ہر کوئی اپنے کام کی بات نکالتا ہے۔ ماسکو میں افغان مسئلے پر مذاکرات ہورہے تھے جہاں طالبان کے نمائندے بھی موجود تھے۔ ایک تو وہ طالبان کے نمائندے کے طور پر مذاکرات میں شامل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہیں امارات اسلامیہ افغانستان کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ یعنی افغانستان کی اس قانونی حکومت کا نمائندہ جو امریکی حملے سے پہلے وہاں قائم تھی اور جس کی رٹ افغانستان کے طول و عرض میں بڑی مضبوطی سے ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی۔ دل تو چاہتا تھا کہ اس وفد کے سربراہ کی اس تقریر کا تجزیہ پیش کروں جوانہوں نے یہاں کی تھی اور جس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ بتایا تھا کہ ان کے ساتھ قابض فوجوں نے کیا ظلم روا رکھا اور ان قابضین کا اصل جرم کیا تھا۔ مگر میری نگاہ ایک نکتے پر آ کر ٹھٹک گئی ہے۔ عرض کیا ناکہ ہر کوئی اپنے کام کی بات نکال لیتا ہے۔ آج کل ہمارے ہاں کرپشن کا بڑا تذکرہ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نئی حکومت اور پاکستانی قوم کا ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ بڑی اچھی بات ہے تاہم ایک بات ایسی ہے جسے ادا کرتے ہوئے میری زبان بھی ٹھٹک جاتی ہے۔ پھر بھی میں گاہے بگاہے اس کا تذکرہ کرتا رہتا ہے اور وہ یہ کہ کرپشن صرف مالی نہیں ہوتی۔ یہ موجودہ نظام زر کا کمال ہے کہ اس نے کرپشن کو صرف روپے پیسے تک محدود کردیا ہے اور باقی ہر طرح کی کرپشن کو نظر انداز کردیا ہے۔ ہمارے سرمایہ دارانہ نظام کے اندر یہ کرپشن اپنے بہت سے جواز پیدا کرلیتی ہے تاہم اس نے زندگیوں کو صرف اقتصادی اور مادی ترقی تک محدود کردیا ہے جو تہذیب انسانی کے لیے سم قاتل ہے۔ یہ ایک ایسا ظالم نظام ہے جہاں ترقی کا مطلب بھی صرف مادی ترقی ہے۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے کہ نشاۃ ثانیہ سے پہلے ترقی کا مطلب روحانی ترقی ہوا کرتا تھا جبکہ نشاۃ ثانیہ یورپ کے بعد اس کا مفہوم صرف مادی ترقی رہ گیا۔ اس تقریر میں جارحیت کے نتیجے میں افغانستان کی روحانی اور مادی تباہی دونوں کا ذکر کیا گیا ہے تاہم اس وقت یہ گفتگو صرف کرپشن کے حوالے سے مقصود ہے جس کا ہمارے ملک کے موجودہ سیاسی بیانیے سے بڑا تعلق ہے۔ اس تقریر میں بڑے واضح انداز میں اعلان کیا گیا ہے کہ حملہ آوروں نے اسلامی اور قومی اقدار کو تباہ کر کے اخلاقی کرپشن اور دوسری انتظامی، سماجی اور ذہنی کرپشن کا راستہ ہموار کیا ہے۔ سماجی کے لیے سوشل اور ذہنی کے لیے انگریزی میں انٹیلکچوئل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کرپشن کی جو اقسام ہیں اور ہم ذہنی طور پر جس بے راہ روی کا شکار ہیں اور انتظامی طور پر ہم نے جس طرح اپنے جسد ریاست کو تباہ کردیا ہے ان سب کا تذکرہ ہے۔ اس سے وہ اصل نقشہ بنتا ہے جس کے پس منظر میں رکھ کر ہم اپنے اصل مسائل کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے، میرے بقراط یہ دلیل دیں کہ مالی کرپشن کا اثر دوسروں کی زندگیوں پر پڑتا ہے اور دوسری طرح کی کرپشن ذاتی افعال ہیں، ان سے ہمیں سیاست اور نظام حکومت میں کیا لینا دینا۔ اس دلیل کی خیر اچھی طرح دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں، فی الحال اس کی ضرورت نہیں، صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ مدینے کی اسلامی ریاست میں جو نظام تھا وہ نہ محض مادی ترقی کو ترقی سمجھتا تھا نہ معاشی خوشحالی کو زندگی کا آخری نصب العین قرار دیتا تھا اور نہ ایسا تھا کہ اس مالی کرپشن سے بڑے کوئی جرائم تسلیم ہی نہ کئے جاتے ہوں، چوری کی سزا تو ہاتھ کاٹنا تھی مگر ایسے جرائم بھی تھے جن کی سزا سنگسار تک بیان کی جاتی ہے۔ کیا فلاحی ریاست میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے نہ ریاست مدینہ کا مقصد کوئی اس طرح کا معاشرہ قائم کرنا تھا۔ یہ درست ہے کہ غریبوں کی فلاح کے بہت سے قوانین کو آج بھی وہاں حضرت عمر سے منسوب کر کے عمر لاء کہا جاتا ہے مگر فاروق اعظم کا درہ اس وقت بیٹے پر بھی حرکت میں گم جاتا ہے جب ریاست کو کسی اخلاقی کرپشن کی خبر ہوتی ہے۔ وہ انقلاب سب رائج الوقت بڑی بڑی برائیوں کے خلاف تھا۔ مثال کے طور پر اخلاقی اور تہذیبی طور پر وہاں زنا کی لعنت تھی۔ اقتصادی میدان میں سود کا ظلم تھا۔ سماجی طور پر شراب کی لت تھی۔ انسانوں کی گردنوں میں غلامی کا جوا ڈالا گیا تھا۔ خیال ہے وہ جرم نہ تھے۔ اس بات پر اصرار اس لیے ہے کہ جب ہم ریاست مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کی بات کرتے ہیں تو کبھی کبھی یوں گمان ہوتا ہے کہ ریاست مدینہ اور اسلامی کا لفظ ہم محض تکلف کے لیے استعمال کر رہے ہیں، ہماری نظر میں فلاحی ریاست کا وہ تصور ہے جو مغرب میں بالخصوص سیکنڈے نیوین ممالک میں پایا جاتا ہے یا وہ سوشل ڈیموکریسی ہے جس کا پرچار یورپ کی بعض ریاستیں کرتی ہیں اور اس میں قطعاً ان بدچلنیوں پر پابندی نہیں ہوگی جو ان ریاستوں میں روا رکھی جاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کل کوئی وہ جنسی آزادی بھی ریاست سے طلب کرے جس کی ان ریاستوں میں نہ صرف یہ کہ ممانعت نہیں ہے بلکہ اسے فخر سے بیان کیا جاتا ہے۔ مدینے کی اسلامی عورتوں کا مقام یہ تھا کہ انہیں زندہ گاڑ دیا جاتا تھا۔ اب ان پانچ برائیوں کا الگ الگ جائزہ لیتے جائیے۔ کس طرح حضور نبی کریم کے پیام نے ان میں سے ایک ایک کے خلاف جنگ کی اور نوع بشر کو ان برائیوں سے پاک کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ اسلامی معاشرہ ان برائیوں کے خلاف کس حکمت سے لڑا اور کیسے لڑا، یہ ریاست مدین کی تفہیم کی مبادیات میں سے ہے۔ ہر قسم کا استحصال ختم کیا گیا۔ آپ اگر ان سب کرپشنوں کا خاتمہ نہیں کرتے تو آپ ایسا معاشرہ تو پیدا کرسکتے ہیں جہاں خودکشیوں کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہو مگر وہ معاشرہ قائم نہیں کرسکتے جو انسانیت کی معراج ہے۔ ہماری ان بداعتدالیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم وہ معاشرہ نہیں بنایا رہے جہاں انسان سکون سے بھی جیتا ہو اور اسے وہ حقوق بھی حاصل ہوں جو کسی اور معاشرے میں موجود نہیں ہیں۔ یہاں دل تو کرتا ہے کہ اوپر میں نے اسلامی انقلاب کو اپنی ابتدا ہی سے درپیش جن پانچ چینلجوں کا ذکر کیا ہے، ان میں سے اہر ایک کا الگ الگ تجزیہ کر کے یہ عرض کروں کہ اسلامی معاشرے یا مثالی معاشرے کے قیام کے لیے ان سب برائیوں اور بدعنوانیوں کا خاتمہ کس طرح ضروری ہے۔ افغان نمائندے نے بھی مثال کے طور پر رونا رویا کہ ان کی حکومت نے افغانستان کو ہر قسم کے نشے سے پاک کردیا تھا۔ افیون کی کاشت بند کردی تھی۔ مگر حملہ آوروں نے افغانستان کو پھر سے منشیات کا مرکز بنا دیا ہے۔ وہاں ایسی بمباری کی کہ زمین کی زرخیزی تک ختم ہوگئی، فضا ایسی آلودہ ہوئی کہ انسان تو انسان وہاں جانوروں کے لیے جینا بھی مشکل ہوگیا۔ یہ سب باتیں آدمی کو تب سوجھتی ہیں جب وہ معاشرت و تہذیب کے سب تقاضے ذہن میں رکھے وگرنہ لنگڑا لولا انقلاب کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔ نظام زر سے پیدا ہونے والی کرپشن بھی تب ہی جڑ سے اکھاڑی جا سکتی ہے جب ہم ایک مکمل انقلاب لائیں۔ ایسا انقلاب جو ہر شعبے پر محیط ہو۔ روحانی بھی ہو مادی بھی۔ دینی بھی ہو اور جسمانی بھی۔ سماجی بھی ہو اور نفرادی بھی۔ ایسے جامع انقلاب کے بغیر آپ معاشرے کو بدلنے کا نعرہ تو لگا سکتے ہیں، اس پر عمل نہیں کرسکتے۔