مسلم لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی جانب سے ریاست مخالف بیانات پر وزیر اعظم عمران خان نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کے پیچھے بھارت کھڑا ہے‘ فوج نہ ہوتی تو خدانخواستہ ملک کے تین ٹکڑے ہو جاتے۔ ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ لیگی قائد متحدہ قومی موومنٹ کے بانی جیسا خطرناک کھیل رچا رہے ہیں‘ نواز شریف کو فوج سے کوئی مسئلہ ہے تو بتائیں۔سیاست اختیار کے حصول کی جدوجہد ہے جو آئینی دائرے میں رہ کر کی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ کام ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ بالغ نظر سیاستدان ناصرف اپنے کردار پر داغ نہیں لگنے دیتا بلکہ وہ اس امر کو بھی یقینی بناتا ہے کہ اس کی گفتگو، طرزعمل اور حلقہ احباب سے ریاست کے لیے کوئی نامناسب بات نہ ہو۔ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اہم ہے۔ ہمارے اردگرد دنیا کی بڑی طاقتیں موجود ہیں۔ ان طاقتوں کے اپنے مفادات ہیں۔ خطے میں اپنی موجودگی رکھنے کے لیے یہ سب طاقتیں پاکستان کو عدم استحکام کا شکار رکھنا چاہتی ہیں۔ سیاستدان ان حقائق سے آگاہ ہیں اور وہ باہمی اختلافات کو یا اچھے سیاسی مفادات کو کبھی اس سطح پر نہیں لاتے جہاں ریاست کے لیے خطرات پیدا ہوں۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد جو جمہوریت بحال ہوئی اس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو قائدانہ کردار ملا۔ ریاست پاکستان کو بھارت‘ کشمیر افغانستان اور ایٹمی پروگرام کے حوالے سے عالمی چیلنجز لاحق تھے۔ داخلی سطح پر غربت کا خاتمہ‘ معاشی بحالی‘ سیاسی استحکام اور جمہورت کو پائیدار بنانا حکومتوں کے اہداف تھے۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ جو بعد میں ن لیگ بنی سیاسی مفاہمت کی بجائے ٹکرائو کی پالیسی کو اختیار کئے رہیں۔آصف علی زرداری بے نظیر بھٹو کے شوہر اور ان کی کمزوری تھے۔ ن لیگ نے ان پر کرپشن‘ منشیات اور کئی طرح کے سیاسی مقدمات بنائے۔ اس سلسلے میں چودھری شجاعت کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ نواز شریف نے آصف زرداری پر مقدمات بنانے کا کہا۔ دوسری طرف سابق کرکٹر عمران خان نے سیاست میں آنے کا اعلان کیا۔ ابتدا میں ن لیگ نے انہیں 1997ء کے انتخابات میں اپنا اتحادی بننے کی پیشکش کی۔ عمران خان کے انکار پر ن لیگی میڈیا سیل نے سیتا وائٹ سکینڈل کو اچھالا۔نواز شریف نے پنجاب میں ہر اس سیاستدان کا راستہ روکا جو ان کے متبادل ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا شاہ محمود قریشی جیسے لوگ ان کے امتیازی سلوک کی بنا پرپارٹی چھوڑ گئے۔مسلم لیگ ن اپنی جمہوری ذمہ داری کو ریاستی مفادات کے تابع رکھنے میں ہمیشہ ناکام رہی۔ شریف خاندان اقتدار میں کس طرح آیا اور کس کی سرپرستی سے انہیں ہر بار معافی‘این آر او یا عبوری ریلیف ملا یہ کوئی ڈھکا چھپا معاملہ نہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کے بھائی کا سارا خاندان منی لانڈرنگ، آمدن سے زاید اثاثے رکھنے اور کئی طرح کے مالیاتی جرائم میں ملوث ہے۔ جب بھی ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا وہ شعلہ بیان جمہوریت پسند بن گئے۔ نواز شریف کی درخواست پر علاج کی سہولت دینے والی معزز عدالت اب انہیں واضح طور پر مفرور قرار دے رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف سمیت متعدد اپوزیشن رہنما حکومت سے این آر او طلب کر رہے ہیں۔حالیہ دنوں معتبر شخصیات نے ن لیگ کے کم از کم چار رہنمائوں کی آرمی چیف سے ملاقاتوں کا حال بتایا ہے۔ ان ملاقاتوں میں نواز شریف اور مریم نواز کے لئے قانون کا کان مروڑنے کی درخواست کی گئی۔یہ این آر او کی درخواست نہیں تو کیا ہے ؟ آرمی چیف نے جب سیاسی معاملات سے لاتعلق کا اظہار کیا اور حکومت کی انتظامی مشینری پر دبائو ڈالنے کو جمہوریت کے منافی قرار دیا تو مسلم لیگ ن کی قیادت نے وہی لہجہ اختیار کر لیا جو 2017ء میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ مہم کے دوران اپنایا تھا۔ ن لیگ کے قائد نے اس وقت بھی اہم راز سینے میں موجود ہونے کا دھمکی آمیز اعلان کیا تھا آج بھی وہ میزائل ٹیکنالوجی اور دفاعی معاملات کو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں اچھال کر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ملک میں ہر خرابی کی جڑ وہ محافظ ادارے ہیں جو ہر روز اپنے جوانوں کی قربانی دے رہے ہیں۔ ممتاز سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ن لیگ کے قائد کے حالیہ بیان پر رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیان غلط ہے کہ پاکستان نے ٹوماہاک میزائل کو ریورس انجینئر یا نقل کیا۔ یہ تکنیکی طورپر بھی ممکن نہیں، کیونکہ ساخت کاپی کر بھی لیں تو اصل کام سافٹ وئیر کا ہوتا ہے جس کا مکمل کنٹرول مینوفیکچرر کے پاس ہوتا ہے۔ ۔ خیال رہے کہ بابر کروز میزائل پر کام کا آغاز سنہ 2000 کے بعد شروع ہوا تھا اور 2005 میں بابر ون کا کامیاب تجربہ کیا گیا تھا۔پاکستان نے 2017 میں سمندر کی تہہ سے زمین پر مار کرنے والے اور سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل بابر تھری کروز میزائل کا تجربہ کیا تھا اور اس طرح یہ دنیا کا پانچواں ملک بن گیا تھا جس نے اپنا ٹرائڈ مکمل کیا۔ یعنی پاکستان نے زمین، فضا اور سمندر کی تہہ سے ایٹمی ہتھیار فائر کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی تھی۔یہ سارا معاملہ کسی جماعت یا آرمی چیف کو متنازع بنانے کا نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے مفادات پر حملے کے مترادف ہے ،دنیا بھر میں کبھی کسی نے اپنی ہی ریاست کے دفاعی نظام پر تنقید کر کے سیاست میں اعتبار نہیں پایا ۔اپوزیشن جماعتوں کو اس موقع پر ایک حد فاصل کا تعین کرنا ہوگا کہ انہیں ریاست پاکستان کے مفادات عزیز ہیں یا ایک ایسے بیانئیے کی حمائت کی جائے گی جو ملک دشمن طاقتوں کو تقویت پہنچا رہا ہے ۔