شبیر سومرو

٭زرخیز زمینوں پرگروہوں کے قبضے سے خوراک کا بحران پیدا ہوگیا

 

٭ ہزاروں سال پرانی مٹّی کھانے کی عجیب انسانی عادت سے متعلق دلچسپ  فیچر 

 

٭ہیٹی میں مٹّی کی ’روٹیوں‘،مٹّی کے’ بسکٹوں ‘پر گذارہ کیا جارہا ہے

٭ہیٹی کی زمین میںزیادہ کیلشم کے باعث ہزاروں سالوں سے عورتیں کھاتی آر ہی ہیں

٭ مٹّی کی روٹیاں اور بسکٹ بیچنے والے گلیوں ، بازاروںمیں پھیری لگاکر بیچتے ہیں

 ٭افریقا میں 30 سے 80 فیصد لوگ روزانہ پائو سے آدھا کلومٹّی کھاجاتے ہیں

٭ مٹّی کی مستقل خوراک سے بچے خون اور پیٹ کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں

٭یہ عادت امریکا، ایران،ارجنٹینا، اردن، شام، برازیل، بھارت،پانامہ اور چین کے لوگوںمیں بھی ہے

٭امریکی ریاست جارجیا میں بھی سفید چکنی مٹّی پیک صورت میں اسٹوروں میں بکتی ہے

٭لالچی سرمایہ دار غریبوں کی ’ایجاد‘ کو منافع کا مال بنانے کے لیے سرگرم ہوگئے 

٭مٹّی کھانے کی عادت جانوروں، پرندوں اور کیڑوں میں بھی دیکھی جاتی ہے

 

 

بھوک انسان سے کیا کچھ نہیں کراتی؟سندھی زبان میں ایک کہاوت ہے:

’’بُکھ کھاں بصر بھلا‘‘یعنی بھوکا مرنے سے بہتر ہے کہ آدمی کچی پیاز ہی کھالے۔مگر آج اکیسویں صدی کی دنیا میں کئی غریب ملک ایسے بھی ہیں ،جنھیں سوکھی پیاز بھی میّسر نہیں اور وہ مٹّی کھا کر وقت پاس کرتے ہیں۔ جی ہاں، یہ کوئی محاورتاً یا مثالاًکہنے کی بات نہیں، افریقا کے غریب ملکوں میںلوگ مٹّی کھا کر بھوک مٹارہے ہیں۔ مٹّی کی روٹی بڑوں کے لیے اور مٹّی کے  بسکٹ بچوں کے لیے بنائے جاتے ہیں، جن میں ’حسبِ ذائقہ‘ نمک شامل کر لیا جاتا ہے۔

 کیری بیائی علاقے کا ایک ملک ہیٹی ہے، جہاں کے لوگ مٹّی کی روٹی کھاتے ہیں اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے مٹّی کے  بسکٹ بناکے انھیںکھلاتے ہیں۔بچوں کو مٹّی کھانے پر آمادہ کرنے کے لیے وہ اس میںکبھی ہلدی تو کبھی گیرو شامل کردیتے ہیں تا کہ  بسکٹ رنگین ہوجائیں اوربچے انھیں رغبت سے کھالیں۔ اس سے جو صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوتے ہیں، وہ اس سے متعلق بھی اچھی طرح جانتے ہیںمگر جب کھانے کے لیے جنگلی پھل، درختوں کے چھلکے اور شکار کے جانور نایاب ہوجائیں تو ان کے سامنے زمین یعنی مٹّی ہی بچتی ہے، جسے آٹے کی طرح گوندھ کر، اس میں نمک ڈال کر ،اس کی گول گول روٹیاں اور مختلف شکلوں کے  بسکٹ بنالیے جاتے ہیں اور پھر انھیں سوکھنے کے لیے دھوپ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ سچ ہے کہ ہم انسان مٹّی سے بنے ہیں اور مٹّی ہی میں بالآخر ہمیں جانا ہے تو پھر اس مٹّی کو خوراک کے طور پر استعمال کرنے میں کیا ہرج ہے!؟۔ 

 ہیٹی میں عام خوراک اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بہت زیادہ ہو چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے غریب عوام مٹّی کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ 

مٹی کے  بسکٹ بنانے اور کھانے والے ان افریقی لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ               

