پاکستان میں چونتیس وفاقی وزراء ، سات وزرائے مملکت، وزیراعظم کے چار ایڈوائزرز اور اکتیس سپیشل اسسٹنٹ وزیراعظم پاکستان کی معاونت کر رہے ہیں۔پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ اور صرف وفاقی وزراء ، مشیران اور ایڈوائرز حضرات کی تعداد ستر کا ہندسہ عبور کرنے لگی ہے۔ بھارت کی آبادی ایک ارب پچاس کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ وفاقی وزرا ء کی تعداد کل اٹھائیس جبکہ وزراء مملکت کی تعداد انچاس ہے۔ چین دنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے جس کی کل آبادی قریباََ دو ارب ہے۔ چین میں وفاقی وزراء کی کل تعد اد اکیس اور تین کمیشن کام کررہے ہیں۔ بھارت میں وزراء کو پابند کیا گیا ہے کہ جب وہ گھر سے پارلیمنٹ میں تشریف لائیں تو پرانی گاڑی کا استعمال کریں۔ 1952ء کے ایکٹ کے مطابق وفاقی وزیر کو تین ہزار، کیبنٹ ممبر کودو ہزار، وزیر مملکت کو ایک ہزار جبکہ ڈپٹی منسٹر کو چھ سو روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی رہی جبکہ 2010 ء میں ایک ترمیم کے ذریعے وزرا ء کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا اور وزیر کی تنخواہ پچاس ہزار روپے ماہانہ جبکہ حلقہ الاؤنس کی مد میں چالیس ہزار روپے ماہانہ کا لاؤنس دیا جانے لگا۔ دوسرے الفاظ میں آج بھی ایک بھارتی وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے سے کم ہے جبکہ چین میں ایک وزیر کی تنخواہ بھارتی وزیر سے زیادہ اور پاکستانی وزیر کی تنخواہ اور سہولیات سے کم ہے۔ اسی طرح پاکستان میں جائز تنخواہ اور سہولیات کا تخمینہ لگایا جائے تو ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس سوا اور ساڑھے چار لاکھ میں پڑتا ہے۔ اسی حساب سے دیکھا جائے تو انسپکٹرجنرل آف پولیس، جج، جرنیل اور دیگر انتظامی عہدوں پر کام کرنے والے معززان کروڑوں نہیں بلکہ اروبوں روپے میں پڑتے ہیں۔ تنخواہوں اور سہولیات کی مدد میں حکومتیں ہر بجٹ میں غیر ترقیاتی مد میں رقم کا بڑا حصہ مختص کرتی ہیں جو تمام عہدیداران کو ریاستی امور سرانجام دینے کی مد میں اْن کی تنخواہوں،گاڑیوں، نوکرچاکروں، پیٹرول، گھروں، گھریلو بجلی، گیس، پانی، مرمت اور دیگر کاموں پر اْٹھنے والے اخراجات کی صورت میں فراہم کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس طرح کا سوال کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ہم نے یہ وطیرہ بنالیا ہے کہ یہاں سوال نہیں اْٹھایا جاتا بلکہ سوال کرنے والا کو اْٹھایا جاتا ہے۔ اگر وہ بیرون ِ ملک چلا جائے تو سوال کرنے والے کے خاندان کو اْٹھایا جاتا ہے یا پھر اْنہیں جھوٹے مقدمات میں الجھایا جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو ذہن ورطہ ِ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ اس قدر بھاری بھرکم تنخواہوں، سہولیات و مراعات لینے کے باوجود ہم ترسیل ِ خدمات میں سہل اندازی اور سست روی کا کیوں شکار ہیں؟ یا پھر جائز کام اور فرائض ِ منصبی کی سرانجام دہی میں ناجائز مفادات کا تقاضا اور غیر قانونی مراعات، دھن دولت بطور رشوت کیوں طلب کی جاتی ہے؟ کیا واقعی ہمارے آئنی، انتظامی اور سرکاری شعبہ جات کے سربراہان و ملازمین اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ اْنہیں نعوذ بااللہ خوف ِ خدا نہیں رہا کہ اس دنیاوی زندگی کے بعد انہیں رب العزت کے حضور اپنے ہر عمل کا ٹھیک ٹھاک جواب دینا ہوگا اور وہاں کوئی سفارش کام نہیں آئے۔خصوصاََ حقوق اللہ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ عزوجل ایک ذرہ جتنا بھی معاف نہیں فرمائیں گے۔ اس حقیقت سے آگاہی کے باوجود غلط، غیر آئینی و غیر قانونی کام کرنا، رشوت لینا یا ناجائز طریقوں سے دولت اِکھٹا کرنا یقیناً حیران کرنے دینے والے اعمال ہیں۔ بہرحال جس انداز میں نااہل، لالچی، مفاد پرست اور بدعنوان افراد نے اس ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے وہاں سے نکلنا ایک معجزے سے کم نہیں ہوگا۔ ایسی صورت حال میں ہمیں خود چاہئے کہ فوراً اپنے ریاستی اخراجات میں کمی لائی جائے وگرنہ ہمیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ایسی شرائط بھی ماننا ہونگی جوبراہِ راست ہماری خودمختاری اور سالمیت کو خطرات سے دوچار کردیں گے۔ پچھلے دنوں سری لنکا کے حوالے سے ایک خبر نظر سے گزری جس کے متن کے مطابق سری لنکا جب دیوالیہ ہوا تو آئی ایم ایف کی جانب سے پہلی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ وہ دیگر اخراجات میں کٹوتی کے ساتھ ساتھ فوج کے حجم میں بھی کمی کرے۔ چاہتے نہ چاہتے ہوئے سری لنکن حکومت کو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کا یہ فیصلہ ماننا پڑا یوں حکومت نے اعلان کیا کہ اگلے سال تک فوجیوں کی کل تعداد میں ایک تہائی تک کمی کی جائے گی جو کم ہوتے ہوتے 2030 ء تک اس حدتک پہنچ جائے گی کہ سری لنکن فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تک محدود ہوجائے گی۔ جب سری لنکا کا دیوالیہ نکلا تو قرض فراہم کرنے والے ممالک نے بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی اور فوری قرضوں کی فراہمی میں ہچکچاہٹ کا مظاہر کیا۔ روس اور چین نے قرضوں کی فراہم میں سست روی دکھائی جس سے سری لنکا میں جاری عدم ِ استحکام میں مزید اضافہ ہوا۔ واضح رہے کہ سری لنکا کی مسلح افواج کا حجم 2017ء اور 2019ء کے درمیان تین لاکھ سترہ ہزار تھی جو ورلڈ بینک کے مطابق 2009ء میں ختم ہونے والے لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم کے ساتھ پچیس سالہ طویل تنازع کے دوران اس سے بھی کہیں زیادہ تھی۔ دارالحکومت کولمبو میں مقیم تھنک ٹینک ویریٹ ریسرچ کے مطابق سری لنکا کے کل اخراجات میں دفاعی شعبے کا حصہ 2021ء میں جی ڈی پی کے دو اعشاریہ اکتیس فیصد پر پہنچ گیا تھا گو 2022ء میں اِس میں کچھ کمی آئی تھی۔ سری لنکا کے وزیر دفاع پریمیتھا بندارا تھینکون کا کہنا ہے کہ ملک کو اس وقت سات دہائیوں کے دوران پہلے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لئے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یقین جانئے جس انداز میں ہم چاروں اطراف سے خطرات سے دوچار ہیں اپنی افواج میں کمی کرنے کا مطلب اپنی خودمختاری پر سمجھوتا کرنا ہوگا۔ اس لئے ابھی سے ہوش کے ناخن لیں اور ریاستی اخراجات میں کمی کریں کیونکہ یہ ملک قائم ہے تو ہمارا وجود قائم ہے۔