معزز قارئین!۔ بعد از خرابی بسیار‘‘۔ وزیراعظم عمران خان اور اُن کی ہائی کمانؔ کے ارکان پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کو "Chairman Public Accounts Committi" نامزد / منتخب کرانے پر راضی ہوگئے ہیں ۔ اِس پر بھلا "Public" (عوام/ جمہور) کیا کرسکتے ہیں؟۔ جب قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی اکثر سیاسی/ مذہبی جماعتوں کے ارکان ماضی کی تمام تلخیاں بھلا کر (کرپشن کے کئی مقدمات میں ملوث ) شہباز شریف صاحب کو "P.A.C" کا چیئرمین بنانے کے لئے بضد تھیں تو ’’ نیا پاکستان‘‘ اور ’’ ریاستِؔ پاکستان کو ریاستؔ مدینہ بنانے کے علمبردار اور اُن کے حاشیہ بردار کیا کرتے؟۔ میاں شہباز شریف کو چیئرمین "P.A.C" بنانے کا اعلان کرتے ہُوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’’ وزیراعظم عمران خان نے فراخدلی ؔکا مظاہرہ کرتے ہُوئے اپوزیشن کا یہ مطالبہ تسلیم کرلِیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کو چیئرمین ’’ پی ۔ اے ۔سی ‘‘ بنا دِیا جائے ۔ ہمیں اِس معاملے میں ضدؔ اور اَناء کا مسئلہ بنانے کے بجائے آگے بڑھنا چاہیے‘‘۔ وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب نے کہا کہ ’’ ہمیں افہام ؔو تفہیم سے چلنا چاہیے‘‘۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) کے سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے کہا کہ ’’ ہمیں ( یعنی۔ حکومت اور اپوزیشن کو ) ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا‘‘۔ مسلم لیگ (ن) کے سابق سپیکر سردار ایاز صادق نے ( میاں شہباز شریف کو چیئرمین اے ۔ پی۔ سی بنانے پر ) وزیراعظم عمران کے مثبت "Good U-Turn" تعبیر کِیا۔امیر ’’جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ ( فضل اُلرحمن گروپ) کے صاحبزادے اسد محمود صاحب نے پی۔ اے ۔سی کی چیئرمین شِپ کا معاملہ حل کرانے پر سپیکر اسد قیصر صاحب کا شکریہ ادا کِیا۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ ’’ اگر حکومت ایک قدم بڑھے گی تو ہم ( یعنی متحدہ اپوزیشن کے ارکان ) دو قدم آگے بڑھیں گے ، تاہم اُنہوں نے کہا کہ ’’ مجھ پر "Corruption" (یعنی۔ رشوت ستانی دھوکا دہی، اخلاقی بگاڑ/ غلط طریقوں سے کام کرنے ) کا الزام ثابت ہوگیا تو مَیں سیاست چھوڑ دوں گا‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں حیران ہُوں کہ ’’ میاں شہباز شریف نے (خُود پر )کرپشن کا الزام ثابت ہونے پر خُود ہی اپنی سزا فیصلہ سُنا دِیا ہے ۔ یہ فیصلہ تو نیب ؔعدالت ، ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کو کرنا ہوگا ؟۔ اگر ملزم ؔشہباز شریف کے اِس مؤقف کو تسلیم کرلِیا جائے تو کل کلاں کرپشن کے مقدمات میں ملوث ہر سیاستدان یہی کہے گا کہ ’’ اگر مجھ پر کرپشن کا الزام ثابت ہو جائے تو مَیں سیاست چھوڑ دوں گا اور پھر اندرون یا بیرون ملک آزادانہ زندگی بسر کروں گا ‘‘۔ معزز قارئین!۔ حکومت اور اپوزیشن میں مفاہمتؔ ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے (یعنی نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف اور ملزم میاں شہباز شریف) کے دَور کے "Audit Paras" کا جائزہ لینے کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے رُکن قومی اسمبلی کی سربراہی میں "Special Subcommittee" قائم کی جائے گی‘‘۔ اِس طرح کا معاہدہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں (2 سابق حریفوں ) سابق وزرائے اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں 14 مئی 2006ء کو لندن میں جب ’’ میثاق جمہوریت‘‘ ( Charter of Democracy) ہوا تو اُسے "Give and Take" یا ’’ مُک مُکا‘‘ کہا گیا تھا۔ صدر جنرل پرویز مشرف سے ’’N.R.O‘‘ (National Reconciliation Ordinance) کے بعد پاکستان واپس آ کر محترمہ بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007ء کو قتل نہ کردِیا جاتا تو ’’مخصوص طاقتوں ‘‘کی سفارش سے وہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہوسکتی تھیں لیکن نہ جانے کِس ’’ طاقت‘‘ نے ’’ نان گریجویٹ‘‘ آصف علی زرداری کے دائیں ہاتھ پر صدارت کی لکیر کھینچ دِی۔ اُنہوں نے پانچ سال تک صدارت کے جُھولے جُھولے اور اُس کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے دورِ حکومت میں جنابِ زرداری کی پارٹی "Friendly Opposition" تھی ۔ پھر حالات بدل گئے۔ 12 مارچ 2018ء کو آصف زرداری صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) اور جناب عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف میں ’’مفاہمت ہُوئی یا افہام و تفہیم ‘‘ لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ ’’ اپنے روایتی سیاسی پس منظر کے بغیر بلوچستان کے ضلع ’’ چاغی‘‘ کے 40 سالہ محمد صادق سنجرانی چیئرمین سینٹ منتخب ہوگئے۔ اِس پر 24 مارچ کو (پنجاب کے ) ننکانہ شہر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ ’’ محمد صادق سنجرانی کی عوام میں کوئی عزت نہیں ہے ، اُنہیں سینٹ کا چیئرمین منتخب کرانے کے لئے ووٹ خریدے گئے ہیں ، اِس لئے ضروری ہے کہ اُن کی جگہ متفقہ طور پر سینٹ کا چیئرمین منتخب کِیا جائے‘‘۔ معزز قارئین! ۔اِس سے قبل 28 جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز اُلاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچوں جج صاحبان نے متفقہ طور پر وزیراعظم نواز شریف کو آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت نااہل قرار دِیا تو، 30 جولائی کے میرے کالم کا عنوان تھا ’’ سلام !۔’’ عدالتی انقلاب‘‘ تو شروع ہوگیا؟‘‘۔مَیں نے لکھا کہ ’’ریاست پاکستان کے چار ’’Pillers ‘‘(ستون) ہیں۔ ’’Legislature‘‘ (پارلیمنٹ) ’’Executive‘‘ (حکومت) اور ’’Judiciary‘‘ ( جج صاحبان) اور ’’Media‘‘ ( اخبارات اور نشریاتی ادارے) ہیں لیکن میرے پیارے پاکستان میں عرصۂ دراز سے صرف ’’ Judiciary‘‘ اور ’’Media‘‘ ہی ریاست پاکستان کے خیر خواہ ستون ہیں۔ اگر کوئی ’’Legislature‘‘ اور ’’Executive‘‘ عوام کی بھلائی پر توجہ دیتی تو آج پاکستان میں 60 فی صد لوگ غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کیوں کر رہے ہوتے؟۔ سوال یہ ہے کہ اگر ریاستِ پاکستان کے آئین کی رُوح سے کرپشن کے مختلف مقدمات میں ملوث صدرِ پاکستان کو ’’عدالتوں میں پیش ہونے سے استثنیٰ مل سکتا ہے تو مختلف قسم کے مقدمات میں ملوث قومی اسمبلی میں "Anti Public" سیاستدان کو "Chairman Public Accounts Committee" کو بھی استثنیٰ مل سکتا ہے؟ ۔ رحمتہ اُللعالمین ؐ اور خُلفائے راشدین ؓ کی ریاست ؔمدینہ میں تواِس طرح کا راج نہیں تھا ؟۔ یہ آل انڈیا مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کے قائدین اور کارکنوں کی بدقسمتی ہے کہ ’’ مسلم لیگ (ن ) کے صدر کی حیثیت سے قائداعظم کی کُرسی پر بیٹھنے والے میاں شہباز شریف نے 4 ستمبر 2018ء کے صدارتی انتخاب میں تحریک پاکستان کی مخالف ’’ کانگریسی مولویت ‘‘ کی باقیات امیر جمعیت عُلماء اسلام (فضل اُلرحمن گروپ ) کو صدارتی امیدوار نامزد کِیا لیکن اُنہیں شکست فاش ہوگئی ۔ کیا نئے حالات کے مطابق یہ ممکن ہے کہ شاہد خاقان عباسی کی خواہش کے مطابق چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی جگہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) اُن کی جگہ فضل اُلرحمن صاحب کو چیئرمین سینٹ منتخب کرادیں ؟۔ بہرحال ’’ریاست مدینہ جدید ‘‘ میں … ’’تن ہمہ داغدار شُد ، پمبہ کُجا کُجا نہم ‘‘ میاں شہباز شریف کو چیئرمین ’’ پی۔ اے ۔ سی‘‘ تو منتخب کرا لیا گیا توکیوں نہ مفاہمت ، افہام و تفہیم اور خیر سگالی کے لئے فضل اُلرحمن صاحب کو چیئرمین سینٹ منتخب کرا لِیا جائے کہ ’’ جب بھی صدرِ مملکت جناب عارف اُلرحمن علوی ملک سے باہر جائیں تو فضل اُلرحمن صاحب قائم مقام صدر پاکستان کی حیثیت سے قائداعظمؒ کے پاکستان میں اپنے والدِ مرحوم مفتی محمود احمد کے اِس اقبالی بیان کی نفی کرسکیں کہ ’’ خُدا کا شُکرہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے؟‘‘۔ شاہد خاقان عباسی صاحب کو تو 14 اکتوبر 2017ء کو مفتی محمود صاحب کی 37 ویں برسی کے موقع پر وزیراعظم ہائوس کی ایک دیوار میں نصب ’’ یادگار لوح مفتی محمود‘‘ کی نقاب کُشائی کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ پھر ’’ ریاست مدینہ جدید‘‘ میں میاں شہباز شریف کو کوئی اعزاز کیوں نہ بخشا جائے؟ ۔حکومتی اور حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں میں ’’ مُک مُکا‘‘ کے بارے میں ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کہتے ہیں کہ … قائم ودائم رہے کُوئے نیاز مُک مُکا کرنا ہوگا انتخابِ شاہ زادِ مُک مُکا ہر سیاسی راہنما ، ہر رنگ بازِ مُک مُکا کیجئے، آئین میں شامل ، کلازِؔ مُک مُکا