  بسکٹ نہ صرف ان کی صحت کے لیے بے حد مضر ہیں بلکہ ان کا مزا یا ذائقہ بھی بہت خراب ہے مگر پاگل کر دینے والی بھوک کی وجہ سے وہ اور ان کے بچے یہ کھانے پر مجبور ہیں۔ ملک میں اشیائے صرف کی قیمتیں اتنی چڑھ گئی ہیں کہ اچھا کمانے والے لوگ بھی بمشکل ایک وقت ہی کھانا کھاتے ہیں۔

ہیٹی کی مٹی میں کیلشم زیادہ ہے، اس لیے ہزاروں سالوں سے یہ مٹی وہاں کی حاملہ عورتیں کھاتی آر ہی ہیں۔ اب ملک میں خوراک کی قیمتیں انتہائی بلند ہوجانے کے باعث وہاں کی اکثریت عام روٹی سالن یا سبزی کھانے سے محروم ہوچکی ہے۔ اس لیے پہلے کچھ لوگوں نے حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران میڈیا کے سامنے مٹی کے  بسکٹ کھانا شروع کیے تھے۔بعد میں ان کا ذائقہ منہ کو لگ جانے پر بیشتر لوگ دونوں وقت مٹّی کھانے پر اتر آئے۔ بچوں کے لیے خصوصی طور پر چھوٹے  سائز کے  بسکٹ بنائے جانے لگے۔ اس طرح مٹی کی روٹیاں اور مٹی ہی کے  بسکٹ کھانے کا یہ رواج ملک بھر میں پھیلتا چلا گیا۔ آج کل ہزاروں لوگوں کا روزگار اس نئی ’’صنعت‘‘ سے وابستہ ہو چکا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں پھیری والے پرات میں چھولے یاٹوکری میں پھل فروٹ لے کر گلی گلی گھومتے اور صدائیں لگا کر بیچتے ہیں، اسی طرح ہیٹی میں مٹّی کی روٹیاں اور  بسکٹ بیچنے والے گلیوں میں، بازاروں اور سڑکوںپر یہ چیزلیے گھوم رہے ہیں۔ بعض نے کسی نکڑ پہ چھوٹا ٹھیّہ بھی لگا رکھا ہوتا ہے، جہاں آکر بچے اور بڑے معمولی پیسوں کے عیوض یہ ’کھانا‘ خرید لے جاتے ہیں۔لیکن غریب آبادی کا غالب حصّہ یہ سستی خوراک بھی خرید کر کھانے سے قاصر رہتا ہے۔ اس لیے اکثر لوگ میلوں پیدل چل کر ان علاقوں تک جاتے ہیں، جہاں ہیٹی کی یہ خاص مٹّی وافر اور ظاہر ہے کہ مفت دستیاب ہے۔ وہ اپنی ضرورت کے مطابق مٹّی بوروں میں بھر کر کندھے پر بار کر کے یا جن کے پاس گدہا ہوتا ہے، اس پہ لاد کر اپنے گھروں کو لے آتے ہیں۔ گھروں پہ یہ کام عورتوں کا ہوتا ہے کہ وہ اس پتھریلی مٹّی کو پیس کر، اس کا ’آٹا‘ بناتی ہیں اور پھر اسے گوندھ کر روٹیاں تیار کر کے، انھیں دھوپ میں سکھا کر استعمال کے لیے تیار کر لیتی ہیں۔ جن گھروں میں نمک جیسی نعمت موجود ہوتی ہے، وہ اس میں حسبِ ذائقہ نمک بھی ملاتی ہیں، ورنہ جیسی ہے، جہاں ہے کی بنیاد پر بچے اور بڑے مٹّی کی روٹی اور  بسکٹ لے کر دن بھر کُترتے پھرتے ہیں۔ 

