قیام پاکستان سے لیکر آج تک ملک میں جمہوریت کے نام پر ہر سیاسی پارٹی نے اپنا منشور بنایا اقتدار کے مزے لیے لیکن جمہورت کے پودے کو مصبوط کرنے کے بجائے اس کو کمزور کیا اور حکومتی اختیارات کو اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی نے اپنے دور اقتدار میں جمہورت کی مضبوطی کے لیے ایسی قانون سازی نہیں کی جس سے عوام میں یہ سوچ ابھرے کہ ہم بھی کبھی اپنے ووٹ کے زریعے اپنے نمائندے منتخب کر سکیں گے اور جمہوری حکومت ہو گی ہر الیکشن کے بعد الیکشن ہارنے والی جماعت دھندلی کے الزام لگا کر سٹرکوں پر نکل آتی ہے اور الیکشن کمیشن کو رگ الیکشن کا ذمہ دار قرار دیتی ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں آل پارٹی کانفرنس جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے نہ ہو سکی ۔ذوالفقار علی بھٹو محمد خاں جونیجو نواز شریف اور بینظیر بھٹو دور کے اب عمران خاں بھی باقی حکمرانوں کی طرح ڈنگ ٹپائو حکومت کر رہے ہیں کیونکہ ان کا رونا ہے کہ مجھے دو تہائی اکثریت نہیں ملی۔ ممکن تھا کہ اگر مل جاتی تو یہ کچھ کرتے لیکن اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کو دو تہائی اکثریت ملی تو وہ بادشاہ بن گے اور جمہوریت کی بحالی کے بجاے اس پر چڑھ دوڑے اور امیرالمومنین بننے کی آوازیں اٹھننے لگیں لیکن کسی بھی حکمران کو جمہوریت کی بہتری کے لیے کام کرنے کی توفیق نہ ہوئی لیکن جب حکومت گرانے کی بات اپوزیشن کی طرف سے کی جاتی تو ہارس ٹریڈنگ کی جاتی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے چھانگا مانگا، مری اور سوات میں ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی کو بھاری رشوت دیکر محبوس کر کے ووٹنگ والے دن خچروں کی طرح ایوان میں لایا جاتا۔ تو یہ بس جمہوریت رہی جبکہ اب عمران خان نے الیکٹرونک مشین کے ذریعے شفاف الیکشن کرانے کے لیے تمام سیاسی پارٹی رہنماوں کو دعوت دی تو سب یک زبان بول رہے ہیں کہ اس سلسلہ میں ہم حکومت کی دعوت پر نہ جاہیں گے عمران خان نے جب اپوزیشن کی نیت کو بھانپا تو الیکٹرونک ووٹنگ کا آرڈیننس کے ذریعے اورسیز پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دے دیا اور دونوں آرڈیننس صدارتی حکم سے جاری کر دیئے اب اپوزیشن نے شور مچایا کہ یہ دھاندلی کا نیا طریقہ ہے جبکہ جمہوریت کی بحالی اور الیکشن کو بار بار متنازعہ قرار دینے کا تنازعہ آپس میں بیٹھ کر حل ہو سکتا تھا اگر الیکٹرک ووٹنگ نہ پسند ھے تو اور کوئی راستہ تو نکالتے لیکن اپنی اپنی ڈیرھ اینٹ کی الگ الگ مساجد ہیں کسی کو ملک وملت کے لیے بیٹھنا پسند نہ ہے جب کہ قوم اب بھی کسی مسیحا کی تلاش میں ہے جو ملک کو جمہوری اصولوں پر چلا سکے اب تو تجزیہ نگار جب جمہوریت کے بارے تجزیہ کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں ایوب خان ضیاء الحق اور جنرل مشرف نے اپنے اپنے دور حکومت میں اپنے آپ کو جمہوری کہنے والوں سے زیادہ جمہوریت کے لیے کام کیے۔ بلدیاتی نظام کو رواج دیا جبکہ عوامی امنگوں کے ترجمانوں نے جمہوریت کا گلہ دبایا، جس طرح اس حکومت نے پنجاب بلدیاتی اداروں کو توڑا اور ابھی تک الیکشن کی تاریخ تک نہیں دی جا رہی اب جن نادیدہ قوتوں کا نام لیا جاتاہے کہ ہر الیکشن میں ان کا رول ہوتا ہے تو اس کا حل بھی سیاست دانوں آپس میں مل بیٹھنے میں ہے۔ عوام بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں لیکن حکومت اور آپوزیشن ایک دوسرے کو ڈاکو ثابت کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھی ہیں حکومت کہہ رہی ہے شہباز شریف کو برطانیہ جانے نہ دیں گے۔ مریم نواز اور رانا ثناء اللہ کہتے ہیں روک سکتے ھو تو روک لو ۔لیکن چینی آٹا اور کچن آئٹمز کی خریداری کے لیے لمبی لائنیں کس کو نظر نہیں آتیںْ عمران خان روزانہ کہتے ہیں کہ شریفوں کو نہیں چھوڑوں کہ ان کو عوام میں سے کسی نے کہا ہے کہ ان کو چھوڑ دو اب جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کریںآپ کو کوئی نہیں روکے گا۔