انسانی تاریخ میں’’ریاست مدینہ‘‘کی تشکیل و ترتیب کے واقعہ کو ایک ایسے سیاسی معجزے سے تعبیر کیا گیا ہے، جسکی تشریح و تفسیر سے مفکرین و مؤرخین پوری طرح عہدہ برآ نہیں ہو سکے۔ تاریخ کی یہ ایک منفرد اور معتبر حقیقت ہے کہ وہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘جسکے اقتدارِ اعلیٰ کی حدود ابتدائی طور پر ، بہت مختصر اور محدود تھی، بتدریج ایسی ملک گیر ریاست میں تبدیل ہو گئی، جسکے جِلو میں پورا جزیرہ نما عرب سمٹ آیا،اور کچھ ہی عرصے،بلکہ چند ہی سالوں کے بعد وہ ایسی عظیم سلطنت اور آفاقی تہذیب کی صورت میں دنیا کے نقشے پراُبھری کہ دنیا کا کوئی تمدن اور نظام اسکا مقابلہ نہ کرسکا۔’’ریاستِ مدینہ‘‘کے ارتقاء اور اسکے عروج اور نقطۂ کمال کو سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ مکی عہدِ نبوی کے اُن پُر آزمائش اور مشکلات سے لبریز ایّام کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے، جس میں قریش کے بدترین رویّے اور انکی سخت ترین عداوت کے سبب،فوری طور پر، کوئی نیا سماجی اور سیاسی نظام تو معرضِ عمل میں نہ آسکا، تاہم اسلامی تعلیمات کے نقوش نے مکہ کی وادی میں ایک ایسے معاشرتی انقلاب کے امکانات ضرور پیدا کر دیئے، جسکے سبب دنیا کے مختلف خطّوں کے لوگ، اپنے قبائلی اور علاقائی بندھنوں سے آزاد ہو کر ، ایک نئی اخوت اور اجتماعیت میں ڈھل گئے۔ اسی مکی عہد کے تیرہ سالوں میں تربیت پانے والے عظیم المرتبت اور جلیل القدر افراد، عرب کے مختلف مقامات پر ، اس دینِ اسلام کے پُر جوش علمبردار ، مبلغ اور داعی بن کر سامنے آئے، جسکے نتیجہ میں یثرب مدینۃ الرسول بن گیا۔ ریاست مدینہ سے پہلے، صعوبتوں اور مشقتوں بھرا،تیرہ سالہ مکی دور ۔ جہاں اس عظیم قافلے کا اہم ترین پڑاؤ ’’دارِ ارقم‘‘میںتھا ،جو تاریخِ اسلام کی اوّلین وقف عمارت قرار پاسکتی ہے،جسکے مالک حضرت ارقم بن ابی ارقم ، جو سابقون الاولون میں سے، ساتویں، بعض روایات کے مطابق دسویں یا بارھویں خوش بخت تھے،جو نبی اکرم ﷺ کی غلامی میں آئے۔ محلہ بنو مخزوم میں آپکی کشادہ اور شاندار حویلی۔۔۔ جس کو بالخصوص مکی دور میں ایک ’’ تاریخ ساز‘‘حیثیت میسر آئی،جو قدیم شہر مکہ کے ایک اہم محلہ میں،دشمنِ اسلام عمرو بن ہشام، جو اس جاہلانہ معاشرے میں ابوالحکم، جبکہ نبوت و رسالت کے چشمہ رحمت سے محرومی کے سبب ’’ابوجہل‘‘قرار پایا، کے گھر کے سامنے تھی۔