آجکل وومن امپاورمنٹ کا ڈھول خوب پیٹا جا رہا ہے. جسے دیکھو اسکا یہی کہنا ہے کہ عورت کو با اختیار ہونا چاہیے مگر کیا حقیقت میں ایسا کچھ ممکن ہے؟ تو جناب اس سوچ میں بہتری کے چانسز ضرور موجود ہیں مگر پوری طرح بدلاو ممکن نہیں. کیونکہ ایسی باتیں کرتے ہوئے ہم اپنے دیگر مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو کہ جنسی امتیازیت کی بڑی وجہ بنتے ہیں. جیسا کہ ہمارے اسکی سب سے بڑی وجہ آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم ہے اور بدقسمتی سے ملکی آبادی کا بیشتر حصہ متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہے. ان طبقات میں بٹا انسان بڑا لالچی ہوتا ہے وہ بیٹی کو برابر کا حق نہیں دے سکتا کیونکہ بیٹے کے ساتھ اسکا اپنا مستقبل جڑا ہوتا ہے اور بیٹی کے ساتھ کسی دوسرے گھر کا. لہذا اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لیے بیٹے پہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے.ہر کوئی اسکو اچھی تعلیم دلوانا چاہتا ہے. کھانا اچھے سے اچھا کھلانا چاہتا تاکہ اسکے کندھے اتنے مضبوط ہو سکیں کہ بوڑھے ماں باپ کا بوجھ آسانی سے اٹھایا جا سکے. ان حالات میں عورت کا کام صرف اور صرف مقصد کی تکمیل کے لیے خاندان کے وارث پہ توجہ دینا ہوتا ہے. ایک بیٹے کی اچھی ڈگری کے لیے چار بہنیں میٹرک سے آگے نہیں پڑھ پاتیں. بیٹے کی پلیٹ میں بوٹیاں بھرنے کے لیے اکثر بیٹیوں کو صرف شوربے پہ ٹرخایا جاتا ہے. جہاں تعلیم خوراک اور صحت میں اتنی امتازیت ہو وہاں برابر کے حقوق کا ناگارہ کون سنے گا؟ برابری کے حق کی بات کرنا غلط نہیں مگر جب تک وجہ ختم نہیں ہوتی تب تک اس بات میں اثر نہیں ہو گا. ایسے مواقعے پیدا کرنا ہونگے جن سے مختلف آمدنی والے گروپس میں فرق کو کم کیا جا سکے. اس فرق کی کمی سے تعلیم اور صحت کی غیر منصفانہ تقسیم بھی کم ہونے لگے گی, جانکاری بڑھنے پہ عورت کو برابری کا حق بھی ملنے لگے گا اور وہ اپنے فیصلوں میں آذاد ہونے لگے گی.(مصباح چوہدری)