وزارت خزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ پٹرول کی قیمت میں 5 روپے فی لٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ پٹرول کی نئی قیمت 123روپے 30 پیسے فی لٹر ہوگئی۔ ڈیزل کی قیمت 5 روپے ایک پیسہ فی لٹر اضافے کے بعد 120 روپے 4 پیسے فی لٹر مقرر کی گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی قیمت میں 5 روپے 46 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز اوگرا کی طرف سے بھیجی گئی سمری میں پٹرول کی قیمت میں ایک روپے اضافہ کی سفارش کی گئی تھی۔لیکن وزارت خزانہ نے اس کے بر عکس 5روپے اضافہ کیا ہے ۔ تین برسوں میں موجودہ حکومت نے مہنگائی سے عوام کی چیخیں نکلوائی ہیں۔اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ ایک ہفتے میں کھانے پینے اور روزمرہ اشیاء کی 24 قیمتوں میں 23 فیصد اضافہ عوام سے ظلم، زیادتی اور بدترین استحصال ہے، ایک ہفتے میں مہنگائی کی اوسط شرح 13.64 فیصد ہونا بھی حکومتی رٹ قائم نہ ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہے۔ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 6سے8فیصد اضافے کا امکان ہے ۔جس کے بعدٹرانسپورٹس کے ساتھ جڑی ہوئی ہر چیز کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا ۔ پہلے ہی مہنگائی کی شرح 17.02 فیصد ہونے سے غربت میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، انڈے ، گھی، کوکنگ آئل، دال، لہسن، دودھ، دہی، چاول، گوشت کی قیمتوں میں مزید اضافہ عوام کی برداشت سے باہر ہے، گھی کی قیمت گزشتہ سال کے مقابلے میں 41 فیصد، کوکنگ آئل 37، چکن 39 فیصد مہنگا ہونا ظلم کی بدترین شکل ہے۔ بجلی گزشتہ سال کے مقابلے میں 47 فیصد اورایل پی جی 46 فیصد مہنگی ہوئی جو انتظامی نااہلی ہے۔اگر دیکھا جائے توتین سال میں موجودہ حکومت نے مہنگائی کے ظلم سے عوام کی صرف چیخیں نکلوائی ہیں، موجودہ حکومت نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا ۔ ادارہ شماریات کے مطابق جون کی نسبت جولائی میں مہنگائی 0.6 فیصد بڑھی۔ ماہانہ بنیادوں پر ٹماٹر17.84 ، سبزیاں 12.54فیصد مہنگی ہوئیں۔ آلو کی قیمت میں 1.84 ،خوردنی تیل و گھی کی قیمت میں 1.75فیصد اضافہ ہوا۔دودھ 1.94فیصد اور چینی 1.36فیصد مہنگی ہوئی۔اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں مہنگائی کی سالانہ شرح8.4 فیصد رہی ہے۔ موجودہ حکومت کے تین سالہ دور میں مہنگائی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے، تو دوسری جانب آبادی کے مختلف طبقات کی آمدن کم ہوئی ہے۔ اگر کورونا کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے تو ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی نے بھی پاکستانیوں کی فی کس آمدنی کو شدید متاثر کیا ہے۔گھی، چینی اور آٹے کی قیمت میں تین سال میں اضافے کی وجہ سے ان کا گھریلو بجٹ بْری طرح متاثر ہوا ہے۔ 2018 ء میں چینی کی قیمت 55 سے 60 روپے کے درمیان تھی، اب تین سال کے بعد انھیں چینی 110 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔ 2018 ء میں 37 روپے فی کلو کے حساب سے مل کا آٹا تھا،جو اب 52 سے 53 روپے کا مل رہا ہے۔ گھی کا ایک لیٹر کا پیکٹ180 روپے کا تھا، جو عوام آج 340 روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔ عالمی سطح پر آٹے، گھی اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ داخلی سطح پر پرائس کنٹرول کے کمزور نظام اور ڈالر کی قیمت میں ہونے والا مسلسل اضافہ بھی بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ ہے۔ اگر صرف آٹے، گھی اور چینی کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو لیا جائے تو یہ تقریباً 50 فیصد تک ہے۔مہنگائی کے مقابلے میں اگر آمدن کو دیکھا جائے تو تین برس میں 16 سے 20 فیصد آمدنی بڑھی ہے تاہم دوسری جانب جب مہنگائی کی شرح دیکھی جائے تو یہ 35 سے 40 بڑھی ہے۔ اس عرصے میں ڈالر کی قیمت میں 80سے85 فیصد اضافہ ہوا اور جب اس اضافے کو پاکستانی روپے میں لیا جاتا ہے تو اس سے پاکستانیوں کی فی کس آمدن میں کمی واقع ہوئی۔ اس عرصے میں عالمی سطح پر اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوا تاہم پاکستان میں اس اضافے کا اثر دگنا اس وجہ سے ہوا کہ ہم پام آئل کے ساتھ اب گندم اور چینی بھی ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے درآمد کر رہے ہیں ۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا نظام ہی نہیں ،پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا کام ناجائز خوری کو روکنا ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا مکینزم ہی موجود نہیں ۔ایک عرصہ قبل پرائس کمیٹیاں بہت مؤثر انداز میں قیمتوں کی نگرانی کرتی تھیں،اگر حکومت اب بھی مہنگائی کنٹرول کرنا چاہتی ہے تو اسے پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا نظام فعال بنانا ہو گا ۔پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ بھی ہر چیز کی قیمت میں اضافے کا سبب بنتا ہے ، اس لیے حکومت ایک عرصے تک پٹرول کی قیمتوں کو منجمد کر کے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بھی کمی لائے ۔ غریب طبقے کو آٹے، چینی اور گھی کی قیمتوں میں ریلیف دینے کاطریقہ ان اشیاء پر لگنے والے ٹیکسوں کو ختم کر دیا جائے ۔صرف یوٹیلٹی سٹورز پر اشیاء پر سبسڈی سے کام نہیں چلے گا کیونکہ وہاں سے تو صرف 25فیصد طبقہ ہی مستفید ہوتا ہے ۔اس لیے عام عوام کو ریلیف پہنچانے کا طریقہ ٹیکسز کا خاتمہ اورسبسڈی ہے۔