جہاں معیشت اس طرح تباہ ہوچکی ہو، وہاں امن و امان اور غنڈہ گردی عام ہوجاتی ہے۔ طاقت ور گروہ اسلحے کے زور پر چھین جھپٹ اور قبضہ گیری کا راستہ اپنا لیتے ہیں۔ یہی حشر اس غریب افریقی ملک کا بھی ہوا ہے۔یہاں کے سماج دشمن عناصر اور غنڈہ گروہوںنے ان میدانوں پر قبضے کرنا شروع کردیے ہیں،جہاں یہ مٹّی پائی جاتی ہے۔اس طرح یہ مفت کی چیز بھی اب کئی دیہات اور قصبوں میں قیمتاً فروخت ہونے لگی ہے۔ جس کے پاس پیسا ہے، وہ خرید کر لے جائے اور جیسے چاہے، کھالے۔ جو ’افورڈ ‘ نہیں کر سکتا، وہ اور اس کے بچے بے شک بھوکے مرجائیں، قبضہ گروہوں یا حکمرانوں کو کوئی پروا نہیں!۔

اب بازاروں میں مٹّی کے ان بسکٹوں کی قیمت بھی بڑھنے لگی ہے۔ پہلے ہمارے ایک روپے میں  ایک چھوٹا  بسکٹ مل جاتا تھا۔ مگر اب ایک چھوٹے نمکین  بسکٹ کی قیمت تقریباً سات روپے تک پہنچ گئی ہے اور مٹّی ہی کی بڑی روٹی ہمارے ملک کے بارہ روپے کی ایک ہے۔ روٹی کی قیمت تو ہمارے ہاں بھی لگ بھگ یہی ہے مگر ہمیں اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہمیں گندم کے آٹے کی خستہ روٹی میّسر ہے۔

 ہیٹی کی معیشت اس وقت جس سطح پر ہے، اس میں وہاں کے عام شہریوں کی فی کس اوسط آمدنی دو امریکی ڈالر ہے۔  ہمارے ملک کے غریب شہریوں یا مزدوروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ آمدنی یا دیہاڑی بہت کم یا خراب نہیں ہے ۔پاکستان میں ایک دیہاڑی دار مزدور کو دن بھر کی شدید مشّقت کے بعد پانچ سو روپے سے سات سو روپے نصیب ہوتے ہیں۔ مگر اصل تقابل مہنگائی کا کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں اتنی مہنگائی ابھی تک نہیں ہے، جتنی ہیٹی جیسے افریقی ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر وہاں خوراک کے بہت نرخ زیادہ ہیں کیوںکہ زرخیز زمینوں پر زبردست گروہوں نے قبضے کر لیے ہیں اور وہ ان زمینوں پر پیدا ہونے والی نعمتیں اپنے بھوکے ہم وطن لوگوں کو سستے داموں یا مناسب قیمت پر دینے کے بجائے تمام کی تمام پیداوار مہنگے نرخ پر ایکسپورٹ کر دیتے ہیں۔

 ایک اور ستم ظریفی یہ ہونے لگی ہے کہ دنیا کے امیر ملکوں کے لالچی سرمایہ دار ہیٹی کے غریب لوگوں کی ’ایجاد‘ یعنی اس مٹّی کی روٹی اور بسکٹوں کو بھی اپنے لیے منافع کا مال بنانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ اس غریبانہ خوراک کو صحت بخش دیسی اور کم کیلوریز والی organic پروڈکٹ کے طور پر مشتہر کرنے لگے ہیں تاکہ اسے امیروں کی مارکیٹ میں مہنگا آئٹم بتا کر بیچا جا سکے!۔

اس سے جب سرمایہ دار فائدہ اٹھا سکتا ہے تو ہیٹی کے عوام بھی اسے باقائدہ صنعت کا درجہ دے کر، کمائی کر سکتے ہیں۔۔۔ لیکن وہ بیچارے اگر اتنی سرمایہ کاری کر سکتے، فیکٹریاں لگا کر اپنی چیز کو مارکیٹ میں پھیلا سکتے تو پھر انھیں مٹّی کھانے اور اپنے پھول سے معصوم بچوں کو کھلانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ 

بہرحال سرمایہ کاروں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں اور اب ان کی منافع کمانے کی ترجیحی لسٹ میں ہیٹی کی Mud Coockies بھی شامل ہو چکی ہیں۔ ایک ایسے ہی آسٹریلیائی نفع خور تاجر نے کئی ملکوں میں بیکریوں کی ایک ’چین‘ قائم کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ ان بیکریوں میں مٹّی کے بسکٹوں کے علاوہ مٹّی کی پیسٹریاں، مٹّی کے کیک، مٹّی کے ڈونٹس، مٹّی کے رولز، مٹّی کی پاپڑیاں، مٹّی کے نمک پارے اور دیگر پروڈکٹس تیار کر کے بیچی جائیں گی۔