حضرت ارقم،قریش کے قبیلہ’’بنو مخزوم ‘‘کے ایک باہمت،مستعد اور پُرجوش جوان تھے،جنکا گھر، ’’دارارقم‘‘محض ایک حویلی یا عمارت ہی نہیں بلکہ تعلیم و تربیت کا ایک بنیادی مرکزاور ایک اہم پالیسی ساز ادارے کے طور پر،اسکی حیثیت اس قدر معتبر تھی،نبی اکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد بھی اسکے تسلسل کو باقی رکھا اور مدینہ منور ہ میں ایک قطعہ زمین کو مختص فرمایا کہ یہاں پر مدینہ منورہ کا ’’دارِ ارقم‘‘تعمیر کیا جائے،جو مسلمانوں کو مکہ مکرمہ کے دارِ ارقم کی یاد دلاتا رہے،کہ جب مسلمان کھُلے عام کہیں اکٹھے نہیں ہوسکتے تھے تو اس وقت’’دارِارقم‘‘ ایک ایسا مقام تھا،جہاں مخالفین کی نظروں سے اوجھل ہو کر تبلیغی، اصلاحی اور دینی سرگرمیوں کو جاری رکھا جاتا تھا۔ یہ مکی عہد کا اہم ترین مرکزِ تحریک و تربیت تھا،اسی مقام پر شورائیت کے امور انجام پذیر ہوتے،یقینا حبشہ کی طرف ہونے والی ہجرتوں کی حکمت عملی۔۔۔اور پھر عمرفاروقؓ کے قبولِ اسلام کا عظیم واقعہ بھی اسی اہم مرکز میں وقوع پذیر ہوا، جس سے ’’دعوتِ اسلامی‘‘ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی۔ یہ دارالشوریٰ اور دارالاسلام۔۔۔ جسکی ظاہری وسعتیں اور حدود و قیود کا تو شاید احاطہ ممکن ہو،مگر اسکے معنوی اور باطنی فیضان کو دائرہ تحریر میں لانایقینا ذرا مشکل ہو گا ۔ ویسے عربی میں’’دار‘‘ایسے حویلی نما گھر کو کہتے ہیں،جسکی چار دیواری بہت مضبوط اور حصار انتہائی قوی ہو۔جزیرہ نما عرب کی غالب اکثریت قبائلی اور خانہ بدوشانہ زندگی کی عادی تھی۔ شہری زندگی کا رواج کم تھا، اس خطے میں مکہ اور طائف دوبڑے شہر تھے، جن میں حرم کعبہ کے سبب مکہ بین الاقوامی شہر اور انٹر نیشنل ٹریڈ سے منسلک ہونے اور حج کے عظیم مرکز کے سبب ’’کاسمو پولیٹن سٹی‘‘تھا۔ یثرب کی بستیوں میں شہری رنگ تھا، مگر ابھی اُ سے ’’شہرِ رسولﷺ‘‘ہونے کی سعادت میسر نہ آئی تھی، اس لیے ابھی اسکی طرف اتنی توجہ نہ تھی۔ ان شہری آبادیوں میں ایسے بڑے گھر،جس میں کشادگی،مضبوط حصار،خواب گا ہیں یا رہائشی کمروں کے ساتھ،’’فرشی نشست‘‘کا بڑا ایریا بھی دستیاب ہو ، کے لیے ’’دار‘‘ کا لفظ استعال ہوتا ہے۔ جیسا کہ ابنِ منظور نے لسان العرب میں بھی لکھا کہ :’’جہاں لوگ محفوظ اور آزادانہ زندگی بسر کرسکیں‘‘، اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’دار‘‘کسی عام یا معمولی گھر کے لیے مستعمل نہ تھا، عربی کی اپنی فصاحت و بلاغت ہے، عام طور پر ہم دار ، بیت اور منزل کو ایک ہی معنی اور مفہوم میں بھی لے لیتے ہیں۔ لیکن ’’بیت‘‘محض اُسے کہتے ہیں جہاں شب بسری یعنی رات کا قیام ممکن ہو، جبکہ ’’منزل‘‘سے مراد وہ جگہ ہے جہاں پڑاؤ اور عارضی قیام کیا جا سکتا ہو۔ عربوں کے اندر کوئی باقاعدہ کیلنڈر نہ تھا، جس سے وہ سنین و شہور یا ماہ و سال یا وقت کا تعین کر سکیں۔ جو اہم واقعہ یا حادثہ رُونما ہوتا، تو اسی کو بنیاد بنا کر ، مختلف امور اور واقعات کا تعین کر لیا جاتا اور یہی چیز تاریخ کا نقطہ یا کیلنڈر بن جاتا، نبی اکرم ﷺ کی ولادتِ باسعادت سے پہلے، ابرہہ کا خانہ کعبہ پر حملہ ، اتنا بڑا واقعہ تھا کہ اس سال کو’’عام الفیل‘‘اور پھر اسکے وقوع پذیر ہونے سے،ایک کیلنڈر شروع ہو گیا، جیسے سیرت نگار لکھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی ولادت ابرہہ کے حملے سے تقریباً پچپن یوم بعد ہوئی، اسی طرح مکی عہد رسالت میں، دارِ ارقم میں نبی اکرم ﷺ کا نزول اور تشریف آوری بھی ایسی ہی اہمیت کی حامل تھی، جسکے سبب یہ بیان کیا جاتا تھا کہ یہ واقعہ دارِ ارقم سے پہلے کا ہے یا بعدکا۔ اسی مقام پر عرب و عجم یعنی تینوں براعظم ایشیا، افریقہ اور یورپ کے مسلمان بلال حبشیؓ اور صہیب رومیؓ بھی حاضر ہوئے۔ خلفائے راشدینؓ کے بعد بالخصوص عباسی خلفا اس انسٹیٹیوشن کی حفاظت پر کمربستہ رہے ۔ مکی عہد میں قریش نے جو مختلف ادارے قائم کر رکھے تھے، ان میں ایک اہم ترین ’’دارالندوہ‘‘تھا، جو اس مکی معاشرت میں، ’’پالیسی ساز‘‘حیثیت کا حامل تھا۔عرب کے اندر کوئی باقاعدہ گورنمنٹ نہ تھی،مختلف قبائل کو مختلف امور اور ذمہ داریاں تفویض تھیں۔ یہ ایک ’’گروپ گورنمنٹ‘‘تھی، جو دس خاندانوں کے سربراہان کی کونسل پر مشتمل تھی۔ قبیلہ کا سردار ان کی عزت، جان، مال کا محافظ اور اس کو مختلف امور میں ’’فیصلہ کن ‘‘حیثیت حاصل ہوتی، بالعموم قبیلہ کی سرداری کے لیے شجاعت ، بسالت ، سخاوت اور ذکاوت جیسی شرائط پیش نظر رکھی جاتیں، لیکن یہ کوئی ایسی اصولی بات نہ تھی اور نہ ہی سردار کے انتخاب کیلیے کوئی طریقہ کار مقرر تھا۔ سردار کو اپنے دائرہ کار میں عدالتی اور قانونی اختیارات میسر تھے، وہ جو فیصلہ کر دیتا ، قبیلہ کا کوئی فرد اس سے سرِمُو انحراف نہ کرسکتا ، گویا کسی فرد کی قبیلے کے بغیر، زندگی کا تصوّر ممکن نہ تھا۔ مکہ کے معروف دس قبائل میں، جو بنیادی طور پر ، قریش ہی کی ذیلی شاخیں تھیں، نے اپنی مشاورت کیلیے صحن کعبہ سے متصل اپنا پارلیمنٹ ہاؤس بھی بنا رکھا تھا، جسے’’دارالندوہ‘‘کہا جاتا تھا، جسمیں ہر قبیلے کی نمائندگی کیساتھ، بعض زیرک اور دانا افراد کو محض انکی قابلیت کی بنیاد پر بھی ممبربنایا جاتا رہا۔ یہی’’دارالندوہ‘‘اسلام،مسلمانوں اور پیغمبر اسلام ﷺ کیخلاف اوّلین خطرناک ترین مورچہ تھا،جہاں دن رات اس دین کو مٹانے اور نبی اکرم ﷺ کیخلاف ریشہ دوانیاں ہوتیں۔ اُن نامساعد اور کٹھن حالات میں بھی،باہمی مشاورت ،رابطہ،تعلیم وتبلیغ اور تربیت کے نظام کو مضبوط اور مستحکم رکھا گیا ،جس کیلیے’’دارِ ارقم ‘‘کو نہایت کلیدی مقام میسر تھا۔