بیشک 27ستمبر کو عمران خان کی گھن گرج نے عالمی سطح پر زبردست ارتعاش پیدا کر دیا تھا۔نیو یارک میں اقوام متحدہ کے دردودیوار پر لرزہ طاری ہو گیا تھا۔ ہمارا خیال یہ تھا کہ ایسا اثر انگیز اور درد انگیز خطاب سن کر عالمی کمیونٹی کا خوابیدہ ضمیر بیدار ہو جائے گا اور نہ صرف بیدار ہو گا بلکہ مظلوم و محصور کشمیریوں کی مدد کے لئے برسر پیکار بھی ہو جائے گا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایسا ہو بھی نہ سکتا تھا کیونکہ ہماری امید کا آشیانہ شاخ نازک پر بنا تھا۔ اپنے اپنے مفادات سے وابستہ سنگ بستہ ضمیروں سے خیر کی توقع لگانا خام خیالی نہ سہی مگر حقیقت پسندی بھی نہیں۔دیکھیے ڈاکٹر خورشید رضوی نے ایک خوبصورت غزل میں کیسا چھبتا ہوا سوال اٹھایا ہے: زباں پہ کچھ نہ سہی سن کے میرا حال تباہ ترے ضمیر میں ابھری کوئی دعا کہ نہیں تب سے اب تک عالمی ضمیر بھی خاموش ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ گھن گرج والے عمران خان بھی خاموش ہیں اس میں شک نہیں کہ بیانیے کا محاذ ہو یا جنگ کا محاذ پیش قدمی اور وقتی پسپائی حکمت عملی کے طور پر ساتھ ساتھ چلتی ہیں مگر یوں یکدم توپوں کے دہانے خاموش ہو جائیں اور نوبت آخری گولی سے کالی پٹی تک آ جائے تو ہر طرف تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ حالات پیچیدہ ہوں تو وہ غور و فکر کا تقاضا کرتے ہیں۔ وسیع تر صلاح مشورے سے ہی ایسا قابل عمل حل نکالا جاتا ہے۔ جو ساری قوم کی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے۔ جناب عمران خان اپنے دور حکومت میں ابھی تک ون مین شو سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ وہ جس طرح سے برطانوی پارلیمنٹ کی مثالیں دیتے تھے، جس طرح سے جمہوری کلچر کے گن گاتے تھے، جس طرح سے پارلیمنٹ میں ہفتہ وار سوال جواب کا سیشن کرنے کی نوید سنایا کرتے تھے اس سے تو یہ محسوس ہوتا تھا کہ ریاست مدینہ میں ارشاد باری تعالیٰ پر عمل ہو گا۔ وامر ھم شوریٰ بینھم۔وہ اپنے معاملات باہمی مشورے سے طے کرتے ہیں مگر افسوس ہوا اس کے برعکس جناب خان صاحب نے اپوزیشن کو راندہ درگاہ قرار دے دیا اور کسی سے مشورے کی کوئی ضرورت محسوس نہ کی۔ پرسوں کشمیر پر بھارتی قبضے کے 72سال مکمل ہونے پر پاکستان میں کراچی تاخیبر اور گلگت بلتستان اور سارے آزاد کشمیر میں 27اکتوبر کو یوم سیاہ منایا گیا۔14اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہوا۔ 27اکتوبر 1947ء کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے وہاں کی مسلم آبادی کی امنگوں کے برخلاف انڈیا کے ساتھ الحاق کر لیا اور اسی روز بھارت نے اپنی فوجیں سری نگر میں اتار دیں۔ اس لئے کشمیریوں نے اسے یوم سیاہ قرار دیا ہے اور ہر سال یہ یوم سیاہ منایا جاتا ہے۔ سارے یورپ بالخصوص انگلستان میں چھ لاکھ کشمیری آباد ہیں لندن‘ برسلز اور پیرس میں ہزاروں کشمیریوں اور پاکستانیوں نے 27اکتوبر کا یوم سیاہ نہایت پرجوش اور ولولہ انگیز طریقے سے منایا اور جمہوریت پسند انسانی حقوق کی چمپئن یورپی کمیونٹی کو کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی یاد دلائی۔ پاکستان میں مسئلہ کشمیر کی سب سے بڑی سٹیک ہولڈر جماعت اسلامی ہے۔ برسوں سے کشمیر کاز کے لئے جماعت ملک کے اندر اور ملک سے باہر بھر پور جدوجہد کرتی ہے اور ہر فورم پر آزادی کشمیر کے لئے آواز اٹھاتی ہے۔ میں نے جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر ڈاکٹر خالد محمود کو آج فون کیا تاکہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال معلوم کر سکوں۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ 27اکتوبر کو سارے آزاد کشمیر میں یہ یوم سیاہ منایا گیا اور مقبوضہ کشمیر کے محصور و مجبور کشمیریوں کے ساتھ زبردست اظہار یکجہتی کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ 27اکتوبر کو وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان دیگر کئی ارکان آزاد کشمیر پارلیمنٹ کے ساتھ اور ڈاکٹر خالد محمود بھی دیگر ارکان جماعت کے ساتھ وادی نیلم گئے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ کشمیر کی دل میں تڑپ رکھنے والے اکثر پاکستانیوں کی رائے یہ ہے کہ آزادی کشمیر کی علمبردار جماعت اسلامی بھی مصلحتاً خاموش ہے۔ پاکستانی و کشمیری قوم یہ ’’مصلحت‘‘جاننا چاہتی ہے۔ اس پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جماعت اسلامی پاکستان ہو یا آزاد کشمیر ہماری مصلحت اور ہمارا مدعا ایک ہے اور وہ آزادی کشمیر ہے۔ مصلحت صرف اتنی ہے کہ ہم عملی قدم اٹھانے سے پہلے حکومت پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کسی روڈ میپ کا واضح اعلان کرے تو زیادہ بہتر ہے۔ اگر حکومت پاکستان ایسا نہیں کرے گی تو ہم چند دن اور صبر کریں گے اور پھر اپنے روڈ میپ کا اعلان کر دیں گے۔ یہ بھی دل چسپ حقیقت ہے کہ صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان اور وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر اور دیگر تمام کشمیری سیاست دان جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔ مگر یہ بات باعث حیرت و تشویش ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نہ صرف پاکستانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بلکہ آزاد کشمیر کی حکومت اور وہاں کے عوام کے ساتھ بھی ایک پیج پر نہیں۔ جہاں تک آزاد کشمیر کے صدر وہاں کے وزیر اعظم اور ساری کشمیری قوم کا تعلق ہے ان کی کیفیت تو بقول شاعر یہ ہے کہ : نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لئے وہ تو عملی اقدام کے لئے بے قرار ہیں جبکہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان فرماتے ہیں کہ جہاد، فوج بھیجنے کی باتیں پاکستان اور کشمیر سے دشمنی ہے۔ کشمیریوں کو سلامتی کونسل سے حق خود ارادیت دلا کر رہیں گے۔کشمیریوں کا ترجمان اور وکیل بھی بنوں گا۔ جناب عمران خان آزاد کشمیر اور پاکستان کی پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاس بلاکر تمام سیاسی جماعتوں کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لیں بلکہ اس سے بھی زیادہ مستحسن بات یہ ہو گی کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کی گول میز کانفرنس بلائیں۔ ان اجلاسوں میں عمران خان اپنا روڈ میپ پیش کریں اور اس کی وضاحت کریں وہ بتائیں کہ 72برس سے سلامتی کونسل ٹس سے مس نہیں ہو رہی اور 72برس سے بھارت کشمیریوں کو نہ صرف حق خود ارادیت نہیںدے رہا بلکہ اس نے 9لاکھ کی فوج بھیج کر کشمیریوں کو ’’زندہ درگور‘‘کر دیا ہے اور سارے مقبوضہ کشمیر کو بدترین جیل بنا دیا ہے۔ ان حالات میں وہ سلامتی کونسل کو ایکشن لینے اور بھارت کو راہ راست پر لانے کاکھٹن کام کیسے انجام دیں گے۔ آزاد کشمیر سے تو یہ خبریں آرہی ہیں کہ بھارت نے ایل او سی لائن پر بھاری توپ خانہ لا بٹھایا ہے جس سے نہ صرف آزادی کشمیر کے متصل سرحدی علاقوں پر بلکہ چناسی جیسے ٹورسٹ پوائنٹ پر بھی گولہ باری کی گئی ہے۔ اب وہاں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ بھارت کسی لمحے مظفر آباد پر بھی حملہ کر سکتا ہے۔ ان حالات میں جناب عمران خان پاکستان جہاد کو یا کسی فوجی کارروائی کو خارج ازامکان قرار دیں گے تو یہ اقدام پاکستان کی انتہائی کمزوری ہی قرار دیا جائے گا۔ کہاں آخری گولی تک لڑنے کے دعوے اور کہاں ایٹمی قوت کی گھن گرج اور کہاں یہ دبکے اور سہمے ہوئے بیانات اور محض کالی پٹیاں باندھنے تک اکتفا۔کیا یہ سمجھے جائے کہ اب ہمارا بیانیہ آخری گولی نہیں کالی پٹی ہے۔