23 مارچ 1940ء کو مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل خود مختار ریاستوں کے قیام کی قرادادپیش کی گئی تو منصوبے میںانسانی ہجرت کا تصور موجود نہیں تھا۔’ قراداد لاہور ‘سے تقریباََ دو ہفتے بعدسکھوں نے بھی کانگر س کی ہم نوائی میں متحدہ ہندوستان اور بصورتِ دیگر مذہب کی بنیاد پر پنجاب میںالگ سکھ ریاست کے قیام کا مطالبہ کردیا۔ مارچ 1947ء تک پنجاب کے دیگر علاقوں کی طرح راولپنڈی شہر میں بھی مذہبی قومیتوںکے باہمی تعلقات میں شدیدتنائو آچکا تھا۔6 سے 13مارچ کے درمیان کہوٹہ کے نواح میں سکھ آبادی والے دیہات فساد ات کی لپیٹ میں آگئے۔اسی دوران ہزارہ سے نکالے گئے سکھوں کے قافلے بھی مشرقی پنجاب پہنچے توپنجاب کی تقسیم آسمان پر صاف لکھی نظر آنے لگی ۔ مئی1947 ء میں لارڈ مائونٹ بیٹن کی زیرِصدارت پنجاب کی تقسیم یا اسے متحدرکھنے پر غور کرنے کیلئے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ مسلم لیگ کے وفد کی قیادت قائدِ اعظم کر رہے تھے ، جبکہ سکھوں کی نمائندگی کے لئے گیانی کرتار سنگھ، ماسٹر تارا اور مہاراجہ پٹیالہ موجود تھے۔ کانفرنس میں قائد اعظم نے ذاتی طور پر سکھ وفد کو پاکستان میں شمولیت کی صورت میں ان کی ہر شرط قبول کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ناصرف یہ کہ سکھ رہنمائوں کے سامنے کاپٹک عیسائیوں کو آزادمصر میں حاصل خود مختاری کی مثال رکھی گئی ،بلکہ مہاراجہ پٹیالہ کی قیادت میں ایک ایسی سکھ ریاست کے قیام کو قبول کرنے کا عندیہ بھی دیا گیاکہ پاکستان کا حصہ بننے کی صورت میں جو اپنی ریاستی فوج تک رکھنے کی حقدار ہوتی۔3جون کو برطانوی پارلیمنٹ سے منظو رہونے والے تقسیم ہند پلان کے مطابق بنگال اور پنجاب کی تقسیم اور غیر مسلم اکثریتی علاقے کو ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کا حق دیا گیا تو قائد اعظم نے ایک بار پھر سکھوں کو پاکستان میں شمولیت کی دعوت دی۔ تاہم سکھوں نے کانگرس کی حمایت کے ساتھ بھارت کا انتخاب کیا۔ مائونٹ بیٹن کی سرپرستی میں نہرو اور سردار پٹیل ہندوستان کی سینکڑوں چھوٹی بڑی خود مختار ریاستوں کو یکے بعد دیگرے ہڑپ کرتے ہوئے بھارت کا حصہ بنا چکے تو معاملہ پانچ ریاستوں پر آکر رک گیا۔ان ریاستوں میں سے ایک مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کے ہندو مہاراجہ نے بظاہرخود مختار رہنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ اپنی یادداشتوں میں مائونٹ بیٹن دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مہاراجہ کشمیر کو کسی ایک ریاست میں شامل ہونے کے لئے قائل کرنے کی مسلسل کوششیں کرتے رہے، تاہم واقعات کا تسلسل ثابت کرتا ہے کہ درحقیقت وہ کشمیر کا الحاق ہندوستان کے ساتھ ہی چاہتے تھے۔ پنجاب کی تقسیم کے لئے برطانیہ سے ایک ایسے شخص کو درآمد کیا گیا جو پنجاب تو درکنار،خود ہندوستان کی سر زمین سے قطعی نا بلد تھا۔ تاریخی طور پر گورداس پور سے لے کر جنوب میں کاٹھیا وار تک کھنچی گئی لکیر کے بائیں جانب شمالی ہندوستان (موجودہ پاکستان) صدیوں سے معاشرتی، معاشی اور جغرافیائی لحاظ سے ایک قدرتی اکائی ہے۔تاہم مائونٹ بیٹن کے ایما پرہی ریڈ کلف کمیشن نے گورداس پور کی تین تحصیلیں بھارت کے حصے میں ڈال کر اُسے کشمیر سے جوڑ دیا۔ 34 ملین کی آبادی والے پنجاب کی تقسیم کے نتیجے میںسرحد کے دونوں اطراف لگ بھگ 15 ملین پنجابی ہجرت پر مجبور ہوئے۔ دس لاکھ کے قریب قتل ہوئے۔ 80 ہزار عورتیں عصمت دری کا شکار ہوئیں۔ پاکستانی پنجاب سے غیر مسلموں کے قافلے دہلی پہنچے تو ان کی آباد کاری کے لئے ایک منظم منصوبے کے تحت سردار پٹیل کی خاموش تائید کے ساتھ شمالی ہندوستان ، بالخصوص دہلی میںآباد مسلمانوںکو پاکستان ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ جو تیار نہ ہوئے فسادات میں ان کی املاک جبراََ چھین کر انہیں لال قلعے میں محصور کر دیا گیا۔ بہیمانہ نسل کشی سے متوقع نتائج کے حصول کے بعد وزیرِا عظم نہرو ،سردار پٹیل کو لے کر لارڈ مائونٹ بیٹن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے ملک کانظم و نسق سنبھالنے کی درخواست کی۔ یوں چند روز پہلے آزاد ہونے والے بھارت میں گاندھی جی کی آشیر باد کے ساتھ ایک حاضر سروس جرنیل کی حکمرانی قائم ہوگئی ۔ بظاہر مائونٹ بیٹن کی سربراہی میں حکومت کے قیام کا مقصد ملک بھر میں پھیلے فسادات پر قابو پانے کے لئے تھا، تاہم بعد کے واقعات ثابت کرتے ہیں کہ بندوبست کا بنیادی ہدف برطانوی انتظامی اور فوجی افسروں کو بروئے کار لاتے ہوئے، انڈین آرمی کے ذریعے کشمیر پر قبضہ جمانا تھا۔ 26 اکتوبر1947 ء کو مسٹر کرشنا مینن نے مہاراجہ کشمیر سے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کروا لئے تو اُس کے فوراََ بعد خود وائسرائے کی ذاتی نگرانی میں پورے ہندوستان کے فضائی اثاثوں کو مجتمع کر کے انڈین آرمی کے جتھوں کو جہازوں کے ذریعے راتوں رات’مجاہدین‘ کی آمد سے ایک دن پہلے سری نگر ائیر پورٹ پر اتار دیا گیا تھا۔ دوسری طرف پاکستان آرمی میںموجود برطانوی فوجی افسر دہلی میں سینئر عسکری قیادت کو پشاور میں مجاہدین کی سرگرمیوں اور ان کی کشمیر کی جانب پیش قدمی سے مسلسل آگاہ رکھے ہوئے تھے۔انڈین آرمی کے کشمیر میں اتارے جانے پر قائدِ اعظم نے پاکستان آرمی کو کشمیر میں داخل ہونے کا حکم دیا توکمانڈر انچیف جنرل گریسی نے عملدرآمدکی بجائے معاملہ دونوں ممالک کی افواج کے مشترکہ سپریم کمانڈرکو بھیج دیا۔ کشمیری حریت پسندوں کی سرگرمیوں کو منظم کرنے والے کرنل اکبر المعروف ’جنرل طارق‘ کی سینئر برطانوی افسروں کی جانب سے عدم تعاون کی شکایات قائدِ اعظم تک پہنچیں توآپ نے انہیں سیاسی معاملات سویلین قیادت پر چھوڑ نے کی ہدایت کی۔قائد اعظم کی اس نصیحت کا حوالہ ہمارے ’ جمہوریت پسند‘ جا بجا دیتے ہیں۔( کئی سالوں کے بعدوزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہی جنرل اکبر کو اپنا سلامتی امورکا مشیر مقرر کیا تھا)۔ پنجاب تقسیم نہ ہوتا تو لاکھوں بے گناہ انسانوں کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو سے یوں ہاتھ نہ دھونا پڑتے۔ سکھ رہنما اگرگانگرس کے جھانسے میں آکرقائداعظم کی پیشکش نہ ٹھکراتے تو امرتسر اور گورداسپورپاکستان میں شامل ہوتے۔اگر گاندھی جی اور پنڈت نہرو انصاف برتتے تو کشمیر بھی اپنے تاریخی پسِ منظر اور قدرتی محل وقوع کی بنا پر پاکستان کا حصہ ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا توپاک بھارت افواج روزِ اول سے ہی کشمیر کے پہاڑوں پر آمنے سامنے مورچے نہ سنبھال لیتیں اور دونوں ملکوں با لخصوص پاکستان کو اپنے محدود سائل یوں اپنے دفاع پر خرچ نہ کرتے پڑتے۔اوپر تلے پاک بھارت جنگیں بھی نہ ہوتیں۔ کشمیر میں مجاہدین کی سرگرمیوں کو منظم کرنے والے کرنل اکبر کو ’جنرل طارق‘ بننے اور وزیرِ اعظم پاکستان تک براہِ راست رسائی کے مواقع دستیاب نہ ہوتے۔ قائدِ اعظم کو بھی انہیں اس باب میں کوئی نصیحت نہ کرنا پڑتی۔گزرے سالوں کشمیراب پاک فوج کی نفسیات میں شامل ہو چکا ہے۔ آپریشن گلمرگ سے آپریشن کوہ پیما تک کا سفر ، اسی سوچ کا اظہار ہے۔قطعی طور نہیں کہا جا سکتا کہ تہتر سال قبل سکھ رہنمائوں کے قائدِ اعظم کی پیش کش کو ٹھکرا نے کے فیصلے سے خطے کو ز یادہ نقصان پہنچا، یاکہ خود بھارت میں بسنے والی سکھ قوم کو! بتایا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں بسنے والے سکھ اب مضطرب ہیں ۔ 73 سال پہلے جو ’ٹرین ٹو پاکستان‘ ان سے چھوٹ گئی تھی ، وہ تو اب کئی سٹیشن آگے نکل گئی۔ تاہم کسانوں کی احتجاجی تحریک کے اگلے مرحلے میں آج وہ بھارتی پنجاب میں ریل کی پٹریوں پر بیٹھ کر ٹرینوں کا راستہ روکیںگے۔