پاکستان پہ جہادی تنظیموں کی پرورش وپرداخت اور انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے اور نائن الیون کے بعد پالیسی میں پیراڈائم شفٹ کے بعد (جسے کالم کے گزشتہ حصہ میں واضح کیا گیا تھا کہ وہ ایسا کوئی شفٹ بھی نہیں تھا)ان کے خلاف امریکی خواہش پہ کریک ڈاون ، جو ایک نا قابل تردید حقیقت ہے،کا الزام دھرنے سے قبل ہمیں اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ ان جہادی تنظیموں کو نظریاتی غذا کہاں سے اور کیونکر ملتی ہے۔آپ مغرب کے لاکھ ناقد ہوں لیکن یہ نہ ماننا زیادتی ہوگی کہ اس نے عصر ی مسائل جو اکثر خود اس کے اپنے پیدا کردہ ہیں،پہ بحث و تحقیق کا دروازہ کبھی بند نہیں کیا اور گاہے بگاہے وہیں کے ایوان علم و دانش سے خود اسی کے خلاف آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔اس سلسلے میں برنارڈ لیوس کا مقالہ مسلمانوں میں اشتعال کی وجوہات پڑھنے کے قابل ہے۔انہو ں نے ریاست اور کلیسا کی علیحدگی اور قیصر کا حصہ قیصر کو اورخدا کا خدا کو دیئے جانے کی اب تک کی غلط تشریح کو مستردکردیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ریاست اور مذہب کی علیحدگی ان مذاہب میں تو ممکن ہے جو عالمگیریت کے حامل نہ ہوں اور محض چند رسومات کا مجموعہ ہوں لیکن اسلام اور عیسائیت جیسے متحرک مذاہب میں جو تبلیغ اور دعوت کے ذریعے پھیلائے جاتے ہوں اور اسی باعث کسی مخصوص علاقے یا ثقافت تک محدود نہ ہوں، ریاست کو مذہب سے علیحدہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔بالخصوص اسلام کے کیس میں یہ بالکل ہی ناممکن ہے جہاں اس کے رسول محمد ﷺ محض ایک پیغمبر ہی نہیں بلکہ سپہ سالاراور حاکم بھی تھے اور ایک ریاست اور اس کے تحفظ کے لئے فوج ان ﷺ کی ضرورت تھی۔ اسلامی ریاست میں خلیفہ عوام پہ حاکم نہیں بلکہ امر اللہ کے نفاذ کا ضامن بھی تھا اور اسلامی فوج اس کی اس ضمانت پہ پہرا دینے کا کام کرتی ہے۔ موجودہ مسائل میں مسلمان اسی تصور کی طرف لوٹ رہے ہیں جہاں دنیا دو حصوں میں منقسم ہے۔ایک دارالسلام جہاں شرعی قوانین کا نفاذ ہے دوسرے دارالکفر۔جہاں شرعی قوانین کا نفاذ ہونا چاہئے۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ جسے ہم عرف عام میں جہادی مسلمان سمجھتے ہیں، اس کا خیال ہے کہ اس کے اپنے ملک میں بھی شریعت نافذ نہیں ہے اور مسلمان حکمران اس فریضے سے غافل ہوگئے ہیںاس لئے وہ خود یہ فریضہ سرانجام دینے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اس کے اس نظریے کو تقویت اس سے ملتی ہے کہ اسے اسلام کی ابتدا کی طرح کوئی مرکزی حکومت حاصل نہیں اس لئے اسے خود ہی یہ بھاری پتھر اٹھانا ہوگا۔ خلافت عثمانیہ کے سقوط نے اس کے احساس محرومی کو مہمیز عطا کی ۔برنارڈ لیوس کا مسلمانوں میں دہشت گردی کی وجوہات پہ یہ مقالہ بہت طویل ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان ہتھیار اس وقت اٹھاتا ہے جب :1۔اس کے اپنے ملک پہ غیرملکی تسلط ہو۔ 2۔وہ یہ سمجھتا ہو کہ اس کی حکومت غیر ملکی/مغربی یا طاغوتی ایجنڈے پہ کام کررہی ہے۔3۔وہ یہ سمجھتا ہو کہ اس کے ہم مذہب بھائی کسی غیر ملکی تسلط یا اس کی پٹھو حکومت کے ہاتھوں مشکل میں ہیں اور ان کواس کی مدد کی ضرورت ہے۔4۔اسلامی نشاۃ ثانیہ کا خواب اسے سونے نہیں دیتا، یہ ان سنہرے دنوں کی بازیافت کی کوشش ہے جب اس کی ایک مرکزی حکومت ہوا کرتی تھی جو اس کے دفاع کے لیے ہر وقت بیدار ہوتی تھی اور یہی وہ نکتہ ہے جسے سمجھے بغیر مرض کی اصل تشخیص نہ صرف ناممکن ہے بلکہ موجودہ مسائل کا حل بھی مشکل ہے۔ دور رسالت ﷺ سے خلافت راشدہ تک کا عرصہ نکالنے کے بعد بھی مسلمانوں کی کوئی نہ کوئی مضبوط مرکزی حکومت قائم رہی اور مسلمان کسی نہ کسی طرح خلافت کو اپنا مقصود بناتے اور نظم اجتماعی کی سیاسی توثیق کرتے رہے۔ مسلمانوں کے درمیان ایک واضح مسلکی تفریق سے قطع نظر ، رفتہ رفتہ حکومت کا مقصود امر الہی کے قیام کی بجائے طلب جاہ ہوگیااور خلافت کی جگہ ملوکیت نے لے لی ۔ مسلمانوں کے نظم اجتماعی پہ پہلا کوڑا تاتاریوں نے برسایا اور خلافت عباسیہ کا خاتمہ عبرت ناک انداز میں ہوا۔ مشرق میں چنگیز خان، ہلاکو خان او رتیمور نے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا تو مغرب میں اسپین میں مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ تابناک اقتدار کا سورج عیسائیوں کے ہاتھوں خون کے دریا میں ڈبو دیا گیا ۔ جبل الطارق پہ طارق بن زیاد کی کشتیاں جلانے کی ایمان افروز داستان ابو عبداللہ کے نامردوں کی طرح ہتھیار ڈالنے کے شرمناک انجام کو پہنچی۔وسطی ایشیائی مسلم ریاستو ں پہ زار روس نے پنجے گاڑے تو خلافت عثمانیہ کے چھ سو سالہ اقتدار کے فرانس اور برطانیہ نے حصے بخرے کردئیے۔ایسی مسلم ریاستیں وجود میں آئیں جو مذہب کے بجائے مسلم قومیتوں کی بنیاد پہ قائم تھیں۔خلافت عثمانیہ کو اس طرح تقسیم کیا گیا کہ وقت پڑنے پہ اس کی مزید تقسیم میں آسانی ہو۔عرب دنیا کے قلب میں یہودی ریاست بسا دی گئی اور خلافت عثمانیہ کے سب سے بڑے حامی برصغیر کے مسلمانوں کو متنازعہ کشمیر کا تحفہ دیا گیا۔ مسلمان حکمران اپنے حصے میں آنے والی ریاستوں کے والی بن گئے اور مسلم امہ کا تصور دھندلاتا گیا۔اسی تناظر میں دیکھیں تو مسلم امہ کے لاوارث ہونے کا منظر بالکل واضح نظر آئیگا۔ اسرائیل پہ جنگوں کے بعد عرب دنیا اس سے عملی طور پہ لاتعلق ہوگئی اور فلسطینی مسلمان ہاتھوں میں پتھر اٹھائے تنہا رہ گیا۔کشمیر میں دو جنگوں کے بعد اور نائن الیون کے بعد بالخصوص کشمیری نوجوان کو عملی طور پہ بھارتی جبر کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا اور ہماری حمایت زبانی مذمت تک محدود ہوگئی۔ فرانس کے الجزائر ی مسلمانوں پہ ظلم، بوسنیامیںان کے قتل عام،برما ، افریقہ چیچنیا اور دیگر روسی مسلم ریاستوں سمیت دنیا بھر میں مسلمانو ں پر ٹوٹ پڑنے والے قہر کے خلاف مسلم حکمرانوں کے پاس او آئی سی اور اقوام متحدہ کی بے جان مذمتوں کے سوا کیا دھرا تھا؟ایسے میں جہادی تحریکوں نے سر اٹھایا اور امام ابن تیمیہ کے فتوی ماردین کو اپنا نظریہ بنا لیا۔جب مسلمانوں کی کوئی مرکزی حکومت نہ رہی تو جہادی گروہوں نے سر اٹھانا ہی تھا۔ پاکستان میںبھی یہی ہوا۔ ہم نے امریکی خواہش پہ جن تنظیموں کو پال پوس کر جوان کیا ، اسی کی خواہش پہ ان کیخلاف آپریشن بھی کیا۔ جب ایسا وقت آیا تو ان تنظیموں نے فلاح انسانیت کی چھتری اوڑھ لی۔ ہم نے بھی ان کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں۔ یہ درست ہے کہ ان پہ پابندی پاکستان کو فیٹف (FATF) اور منی لانڈرنگ جیسے درپیش مسائل کا وقتی حل ہوسکتی ہے لیکن اصل مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے اور وہ مسلمانوں کی کسی ایسی مرکزی حکومت سے ہی ممکن ہے جو ان کے تحفظ کا ذمہ لے سکے۔ آپ بھی ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں جس کے اولین فرائض اقامت دین ،جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے امت مسلمہ کا تحفظ اور عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی تھے۔یہ فرائض تنظیموں کے نہیں ریاست کے ہوتے ہیں۔مسلمانوں کی تاریخ گواہ ہے کہ جب ریاست فرض پورا نہیں کرتی تو کوئی نہ کوئی تو کرتا ہے۔وہ جہاد ہو یا فلاح عامہ۔(ختم شد)