اگر ہیٹی کی حکومت میں کوئی عقلمند پالیسی ساز موجود ہو تو وہ حکومت کو اس نئی مقامی صنعت کی جانب راغب کر کے، ملک اور اس کے عوام کو غربت کی چکّی سے باہر لاسکتا ہے۔اس پروڈکٹ پر کوئی خرچہ بھی نہیں ہے۔ بس پیکنگ اور اشتہارسازی کے اخراجات اٹھیں گے، ورنہ مٹّی جو اس صنعت کا بنیادی خام مال ہے، وہ تو وہاں مفت دستیاب ہے۔ اس کی تیاری میں برقی توانائی کا استعمال بھی کم ہوگا کیوں کہ یہ  بسکٹ اور روٹیاں تو دھوپ میں سکھائی جاتی ہیں اور افریقی ملکوں میں مٹّی کی طرح دھوپ بھی وافر اور مفت ہے۔مگر اس وقت تو یہ حال ہے کہ مٹّی کی روٹیوں یا بسکٹوں کو مستقل خوراک بنانے سے ان کے بچے خون اور پیٹ کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔اس لیے آپ کو ہیٹی کے ہر دوسرے بچے کا پیٹ غبارے کی طرح پھولا ہوا نظر آئے گا اور ان کی جِلد کا رنگ بھی بھربھری مٹّی جیسا ہوتا جا رہا ہے۔

مٹّی ،کوئلے یا ایسی دوسری چیزیں کھانا جو کھانے کے قابل نہیں ہوتیں، مختلف ثقافتوںکی قدیمی عادتوں میں شامل رہی ہیں۔اسے geophagyکہا جاتا ہے۔کچھ محققین کہتے ہیں کہ انسانوں میں یہ عادت پہلے پہل افریقی خطے ہی میں دیکھنے میں آئی تھی۔اس کے اوّلین شواہد زیمبیا اور تنزانیا کی سرحد پر واقع Kalambo Fallsکی حدود میں ملے ہیں۔جہاں کیلشم سے بھرپور ایسی مٹّی کے ساتھ قدیم دور کے انسانوں کی ہزاروں سال پرانی باقیات بھی ملی ہیں اور ان کی ہڈیوں میں اس مٹّی کے اثرات بھی پائے گئے ہیں۔ یہ انسانHomo sapiensکے پیشرو بتائے جاتے ہیں۔

مٹّی کھانے کی عادت یا Geophagiaدنیا بھر کے ملکوں کے دیہی و قبائلی معاشروںمیں دیکھی گئی  ہے۔ مگر جاپان اور کوریا کے ملک اس سے مستثنیٰ رہے ہیں۔قدیم یونانی دانشورPliny کی دستاویزات میں بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ یونان کے جزیرےLemnosکے باشندے بڑی رغبت سے مٹّی کھاتے ہیں۔ ان کے اس مشغلے کے شواہد چودھویں صدی عیسوی تک ملتے رہے ہیں۔سنہ14عیسوی کے طبی ماہرA. Cornelius Celsus کی مشہور طبی کتابDe Medicinaمیں بھی اس انسانی عادت کا تذکرہ کرتے ہوئے، اسے پیٹ، خون کی خرابی اور دیگر امراض کا بڑا سبب قرار دیا گیاہے۔

ریڈ انڈین امریکیوں میں بھی اس عادت کے ہونے کی تصدیق مختلف دستاویزات سے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ برازیل کےOtomacs قبیلے کے لوگ خودکشی کرنے کے لیے مسلسل مٹّی کھانے لگتے تھے!۔ معروف مہم جو ڈیوڈ لوِنگ اسٹون نے زنجیبار کے غلاموں میں مٹّی کھانے کی پختہ عادت کا ذکر کیا ہے۔ انھیں clay-eatersکہا جاتا تھا مگر وہ مٹّی کے ساتھ ساتھ کوئلے،چونا، گھاس، پلاسٹر، رنگ اور کئی قسم کے مصالحے بھی کھاتے تھے۔

