اسلام آباد(خبر نگار)سپریم کورٹ نے ریفرنس کیس کی سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ اگر صدارتی ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے تو یہ نکتہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے بھی اٹھایا جاسکتا ہے ۔دوران سماعت دس رکنی فل کورٹ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریما رکس دیئے کہ صدارتی ریفرنس پر رائے دینا سپریم جوڈیشل کونسل کی آئینی ذمہ داری ہے لیکن معاملہ سپریم کورٹ میں لانے سے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی منجمد ہوگئی ہے ۔جسٹس منیب اختر نے کہا اٹھارویں ترمیم کے بعد صورتحال بد ل گئی ہے ،اب کونسل کو خود سے انکوائری کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے ۔ صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں کی سماعت پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا آئین کاآرٹیکل 209 سپریم کورٹ کے جائزہ لینے کے اختیار کو ختم نہیں کرتا،ریفرنس بھیجنے میں خلاف ورزی کا جائزہ صرف سپریم کورٹ لے سکتی ہے کیونکہ کونسل کے پاس صدر مملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ افتخار چودھری کیس میں کہاں لکھا ہے کہ کونسل ریفرنس دائر کرنے کے پہلے کے مراحل کا جائزہ نہیں لے سکتی؟،جس جج کیخلاف ریفرنس ہو وہ سوالات کیسے اٹھا سکتا ہے ؟۔جسٹس فیصل عرب نے کہا سپریم جوڈیشل کونسل بلاوجہ کسی جج کو ہٹانے کا نہیں کہہ سکتی۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ منیر اے ملک کا 1971 کے فل کورٹ ریفرنس کا حوالہ بلاشبہ یہ ایک سیریس ایشو ہے ، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف جج 184/3 کی درخواست دے سکتا ہے ۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ یہ بتائیں ریفرنس میں کہاں بدنیتی کی گئی ہے ؟ جس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ صدر مملکت نے تسلیم کیا کہ انھوں نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کیا ۔عدالت نے سماعت ملتوی کرتے ہوئے منیر اے ملک کو کہا کہ وہ اگلی سماعت پر بتائیں کہ کیا حکومت ریفرنس کے معاملے میں قانون سے ہٹ کر کسی فورم سے انکوائری کراسکتی ہے ۔