پہلی اسلامی ریاست جو مدینہ منورہ میں قائم ہوئی، وہ ایک ’’آئیڈیل اسلامی ریاست‘‘ تھی، جس کی بنیاد از خود نبی اکرم ﷺ نے اپنے دستِ خاص سے رکھی، اور آپ ﷺ ہی اس کے سربراہ تھے، اس کے نظمِ اجتماعی میں ، آپ ﷺ کے ساتھ آپ کے معتبر اور جلیل القدر صحابہؓ تھے، جو آپ ﷺ کے فیضِ نظر اور سایۂ تربیت سے بنے ، سنورے اورپروان چڑھے۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ منورہ کی یہ ریاست صرف اس وقت ، اس دور یا عرصہ تک کے لیے نہیں، بلکہ رہتی دنیا تک ، ہر دور، ہر ملک اور خطّے کے لیے لائق تقلید اور باعثِ افتخار ہوئی۔ قائداعظم محمد علی جناح نے 13جنوری 1948ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے بھی یہی ارشاد فرمایاتھا: "ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا، بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے ، جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزماسکیں"۔ چنانچہ اکتوبر1939میں آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایاتھا: ’’میں نے دنیا کو بہت دیکھا ۔ شہرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی ’’واحد تمنا‘‘یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد اور سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا اللہ گواہی دے رہا ہو کہ جناح! تم نے اسلام سے غَدّاری اور خیانت نہیں کی! جناح!تم نے مسلمانوں کی آزادی ، تنظیم اور مدافعت میں اپنا ’’فرض‘‘ادا کر دیا ۔ میرے اللہ ! میں آپ سے زور دار شہادت کا طلب گار نہیں ہوں! میں چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح ! تُم نے مُدافعتِ اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح! تُم مسلمانوں کی تنظیم ، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا اللہ! یہ کہے کہ بے شک تُم ’’مسلمان‘‘پیداہوئے اورکفر کی طاقتوں کے ’’غلبے‘‘میں علَمِ اسلام کو سربلند رکھتے ہوئے ’’مسلمان‘‘مرے!‘‘ پاکستان کا مطالبہ قائداعظم کے قول کے مطابق درحقیقت اسلام کامطالبہ تھا اور وہ پاکستان کو اسلام کی عظمت قرار دیتے تھے۔ ان کا ایمان تھا کہ پاکستان کے بغیر مسلمان اور اسلام دونوں تباہ ہوجائیں گے۔ وہ اس بات کے معترف بھی تھے کہ پاکستان کے بغیر مسلمانوں اور اسلام کا دفاع ناممکن ہے۔ اُنہوں نے یہ بھی اعلان فرمایا تھا کہ حصولِ پاکستان کے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں بھی مسلمانوں اور عربوں کو خطرہ لاحق ہوجائے گا۔ یہی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے قائداعظم پاکستان کو مسلمانوں اور اسلام کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ گردانتے تھے۔ پاکستان کا قیام ایک مخصوص نظریئے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ تحریکِ پاکستان کے دوران اسلامیانِ ہند نے برصغیر کے طول و عرض میں جو نظریاتی نعرہ لگایا اور جس نے مسلمان بچوں ، جوانوں، بوڑھوں ، مردوں اور عورتوں کے دلوں کو گرما دیا، ان میں قوتِ ایمانی اور قوتِ روحانی پیدا کر دی وہ نعرہ ’’کلمۂ توحید‘‘تھا:پاکستان کا مطلب کیا ؟ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ۔ ریاست مدینہ کی تشکیل کا عمل نبی اکرم ﷺ کے مکہ سے مدینہ المنورہ ہجرت بمطابق دو شنبہ، 8ربیع الاول ،14نبوی، 23 ستمبر 622 ء قبا کی بستی میں تشریف فرماہونے سے ہوا، ظاہر ہے یہ تشکیل بیک جنبشِ قلم نہ تھی ، بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد ، جانگسل کوشش اور قربانیاں کارفرما تھیں۔ مسلمانوں کو ایک ایسا خطہ میسر آگیا جہاں اسلامی ضابطہ حیات اور نظام زندگی کا عملی نفوذ اور اجتماعی نفاذ ممکن تھا، ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے تقریباً ساڑھے تیرہ سو سال بعد، دنیا کے نقشے پر، آج ہی کے دن ، اسلام کے نام پر ، ایک اور مملکت وجود میں آئی ، جس کا نام ’’پاکستان‘‘ہے،جس کو اپنے قیام کے معاً بعد ویسے ہی مسائل /چیلنجزدرپیش ہوئے ، جیسے ریاست مدینہ کو تھے، بدقسمتی سے یہ خطّہ اپنے مغربی اور مشرقی محاذوں سے کبھی بھی بہت زیادہ مطمئن نہ رہ سکا،بالکل اُسی طرح ، جیسے مدینہ منورہ کی ریاست۔۔۔ جیسے اپنے قیام کے فوراً بعد ، دو دشمنوں سے واسطہ رہا ۔ شمال میں خیبر اور جنوب میں مکہ۔ ایک طرف یہودی اور دوسری طرف مشرکین ، خیبروالوں سے بھی جنگ اور مکہ والوں سے بھی شدید خطرات۔ مزید یہ کہ مسلمانوں کے یہ دونوںدشمن بھی آپس میں اکٹھے تھے اور اگر مسلمان، کسی وقت مکہ کی طرف، کسی نوعیت کی پیش قدمی کریں ، تو خیبر والے ۔۔۔ اور اگر خیبر کی طرف بڑھیں تو اہلِ مکہ حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ اس ’’نیٹ ورک‘‘کوتوڑنے کے لیے ،ایک صاحبِ فراست کمانڈر اور صاحبِ بصیرت سربراہ کی حیثیت سے ، لازم تھا، کہ دونوں میں سے کسی ایک محاذ کوسرِدست خاموش کروایا جائے اورپھر بتدریج کسی ایک کے ساتھ ’’جنگ بندی‘‘ اور صلح جوئی کا معاملہ ہو ، جو کہ بالآخر چھ ہجری میں اُس وقت ہوا، جب آپ ﷺ اپنے چودہ سو اصحاب کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ تشریف لے جارہے تھے ، اور حدیبیہ کے مقام پر ، آپ ﷺ کا مشرکین مکہ کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا، جسے ’’صلح حدیبیہ‘‘کہا گیا ، جسے قرآن نے ’’فتحِ مبین‘‘قرار دیا، حالانکہ ظاہری طور پر ، تاریخِ اسلام میں ’’فتح مکہ‘‘کو بہت اہمیت میسر ہے، لیکن معنوی طور پر ’’صلح حدیبیہ‘‘کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ جس نے تاریخِ اسلام کے دھارے کا رُخ موڑ دیا ، اور صرف چند ہی سالوں میںپورا خطہ اور جزیرہ نما عرب اسلام کے نور سے منور ہو گیا، اور صرف چار سال بعد ، جب نبی کریم ﷺ اپنے آخری حج کے لیے انہی راستوں سے گزرے تو آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد تھی ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ صلح حدیبیہ کی شرائط میں ایک اہم شرط یہ تھی کہ فریقین کے درمیان دس سال تک مکمل ’’جنگ بندی‘‘ہوگی جبکہ مسلمانوں کی کسی تیسرے فریق کے ساتھ جنگ کی صورت میں مکہ والے غیر جانبدار رہیں گے، چنانچہ مسلمانوں کی کسی کے خلاف پیش قدمی اور لڑائیوں کی صورت میں قریش نے غیر جانبداری منظور کر کے، انہوں نے آنحضور ﷺ کو خیبر کے یہود کی سرکوبی کا موقع فراہم کردیا ، اور یوں خطّے کی ایک اہم معاشی قوت یہود کے ساتھ ان کے دیرینہ تعلقات کا خاتمہ اور آنے والے وقت میں مسلمانوں کے واحد ہدف بن گئے ۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے کچھ ہی عرصے کے بعد، خیبر والوں کی سازشوں کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا، تو شمالی سرحد مکمل طور پر محفوظ ہو گئی، اب صرف ایک ہی ہدف تھا یعنی مشرکین مکہ ، جن پر صرف دو سال بعد یعنی آٹھ ہجری میں اللہ نے غلبہ عطا فرمادیا۔اسی طرح غزوہ بدر جس میں اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ کفار کے پورے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا تصادم ہو، تاکہ خطّے کی بالادست قوت ’’مشرکین مکہ‘‘ جو ہر وقت اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں رہتی ہے، ان کا غرور خاک میں مل سکے ۔ چنانچہ بدر میں معمولی وسائل کے ساتھ ، مسلمانوں نے کئی گنا بڑی فوج سے مقابلہ کیا ۔ وہ نقشہ 1965ء کی جنگ میں نظر آیا، جب ہندومت کا ایک ہزار سالہ انتقامی جذبہ پوری شدّت کے ساتھ تصادم پر اُترا ، اور بالخصوص 1947ء سے لے کر 1965ء تک بھارت نے خطے میں اپنی بالادستی کاجو تاثر قائم کیا ہوا تھا ، اس جنگ میں اس کا خاتمہ ہوا ۔