امیر امریکا کے غریب جنوبی علاقوں کے باشندے ابھی یعنی بیسویں صدی تک اسی عادت کا شکار رہے ہیں۔اور اب بھی ریاست جارجیا کی سفید چکنی مٹّی پیک صورت میں اسٹوروں میں بکتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مٹّی کھانے سے قوّتِ مردمی میں اضافہ ہوتا ہے، اسی لیے انسان (مطلب مردوں!)نے یہ عادت اختیار کی تھی۔ مگر عورتیں بھی تو کھاتی آئی ہیں اور اب بھی کھاتی ہیں؟ اس کے پیچھے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ حالہ عورتیں اس لیے مٹّی (ملتانی!)کھاتی ہیں کہ اس سے بچے کی پیدائش کا مشکل مرحلہ آسان ہوجاتا ہے!۔بہرحال آج بھی امریکا کے جنوبی حصوں کی دکانوں، دیہاتی بازاروں میں آج بھی خام اور پکی ہوئی مٹّی برائے فروخت  موجود ہوتی ہے۔

افریقا کے دوسرے ملکوں کیمرون، گیبون اور گنّی کے لوگوں میں بھی مٹّی کھانے کی عادت پائی جاتی ہے۔ مگر وہاں کے لوگ یہ چیز بھوک کی وجہ سے نہیں کھاتے بلکہ وہ ’منہ کا ذائقہ بدلنے‘ یا محض شوق کی وجہ سے کھاتے ہیں۔وہاںاس پروڈکٹ یعنی مٹّی کے مختلف نام ہیں، جن میں kaolin،kalaba،Attapulgiteیا پھر calabachop شامل ہیں۔وہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ مٹّی کھانے سے نظامِ انہضام مضبوط ہوتا ہے۔

مٹّی کھانے کی عادت صرف انسانوں ہی میں نہیں بلکہ کئی جانوروں، پرندوں اور کیڑوں میں بھی دیکھی جاتی ہے۔مگر وہ اس کو کئی بیماریوں کے علاج کے لیے کھاتے ہیں۔اس کے شواہد یونانی فلسفی اور طبیب Galenکے دوسری صدی عیسوی میں لکھے گئے جرنل میں ملتے ہیں۔اس کے مطابق کئی قسم کے ممالیہ، پرندے ، رینگنے والے جانور، توتے، تتلیاںاور دیگر مٹّی کو بطور دوا استعمال کرتے ہیں۔جو پرندے غلطی سے زہریلے بیج یا دوسری خطرناک خوراک کھالیتے ہیں، ان کو بھی self -medicationکے طور پر مٹّی کھاتے دیکھا گیا ہے۔یوگنڈا کے Kibale National Parkمیں چمپینزیوں کو  زہرخورانی کا شکار ہونے پر چکنی مٹّی چاٹتے دیکھا جاتا ہے۔

مختلف نسل کی چمگادڑیں اپنے جسم میں ضروری معدنیات کی کمی پوری کرنے کے لیے مٹّی کھانے پر انحصار رکھتی ہیں۔چمگادڑوں کی اس عادت پر تحقیق کرنے والے ماہرین دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سے پیٹ کے کیڑے بھی مرجاتے ہیں اور جسم میں موجود تیزابیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔

ویانا کی MedUni کے Center for Public Healthکی ماہر روتھ کیٹالک کہتی ہیں کہ براعظم افریقا میں 30 سے 80 فیصد لوگ عام قسم کی مٹّی کھاتے ہیں۔وہ روزانہ 100سے 400 گرام مٹّی کھاجاتے ہیں۔اس عادت کے اسباب پر اب تک تحقیق نہیں ہوئی، اس لیے کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ افریقی باشندے آخر کس وجہ سے مٹّی کو بطور غذا استعمال کرتے آرہے ہیں؟۔ ان سے جب پوچھا جاتا ہے تو وہ محض اتنا جواب دے پاتے ہیں کہ یہ عادت ان کے آباء و اجداد سے چلی آرہی ہے اور اب صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ موجودہ نسل کے لوگ عام کھانے کے بعد مٹّی کا ٹکڑا ضرور کھاتے ہیں۔ اس عادت سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ اس سے انھیں متعدی امراض نہیں چمٹتے اور ہر صبح وہ چاک و چوبند اٹھتے ہیں ۔ جب کہ انھی کے ہم وطن جنھیں مٹّی کھانے کی عادت نہیں ہے، وہ بیمار بیمار اور سست رہتے ہیں۔ صبح کو نیند سے بیدار ہونے کے بعد بھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کسلمندی میں بستر پر پڑے رہتے ہیں۔

