریکہ سے تعلقات مزید گہرے ہو گئے۔ امریکی امداد سے ڈیموںکی تعمیر سمیت صنعتوں کے قیام سے معاشی ترقی کا عمل بے حد تیز ہوگیا۔یہ وہی دور تھاکہ جب مشرقی بازو میں بوجہ احساسِ محرومی گہرا ہونے لگا۔دوسری طرف افواج کو جدید ہتھیاروں سے لیس کئے جانے کا عمل بھی جاری رہا ۔ ٹینکوں پر مشتمل نئی فارمیشنز کھڑی کی جا رہی تھیں ۔ نئی چھائونیاں آباد ہو رہی تھیں۔امریکی تعاون سے فوج کے تربیتی نظام کی بنیادیں رکھی جا رہیں تھیں۔ایلیٹ ایس ایس جی کا قیام بھی اسی دور میں عمل میں آیا۔ نتیجے میںپاکستان آرمی خطے میں ایک موثرعسکری قوت بن کر ابھرنے لگی۔تاہم یہی وہ دور بھی تھا کہ جب ادارے کے اندر ’کلچر آف انٹائٹلمنٹ ‘ کا آغاز ہوا۔فوجی افسروں کو سندھ اور جنوبی پنجاب میں زمینیں اور چھائونیوں میں سستے داموں پلاٹس الاٹ کئے جانے کے سلسلے کا آغاز ہوا۔جہاں اپنے کاروباری ادارے اور ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی تیزی سے نمو پانے لگے تو وہیں تین ستارہ افسروں کو ریٹائر منٹ کے بعد سٹیٹ انٹرپرائزز کی سربراہی سے نوازا جانا معمول کی مراعات کا حصہ بن گیا ۔ ’کلچر آف انٹائٹلمنٹ‘ پرمزید تفصیلات شجاع نواز کی کتاب ’ کراس سوورڈ‘ میں ’ایک ملک کو کیسے توڑا جا سکتاہے؟‘ کے عنوان سے لکھے باب میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ایوبی دور میںہی سٹیفن پی کوہن کی ’امریکی جنریشن بھی‘ وجود میں آچکی تھی۔برٹش اور امریکی جنریشنز پر مشتمل افواجِ پاکستان سال 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں اُتریں تو چند ماہ پہلے فوجی آمر کے مقابلے میں مادر ملت کی بے مثال حمایت اور فوجی حکمران سے بیزاری کا اظہارکرنے والے عوام نے جنگ کے دوران اپنی افواج سے والہانہ لگائو کامظاہرہ کیا۔ شاعروں نے گیت لکھے، مغنیوں نے انہیں سروں میں پرویا۔ ’اے پتُر ہٹاں تے نئیں وکدے‘، اسی زمانے میں لکھا گیا تھا۔ (جاری ہے)