اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمٰی نے صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ یہ ایک عام سائل کا نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ایک جج کا مقدمہ ہے جسے جلد نمٹانا ضرروی ہے ۔دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کہا جارہا ہے کہ یہ کیس سپریم کورٹ کا ٹرائل ہے ہم بھی اسے دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ جسٹس منیب اختر نے درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل سے کہا کہ درخواست میں ایک نکتہ جج کی جاسوسی کرنے کا ہے اس لئے وہ اپنے موکل سے معلوم کرے کہ کیا انھوں نے یا ان کی اہلخانہ نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے بعد اور ان کے خلاف شکایت درج ہونے تک کے عرصہ کے درمیان کبھی برطانیہ کا سفر کیا ؟۔پیر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بینچ نے درخواستوں کی سماعت کی تو وکیل حامد خان نے روسٹرم پر آکر کیس کی التوا کی استدعا کی اور کہا کہ سپریم کورٹ بار کے الیکشن اور سیاسی صوتحال کے باعث سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی جائے ۔عدالت نے استدعا مسترد کردی۔اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بھی التوا کی مخالفت کردی۔منیر اے ملک نے دلائل کا آغازتے ہوئے کہا جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے 2017میں کوئٹہ میں ایک جائیداد فروخت کرکے کچھ رقم اپنی بیٹی اور داماد کو دی کیونکہ انھوں نے لاہور میں مکانخریدنا تھا جس کے لئے ان پاس رقم کم تھی،وحید ڈوگر کی جانب سے آن لائن رجسٹری کی کاپی فراہم کی گئی۔بیرسٹر نسیم کو سارے معاملے کی کھوج لگانے کا ٹاسک دیا گیا، معاملے میں ایسٹ ریکوری یونٹ اور ایف آئی اے نے جج کے خلاف انکوائری پہلے کی اور وزیر اعظم کو بعد میں بتایا گیا۔دلائل پر ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ریفرنس میں دیانتی اور کرپشن کا الزام نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لگتا ہے کہ ایف آئی اے نے ٹھوس ثبوت کے بغیر مفروضے پر یہ اخذ کرلیا کہ بیرونی ملک جائیداد جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی ہے ۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ ابھی تک یہ نہیں پتا لگا سکے کہ شکایت کنندہ نے کیسے پتا لگایا، دوسرا یہ کہ جو جائیداد بتائی گئی ہے وہ درخواست گزار کی جانب سے تسلیم کی گئی ہے ؟۔ عدالت نے قرار دیا کہ آج ساڑھے گیارہ بجے اور بدھ کو صبح کیس کی سماعت کی جائے گی ۔