افریقی مٹّی پر ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ اس میںبھاری دھاتوں کے اجزاء بہت زیادہ پائے جاتے ہیں، جیسا کہ سیسہ(Lead)، تانبہ، فولاد، میگنیشم اور پارہ وغیرہ۔ یہ دھاتی اجزاء انسانی صحت کے لیے نہایت مضر ثابت ہوتے ہیں۔سیسہ پیٹ میں جانے سے گردوں کو نقصان پہنچتا ہے اور دائمی قبض رہنے لگتا ہے۔اس کے علاوہ پِتا بھی تباہ ہوجاتا ہے۔

 حاملہ خواتین جب مٹّی کھاتی ہیں تو ان کے ہونے والے بچے مختلف امراض میں مبتلا ہوکر پیدا ہوتے ہیں۔اس لیے ان عادات پر تحقیق کرنے والے ماہرین اپنی رپورٹس میں ہر مرتبہ یہ سفارش کرتے رہتے ہیں کہ افریقی اور خاص کر کے ہیٹی کی خواتین اور بچوں کو مٹّی کھانے کی عادت پر قابو پانا    چاہیے ۔مگر کسی بھی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ جو غریب اور نادار لوگ بھوکے مرنے سے بچنے کے لیے خود مٹّی کی روٹیاں اور اپنے بچوں کو ایسے ہی  بسکٹ کھلانے پر مجبور ہیں، وہ اگر اس سے لاحق ہونے والے امراض سے بچنے کے لیے یہ مشق ترک کردیں تو پیٹ کیسے بھریں؟۔

ایک بات یہ سامنے آئی ہے کہ جو عورتیں مٹّی کھانے کی عادت میں مبتلا ہوتی ہیں، ان کے ہاں اولاد زیادہ پیدا ہوتی ہے مگر اس کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ ان کے بیشتر بچے جوانی کی عمر تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔  

حیرت کی ایک بات یہ بھی ہے کہ جو افریقی باشندے سو سوا سو سال پہلے نقل مکانی کر کے یورپ کے ملکوں میں آ بسے تھے، ان کی اولادوں کی اولاد یعنی موجودہ نسل، آج بھی مٹّی کھانے کی بد عادت ترک کرنے پر تیار نہیں۔ حالاں کہ انھیں یورپ میں اچھی خوراک میّسر بھی ہے۔

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کیمرون کی شیلا بتاتی ہے:

’’ میں جب پرائمری اسکول میں پڑھتی تھی، تب میری ایک خالہ مجھے مٹّی لانے بھیجتی تھیں۔ میں بہت طویل فاصلہ طے کر کے نیم پتھریلی زمین تک پہنچتی تھی اور وہاں کھدائی کرکے،سخت مٹّی کے کافی سارے ٹکڑے لے آتی تھی اور انھیں دیتی تھی۔ ایک بار جب میں واپس آرہی تھی تو مجھے خیال آیا کہ میں اس چیز کو چکھ کر تو دیکھوں کہ کیسی ہوتی ہے کہ میری خالہ اسے کھائے بغیر رہ نہیں پاتی۔ میں نے کپڑے کے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر سب سے چھوٹا ٹکڑا نکالا اور ادھر ادھر دیکھ کر منہ میں ڈال لیا۔ پھر اسے دانتوں سے کُترنا شروع کر دیا۔ مجھے بہت مزہ آیا اور اس طرح مجھے بھی مٹّی کھانے کی عادت پڑگئی۔بعد میںوہ مٹّی بستی کی دکانوں پر معمولی قیمت پر بکنے لگی تو میں اور میرے جیسی لڑکیاں دور جا کر اسے کھود کر لانے کی مشّقت سے بچ گئیں‘‘۔

شیلا اب پیرس میں ایک یونیورسٹی میں پڑھتی ہے اور اس نے بڑی مشکل سے یہ عادت ترک کی ہے۔

