یہ مصرع کہ ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا جناب منیر نیازی نے نہ جانے کس پیرائے میں کہا ہو گا مگر یہ آج کی ریلوے پر یوں صادق آتا ہے کہ ادھر ریل کی سیٹی بجتی ہے ادھر انجن چھک چھک کرتا ہے اور ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھے مسافر کا دل دھک دھک کرتا ہے کہ خدا خیر کرے۔ ہر مسافر خطرے میں سفر کرتا ہے۔ گزشتہ دو روز کے دوران جناب چیف جسٹس نے ریلوے اور اس کے وزیر کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے وہ ایک طرف ریلوے کی سچی تصویر ہے اور دوسری طرف ریل گاڑی کے مسافروں کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ہر روز حکومتیں گرانے اور بنانے والوں سے اپنی وزارت نہیں چل رہی‘ پورا محکمہ سیاست میں پڑا ہوا ہے۔ مسافر اور مال گاڑیاں چل رہی ہیں نہ ریلوے اسٹیشن ٹھیک ہیں۔ جناب چیف جسٹس نے شیخ رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا کچا چھٹا ہمارے سامنے ہے۔ ایسی ریلوے بند ہو جانی چاہیے۔70افراد جلنے پر آپ کو استعفیٰ دینا چاہیے تھا۔ آئیڈیل صورت حال تو یہ ہوتی کہ تیز گام کے قیامت خیز حادثے کے بعد جناب وزیر اعظم شیخ رشید سے استعفیٰ مانگتے‘ پارلیمنٹ انہیں کٹہرے میں کھڑا کرتی اور پاکستانی قوم ان کا احتساب کرتی مگر جب ایسا نہیں ہوا اور شیخ رشید نے ہنس ہنسا کر معاملہ ٹال دیا تو پھر عدالت عظمیٰ کو شیخ صاحب سے جواب طلب کرنا پڑا۔2019ء حوادث کے اعتبار سے بدترین سال تھا۔ اسی سال کے دوران شیخ رشید صبح و شام نجومی سیاست دان کی حیثیت سے ٹیلی ویژن اسکرینوں پر جلوہ گر ہوتے رہے اور مستقبل کے حوالے سے سیاسی پیش گوئیاں کرتے دکھائی دیتے رہے۔ میں نے ریلوے کے ماضی قریب میں ریٹائر ہونے والے ایک دو دوستوں سے رابطہ کیا جو کلیدی عہدوں پر فائز رہے تھے تاکہ حقیقی حال تک رسائی ہو سکے۔ ایک دوست نے بتایا کہ ریلوے کی مثال ایک خستہ حال بوسیدہ عمارت کی سی ہے۔ اس وقت ریلوے کا سب سے بڑا مسئلہ انتظامی ہے۔ ریلوے کے چیئرمین‘ جنرل منیجر اور اس شعبے سے منسلک محکموں کے سربراہ تربیت یافتہ نہیں۔ جناب چیف جسٹس نے شیخ رشید کو حکم دیا ہے کہ وہ 12فروری کو وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور سیکرٹری پلاننگ کے ساتھ پیش ہو کر ریلوے کی بہتری کے بارے میں باقاعدہ بزنس پلان پیش کریں۔ کسی طرح کا ہوم ورک نہ ہونے کے باعث گھبرائی ہوئی حکومت کیا پلان دے گی۔ وقتی لیپا پوتی اپنی جگہ مگر 1970ء سے ریلوے کا گراف مسلسل نیچے آ رہا ہے۔1947ء سے لے کر 1970ء تک ریلوے منافع میں جا رہی تھی مگر پچاس برس سے زیادہ تر خسارہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے جبکہ انڈیا میں آج بھی ریلوے کا معیار بہت اچھا ہے اور یہ منافع دے رہی ہے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ 1970ء تک ریلوے کی اجازت کے بغیر پاکستان میں کوئی بس نہیں چل سکتی تھی اس زمانے تک ریلوے کو ٹرانسپورٹ بجٹ کا 70فیصد تک ملتا تھا اور سڑکوں کے حصے میں تقریباً15فیصد آتا تھا۔ پہلے ریلوے کے اعلیٰ عہدے داران بھی پروفیشنل ہوتے تھے مگر 1995ء کے بعد ان کی جگہ بیورو کریسی کے افسروں اور سیاست دانوں نے لے لی۔بھارت میں ریلوے کی کامیابی کا سبب یہ بھی ہے کہ وہاں اس محکمے کو مکمل خودمختاری حاصل ہے جیسا کہ پاکستان میں ماضی میں ہوتا تھا۔ اگرچہ پاکستان میں بہت اچھی سڑکیں بن گئی ہیں جس پر لگژری بسیں چلتی ہیں مگر مسافر آج بھی ٹرین سے سفر کرنا پسند کرتے ہیں مگر جب وہ آئے روز گاڑیوں کے حادثات اور ریلوے کی بدنظمی کو دیکھتے ہیں تو وہ ریل گاڑیوں سے دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، یوں ریلوے کی آمدن کم ہو رہی ہے۔ موجودہ صورت حال میں ریلوے کے لاہور تا کراچی اور لاہور تا راولپنڈی‘ پشاور اور فیصل آباد روٹوں سے منافع ہوتا ہے جبکہ باقی تمام برانچ لائنوں والی ریل گاڑیاں خسارے میں جا رہی ہیں۔ ریلوے کے گھاٹے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ دنیا میں مال بردار گاڑیاں زیادہ سے زیادہ منافع کماتی ہیں جیسے مسافر گاڑیوں کے معیار اور سہولتوں پر خرچ کیا جاتا ہے مگر یہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ جہاں تک عرصہ طویل کا تعلق ہے تو اس کے لئے حکومت کو بہترین ریلوے سروس والے ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر وہ کام تو فی الفور کر لینے چاہئیں جن پر کوئی بہت بڑا خرچہ نہیں آتا۔ جیسے مینوئل نظام کی جگہ کمپیوٹرائزڈ نظام لایا جائے۔ ریلوے ٹریک کی بتدریج تبدیلی کا عمل بھی شروع کیا جائے۔ریلوے کو اس کی اٹانومی لوٹائی جائے۔ ٹرانسپورٹ بجٹ میں سے ریلوے اور سڑکوں کے بجٹ کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔پاکستان‘ ایران اور ترکی کے درمیان ریلوے گاڑی کا پراجیکٹ برسوں سے منظور شدہ ہے اور ایران اور ترکی نے اپنی طرف انتظامات مکمل کر لئے ہیں مگر ہماری ریلوے اپنے بھنور میں ہی گرفتار ہے۔ اس سہ ملکی منصوبے کے لئے ہمیں جلد سے جلد اپنے حصے کا کام انجام دینا چاہیے۔ ان گاڑیوں سے سیاحت کو فروغ ملے گا اور پاکستان ریلوے خسارے سے منافع میں آ سکے گی۔ اگر وزیر ریلوے بلند بانگ دعوئوں اور سیاسی پیشین گوئیوں کا کلچر ترک نہیں کرتے اور اصلاح احوال کا کوئی فوری پروگرام اختیار نہیں کرتے تو پھر پاکستان ریلوے مسافروں کے لئے ایک ڈرائونا خواب ہی رہے گی۔ ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا