بیس سال پہلے امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا جب وہاں پر طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان کے ساتھ جنگ کرنے کا بظاہر مقصد یہ تھا کہ طالبان نے نیویارک میں دہشت گردوں کے حملوں کے ماسٹر مائینڈ اور القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان بیس سال جاری رہنے والی جنگ15اگست کو کابل پر طالبان کے قبضہ اور31 اگست کوامریکہ کے افغانستان سے انخلا کی تکمیل کے بعد باقاعدہ طور پر ختم ہو گئی ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین یہ جنگ اس وقت اختتام پزیر ہو گئی تھی جب امریکہ نے فروری 2020میں اسلامی امارات افغانستان (طالبان) کے ساتھ دوحہ میں جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا۔ امریکہ کو افغانستان میں شکست کیوں ہوئی؟ اس کی کیا وجوہات تھیں؟ کیا اس قسم کی شکست سے بچاؤ ممکن تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر آنے والے برسوںمیں بین الاقوامی تعلقات اور جنگی حکمتِ عملی کے امریکی اور عالمی ماہرین غور و خوض کرتے اور اپنے اپنے انداز سے اِس کی تشریحات پیش کرتے رہیں گے۔ اِن سطور میں بھی اِن سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائیگی۔ اکتوبر 2001 میں شروع ہونے والی اِس جنگ کے چند برس بعد ہی اِتحادی افواج کے کمانڈروں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کے لیے یہ جنگ جیتنا مشکل ہے۔ کرسٹینا لیمب کے بقول جو سنڈے ٹائمز کی چیف رپورٹر ہیں، 2008 میں ہلمند صوبے کے فائر بیس پر برطانوی فوج کے کمانڈر بریگیڈئر مارک کارلیٹن سمتھ نے اس کو دیئے گئے ایک اِنٹر ویؤ میں بتایا تھا کہ افغانستان کی جنگ عسکری طور پر نہیں جیتی جا سکتی ، وہ پہلے سینئر اتحادی فوجی افسر تھے جنہوں نے عوامی سطح پر ایسا کہا اور اس کہانی کو برطانوی سنڈے ٹائمز نے صفحہ اول کی شہ سرخی بنا دیا۔ اس وقت کے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے فوری طور پر نیوز میڈیا میں کارلٹن سمتھ کو "شکست خوردہ" قرار دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن تیرہ سال بعد ، برطانوی بریگیڈیئر کے اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ اپریل میں ، بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکہ نائن الیون کی 20 ویں سالگرہ تک اپنی تمام بقیہ افواج کو افغانستان سے نکال لے گا ، جسے انہوں نے "ہمیشہ کے لیے جنگ" کہا تھا۔ لیکن اب ، اس طرح کا انخلا صرف ایک ایسا نتیجہ تھا جس کی پہلے سے ہی پیشین گوئی کی جا چکی تھی کیونکہ طالبان ضدی دشمن ثابت ہوئے تھے جو کہیں نہیں جا رہے تھے جبکہ ملک کے نصف علاقے پر بھی طالبان نے قابو پا لیا تھا۔ جس جنگ کو عراق کی جنگ سے ممتاز کرنے کے لیے ایک وقت میں "اچھی جنگ" کے نام سے جنا جاتا تھا وہ اتنی غلط کیسے ہو گئی؟ TheAmerican War in Afghanistan: A Historyایک نئی کتاب کا موضوع ہے ، جو اِس طویل ترین جنگ پر امریکہ کا پہلا جامع نکتہ نظر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ کتاب کے مصنف ، کارٹر ملاکسیان ، ایک مورخ ہیں جنہوں نے پہلے صوبے ہلمند میں سویلین عہدیدار کی حیثیت سے اور پھر افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈر کے سینئر مشیر کی حیثیت سے کافی وقت گزارا ہے۔ کارٹر ملاکسیان اِس بات پر غور کرتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ 2011 میں 140000 فوجیوں اور دنیا کے جدید ترین آلات کے ساتھ ، امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی، طالبان کو شکست دینے میں ناکام رہے۔ مزید یہ کہ 2 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت اور 500 3سے زیادہ اتحادی جانوں کے ضیاع اور بہت سے فوجیوں کے بری طرح زخمی ہونے کے باوجود مغربی طاقتوں نے کیوں افغانستان میں اِس جنگ کو جاری رکھا جبکہ برطانوی بریگیڈیئر اور دیگر کو طویل عرصے سے معلوم تھا کہ یہ ایک ناقابل فتح جنگ تھی۔ ملاکسیان کے بقول امریکہ نے 2001 اور 2006 کے درمیان وہ غلطیاں کیں جو ناکامی کا سبب بنیں۔ جن غلطیوں کی فہرست وہ بتاتا ہے ان سے اب تک ہر کوئی واقف ہے۔ اس کے بقول وزیر دفاع ڈونلڈ رمز فیلڈ افغان فوج میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتے تھے اور 2003 کے آخر تک صرف 6000 افغان فوجیوں کو تربیت دی گئی۔ وار لارڈز ، جنہیں بیشتر افغان ملک میں تشدد کی وجہ گردانتے تھے ، پہلے صرف آزادانہ گھومتے تھے جبکہ بعد میں افغان حکومت میں وزراء اور پارلیمنٹ کے ممبر بن گئے۔اسی طرح اس وقت ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان کے مسئلے کے ایک سیاسی تصفیے کے لیے طالبان کو مذاکرات کی میز سے دور کر دیا ، امریکہ اس بات کا ادراک کرنے میں ناکام رہا کہ طالبان بہر حال ایک نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں جو پشتونوں کی اکثریت میں قابلِ قبول اور مشترکہ نقطہ نظرہے۔ ملاکسیان تجویز کرتے ہیں کہ امریکہ کو اپنا فائدہ پسِ پشت ڈالنا چاہیے تھا اور ایک ایسے وقت میں جب افغان حکومت کو عوامی حمایت حاصل تھی ۔طالبان دباؤ کا شکار تھے ، امریکہ نے ملیشیا کو بااختیار بنایا اور دہشت گردی کے خلاف حد سے زیادہ جارحانہ کارروائیاں کیں جس نے عام افغانوں کو اس سارے نظام سے لا تعلق کر دیا اور طالبان نے اس عنصر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بار پھر اپنے آپ کو منظم کرنا شروع کردیا۔ امریکی اور مغربی ماہرین کی اکثریت امریکہ کے خلاف جنگ میں طالبان کی فتح کو صرف مذہبی رنگ اور تشدد کے زاویے سے دیکھتی ہے جبکہ وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ طالبان کی مسلسل مزاحمت اور اتحادی افواج کے مقابلے میں ان کی فتح دراصل بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ان کی جیت ہے اور اسی نظرئیے کو عام افغان خصوصی طور پر دیہی علاقوں کے عوام میں پزیرائی ملی جس کی بنیاد پر طالبان بیس سال کی طویل جنگ لڑنے کے قابل ہوئے۔ اگرچہ انہیں بیرونی عناصر کی مدد حاصل تھی مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جنگیں عوامی سپورٹ کے بغیر جیتنا قطعاّ ممکن نہیں۔