 امریکا کی ریاست جارجیا اپنی سفیداور چکنی مٹّی والی زمین(white dirt) کی وجہ سے مشہور ہے۔ وہاں بھی ہزاروں لوگ اس ’قدرتی نعمت‘ کو ضایع کرنے کے حق میں نہیں ہیں، اس لیے یہ سوغات پیکٹس کی صورت میںبرائے فروخت دستیاب ہے۔ان پیکٹس پریہ تنبیہہ پرنٹ ہوتی ہے:

Novelty Item: Not Intended for Human Consumption

مگر اس کے باوجود لوگ دھڑادھڑ خریدتے اور پھَکے مارتے پھرتے ہیں۔

سائوتھ لندن کے اسٹوروں پر بھی یہ مقبول ’آئٹم‘pregnancy clay کے نام سے چینی، پتی اور دالوں کی تھیلیوں کے ساتھ شیلف میں سجا ہوتا ہے۔

امریکا کی Cornell Universityمیں انسانوں کے مٹّی کھانے( geophagy)کی عادت پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر سیرا ینگ بتاتی ہیں کہ اس عادت کی جڑیں، انسانی شجرے میں ہزاروں سال پرانی ہیں۔سیرا ینگ بیس سال سے دنیا کی مختلف اقوام میں اس عادت سے متعلق ریسرچ کر رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ یہ عجیب عادت صرف افریقی ملکوں ہی میں نہیں بلکہ امریکا، ایران،ارجنٹینا، اردن، شام، برازیل، بھارت،پانامہ اور چین میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ لیکن یہ ہے کہ ان ملکوں میں زیادہ تر بچے اور عورتیں ہی اس میں مبتلا ہوتی ہیں۔ ان ملکوں کے علاوہ بھی کئی دوسرے دیسوں میں مٹّی کھانے کا مشغلہ موجود ہے مگر وہاں حاملہ عورتیں ہی یہ کرتی ہیں۔سیرا ینگ کہتی ہیں:

’’مجھے حیرت تب ہوئی ، جب نیو یارک کی ایک مشہور اوپیرا سنگر کو پرفارمنس کے دوران میں نے بیک اسٹیج جا کر پرس سے ٹشو پیپر میں لپٹی ہوئی کوئی چیز نکاکر کھاتے دیکھا۔جب میںنے قریب پہنچ کر اس سے بات کی تو پتا چلا کہ وہ معروف سیلیبریٹی بھی دن میں کئی بار مٹّی چکھنے کی عادت رکھتی ہے!‘‘۔ 

وہ مزید بتاتی ہیں:

’’ تنزانیا میں اس ریسرچ کے دوران میں حاملہ عورتوں سے بات کر رہی تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کمزوری دور کرنے کے لیے کون سی مقوی چیزیں کھاتی ہیں۔ وہاں کوئی دو درجن خواتین بیٹھی تھیں اور تقریباً سب نے بتایا کہ وہ دن میں تین چار بار مٹّی کھالیتی ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ جو مٹّی کھاتی ہیں، دکانوں پر ملتی ہے؟

’’نہیں، ہم تو اپنے گھروں کی کچی دیواروں سے مٹّی کھود کر کھالیتی ہیں!‘‘۔

سیرا کے مطابق کینیا میں دکانوں پر ’صاف ستھری، چھنی ہوئی‘مٹّی کے ایسے پیکٹ بکتے ہیں، جن میں ذائقے کے لیے چھوٹی الائچی اور سیاہ مرچ شامل ہوتی ہے۔

سیرا ینگ نے خود تجربہ کرنے کے لیے مٹّی کا ایک چھوٹا پیکٹ خریدا اور اسے کھول کر ذرا سا ٹکڑا توڑ کر منہ میں رکھا۔ وہ اس تجربے کو اس طرح بیان کرتی ہیں:

’’چکنی مٹی کے اس چھوٹے سے ٹکڑے نے میری زبان اور تالو کو خشک کردیا ان پر پیسٹ کی طرح ایسے جم گیا کہ مجھے الجھن ہونے لگی کہ اس سے میرا سانس نہ رک جائے ۔میں نے کئی بار کلی کی، برش سے منہ کو صاف کیا مگر یہ الجھن اور بے چینی دن بھر برقرار رہی‘‘۔ 

٭…٭…٭