ریاستِ مدینہ کو "Idealized"کرتے ہوئے ،موجودہ حکومت ،وطنِ عزیزپاکستان کو ایک ایسی فلاحی مملکت میں ڈھالنے کے خواب دیکھ رہی ہے ،جس کی روشنیوں اور تابندگیوں نے ،صرف اسلامی ہی نہیں… انسانی تاریخ کو بھی منور کر رکھاہے ۔ حُسنِ اتفاق کہ یہ سطور امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کے معروف شہر ’’سان فرانسسکو‘‘، جس کے گولڈن گیٹ بریج اور بحر الکاہل کے مظاہر ،عجائباتِ عالم کا حصہ ہیں ،کی دن بھر سیاحت کے بعد Sacramentoکے قریب ،"Yuba city" میں رات کے پچھلے پہر لکھ رہا ہوں ،جہاں دو دن پہلے پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہاں ایک ’’ مِنی جڑانوالہ‘‘بھی ہے ، جس کے سربراہ چوہدری عبدالحمید، جو امریکہ کی جدید ترتمدنی زندگی میں بھی اپنی نسلِ نو اور خاندان کو نبی ٔرحمت ﷺ کے دامنِ کرم سے وابستہ رکھنے کے لیے ہر لمحہ اور ہر لحظہ کوشاں اور ہمہ وقت فکر مند اور متوجہ رہتے ہیں ،جس میں اللہ نے ان کو خاطرخواہ کامیابی سے بھی سرفراز فرمایا ہے ۔یہاں کی یخ بستہ ہوائوں میں حضرت اقبال ؒ کا یہ مصرع جہاں پورے مفہوم کے ساتھ نمایاں ہوتا ہے ’’زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی ‘‘وہیں ان کا فکر وفلسفہ ،بطورِ خاص دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت سے واپسی پر ان کے افکار اور فلاحی مملکت کی تشکیل کے حوالے سے ان کے خیالات کی بھی سمجھ آتی ہے۔دوسری گول میز کانفرنس (17ستمبر1931ء ) میں شرکت کے بعد وطن واپسی کے سفر میں علامہ محمداقبالؒ اٹلی رُکے اور ان کی مسولینی سے ملاقات ہوئی ۔ مسولینی نے علامہ محمد اقبالؒ سے پوچھا کہ میری ’’فاشسٹ تحریک‘‘کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟ علامہ صاحبؒ نے جواب دیا کہ : ’’آپ نے ڈسپلن کے اس اُصول کا بڑا حصہ اپنا لیا ہے ، جسے اسلام ، انسانی نظامِ حیات کے لیے بہت ضروری سمجھتا ہے ، اگر آپ اسلام کا نظریۂ حیات پوری طرح اپنا لیں تو سارا یورپ آپ کے تابع ہوگا‘‘ مسولینی نے ڈاکٹر صاحب سے کوئی اچھوتا مشورہ طلب کیا تو آپؒ نے فرمایا ـ: ـ’’ہر شہر کی آبادی مقرر کرکے اسے حد سے نہ بڑھنے دیں ۔ اس سے زیادہ بسنے والوں کو نئی بستیاں مہیا کی جائیں‘‘۔مسولینی نے حیران ہو کر پوچھا :اس میں کیا مصلحت ہے ؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی جاتی ہے ، اس کی تہذیبی واقتصادی توانائی کم ہوتی جاتی ہے اور ثقافتی توانائی کی جگہ ’’محرکاتِ شر‘‘لے لیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا :یہ میر اذاتی نظریہ نہیں بلکہ میرے پیغمبرﷺ نے آج سے تیرہ سو سال قبل یہ ہدایت فرمائی تھی کہ جب مدینہ منورہ کی آبادی ایک حد سے تجاوز کرجائے ،تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت دینے کی بجائے ، دوسرا شہر آباد کیا جائے۔یہ حدیث سنتے ہی مسولینی کھڑا ہوگیا اور دونوں ہاتھ میز پر زور سے مار کر کہا :’’کتنا اَچھوتا خیال ہے !‘‘ نبی اکر م ﷺنے مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی پوری آبادی کو دس دس اور سو سو کنبوں کی ٹکڑیوں میں بانٹا ۔ ہر دس گھروں یا کنبوں کا انچارج ایک ’’عریف‘‘او رپھر دس عریفوں کا انچارج ایک’’نقیب‘‘ ہوتا تھا ۔ بخاری شریف کی متعدد روایات میں مختلف صحابہ کرامؓ کے اسماء کے ساتھ نقیب یا کَانَ اَحَدًا نُقَبَاء کی عبارت درج ہے ،مگر ہم نے کبھی آپ ﷺکے قائم کردہ ان Socio Political Institutions اور ان سے متعلق احادیث کی جانب توجہ نہیں کی۔’’ عرافہ‘‘ اور’’ نقابہ‘‘ کی بدولت حکومت عامۃ الناس اوران کے مسائل سے آگاہ ہوتی تھی ۔ہر نقیب اپنے د س عریفوں اور ان کے مسائل سے حکومت کو آگاہ کرنے اوران مسائل کو حل کرنے کا پابند تھا۔ یہ بات بھی ایک عریف کے فرائض میں شامل تھی کہ وہ اپنے تحت دس کنبوں کے افراد کی اخلاقی معاملات میں راہنمائی کرے اور انہیں حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی ہدایات اور قوانین سے آگاہ رکھے اورحکومت کو اپنے زیر نگین لوگوں کی ضروریات اور معاملات سے مطلع کرے ۔ سرکاری محکمہ جات میں انہی عریفوں کی لوگوں کے بارے میں تصدیق کو کافی جانا جاتا ،ایک ’’نقیب‘‘ایسے دس عریفوں کا انچارج ہوتا یا کبھی کبھارکسی ایک بڑے قبیلے کا انچارج ایک نقیب کو بنا دیا جاتا ، جہاں اس کا کام ان عریفوں کے برابر ہوتا۔ سیرت کی کتابوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپﷺ نے بعض صحابہ ؓ ، جیسے حضرت سعد بن زرارہ ؓ کو’’نقیب النقباء ‘‘مقرر فرمایا جو ’’نقبائ‘‘کی براہِ راست مانیٹرنگ پر مامور تھے ۔ آپﷺنے مدنی زندگی میں لوگوں کو معاشرتی تحفظات کی ضمانت مہیا کی کیونکہ سوشل سیکیورٹی کی بہم رسانی ہی جرائم کا اصل سدِّ باب ہے ۔مدینہ میں تشریف فرما ہونے کے فوراً بعد میثاق مدینہ کے دستخط کنندہ قبائل کو سو سو اونٹ بیت المال میں جمع کرانے کے لیے کہا گیا تاکہ اگر کسی پر ناگہانی اُفتاد آجائے توبیت المال سے اس شخص یا قبیلے کی مدد کی جاسکے۔ مدینہ کی خود مختار ریاست کے دستور میں : ’’للمسلمین دینہم وللیہود دینہم ‘‘ ( یعنی مسلمان اپنے دین اور یہود اپنے دین پر رہ کر مذہبی آزادی کے حامل ہوں گے) جیسی اہم شق شامل کی گئی ۔ مدینہ منورہ کے بالکل وسط میں مرکزی مارکیٹ قائم کی گئی جسے ’’سوقِ مدینہ‘‘کا نام دیا گیا۔ آج کی تہذیب یافتہ دنیا کہتی ہے کہ جس شہر کے درمیان مارکیٹ نہ ہو وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا :ـ’’یہ تمہاری مارکیٹ ہے ، اس میں ٹیکس نہ لگائو‘‘۔ آج دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مارکیٹ کو ٹیکس فری ہونا چاہئے ۔ دنیا بھر میں ڈیوٹی فری مارکیٹ کا رجحان فروغ پا رہا ہے۔ آپﷺ نے ذخیرہ اندوزی سے منع کیا۔ آج دنیا اس حکم پر عمل کرتی تو خوراک کا عالمی بحران کبھی پیدا نہ ہوتا۔ آپ ﷺنے فرمایا :سود اور سَٹے سے نفع نہیں ، نقصان ہوتا ہے ۔آج عالمی مالیاتی بحران نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی ۔ صحابہ کرامؓ کومنع کیا کہ درختوں کو نہ کاٹو، کوئی علاقہ فتح ہو تو بھی درختوں کو آگ نہ لگائو۔ آج ماحولیاتی آلودگی دنیا کا دوسر ا بڑا مسئلہ ہے ۔ عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور گلیشئرز پگھل رہے ہیں ۔یہ سب کچھ درختوں اور جنگلات کی کمی کی وجہ سے ہورہا ہے ۔ ایک شخص نے مدینہ کے بازار میں بھٹی لگائی ۔ حضرت عمر ؓ نے اس سے کہا ـ: ’’تم بازار کو بند کرنا چاہتے ہو؟ شہر سے باہر چلے جائو۔ ‘‘ آج دنیا بھر میں انڈسٹریل ایریا شہروں سے باہر قائم کیے جارہے ہیں تاکہ شہروں میں آلودگی نہ پھیلے۔ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے باہر ’’محی النقیع‘‘نامی سیر گاہ بنوائی۔ وہاں پیڑ پودے اس قدر لگوائے کہ وہ تفریح گاہ بن گئی ۔ گاہے گاہے رسول اللہ ﷺ خود بھی وہاں آرام کے لیے تشریف لے جاتے ۔ آج صدیوں بعد ترقی یافتہ شہروں میں پارک قائم کیے جارہے ہیں ۔یہ ہے نبی اکرم ،رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لیڈر شپ کے مناظر اور مظاہر !۔۔۔ جس سے دنیا قیامت تک فیضیاب ہوتی رہے گی ۔