مکرمی! رب العزت نے مرد و زن کے باہمی جوڑے کو تخلیق فرمایا ہے اور مرد کو اعصابی اور شعوری دونوں قوتیں عورت سے زیادہ عطاء کی ہیں۔اب اس معاشرتی رویے کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریک حقوقِ نسواں کے مطالبے کا جائزہ لیں۔ تو ان کا مطالبہ دو حال سے خالی نہیں اول تو وہ مردوں کی برابری چاہتی ہیں۔ ثانی کہ مخصوص رویے کا مطالبہ کرتی ہیں۔ اگر مطالبہ ثانی کو دیکھا جائے تو وہ معاشرے کے مرد حضرات بخوبی انجام دے رہے ہیں اور اگر کسی فرد سے ذرا بھر کوتاہی ہو جائے تو بقیہ عناصر اپنی تنقید کا ہدف بنا کر نہایت عمدہ تربیت کرتے ہیں کہ آئندہ اس جیسے سلوک کا سوچے بھی مت۔ یا پھر مطالبہ اولی کا احترام کرتے ہوئے خواتین کو بسوں کے ساتھ لٹکنے کو کہا جائے اور'' پہلے آیئے پہلے پایئے'' کے قانون کے مطابق سارے سسٹم کو چلایا جائے۔ خواتین بھی تقریبات میں مردوں کی آمد پر کھڑے ہو کر ان کے مقام و مرتبے کا اعتراف کریں یا پھر اپنی تشریف آوری پر نا کھڑے ہونے کا عندیہ دیں۔دراصل اس تحریک کا جو کہ مغربی عناصر کی تھپکی پر سڑکیں بند کرتی ہے کوئی مقصد نہیں۔ وہ کون سی برابری کا مطالبہ چاہتیں ہیں اگر یہ بھی اپنے بیانات میں واضح کردیں تو ہم مظلوم مردوں کو اپنے تئیں سوچنے کا وقت مل جائے۔ ( نعیم اختر ربانی)