وزیراعظم عمران خان کا قانون کی پاسداری ‘مافیا کی سرکوبی ‘طاقتوراور غریب کے ساتھ یکساں سلوک کا مشن تو ویسے اڑھائی دہائیوں پر محیط ہے مگرقدرت نے اس مشن کو عملی جامہ پہنانے کا موقع2018میں عنایت کیا۔شاید ہی کوئی دن ہوجب وزیراعظم نے اپنے اس مشن پر کاربند رہنے سے متعلق احساس نہ دلا یا ہو ۔ یہی وجہ تھی عوام نے عمران خان کو ایوان اقتدار تک پہنچانے کیلئے ہرممکن مدد کی۔ 26جنوری کو وزارت صحت کی سمری پر وفاقی کابینہ نے نجی کمپنیوں کو کورونا ویکسین کی من پسند قیمت مقرر کرنے کی منظوری دی۔ وزارت صحت نے کابینہ کے سامنے انوکھی منطق پیش کی کہ کورونا ویکسین کی قیمت مقرر کرنے کا دنیا بھر میں کوئی طریقہ کار موجود نہیں۔ لہٰذا کمپنیوں کو قیمت مقرر کرنے کا اختیار دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔مارکیٹ میں مسابقتی رحجان پیدا ہوگا‘صاحب استطاعت افرا د نجی کمپنیوں سے ویکسین خرید کرلگواسکیں گے۔ کابینہ ارکان نے احتجاج کیا کہ کمپنیاں ناجائز منافع خوری کرتے ہوئے عوام کا استحصال کریں گی لہٰذا کھلی چھوٹ دینے کے بجائے زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنے کی ایک حد مقرر کی جائے۔ مگرڈاکٹر فیصل سلطان او ر کراچی سے تعلق رکھنے والے تگڑے کابینہ ارکان کے سامنے بھلا کس کا بس چلتا ہے۔خاکسار نے 92نیوز پر معاملے کو اجاگرکیا کہ مستقبل میں ایک اور بڑا اسکینڈل بننے جارہا ہے ۔ جب عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جاچکا ہوگا تو مافیا کے خلاف برسرپیکار عمران خان نوٹس لے کرکارروائی شروع کریں گے اس وقت تک چڑیا ں اورچڑے کھیت چگ چکے ہوں گے۔حکومت اور عوام کے پاس ہاتھ ملنے اور حسب روایت تلملانے کے سوا کوئی آپشن نہیںہوگا۔وزیراعظم کے قریبی ساتھی اور سابق وفاقی وزیر صحت عامر کیانی کے خلاف ادویات کی قیمتو ںمیں اضافے کے اسکینڈل کی نیب میںتحقیقات جاری ہیں۔گھر میں جب کو ئی سرپھرا بات ماننے سے مسلسل انکاری ہوتوپھر کسی بڑے کو مطلوبہ اصلاح کیلئے ڈنڈا گھمانا پڑتا ہے۔نجی کمپنیوں کو کورونا ویکسین کی قیمت مقررکرنے میں کھلی چھوٹ دینے پر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کی جانب سے کچھ ایساہی کیا گیا۔این سی او سی نے وزارت صحت کو باور کروایا کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے ستائے عوام کوبے رحم ڈرگ کمپنیوں کے رحم وکرم پر کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟یہ ڈنڈے کی تاثیر تھی کہ وزارت صحت نے ڈرگ پرائسنگ پالیسی کی ایک ایسی شق نکالی جس کے تحت وفاقی حکومت کورونا ویکسین کی قیمت مقرر کرسکتی تھی۔ لہٰذا وزارت صحت نے ڈریپ سے مشاورت کے بعد 9اپریل کو وفاقی کابینہ کے سامنے سمری پیش کی ۔کابینہ نے 90 ڈگری پر یوٹرن لیتے ہوئے 26جنوری کو ڈرگ کمپنیوں کو ویکسین کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار واپس لے لیا۔ 26جنوری کے فیصلے کی روشنی میں ایک نجی کمپنی نے روسی ویکسین درآمد کرلی ۔ اب حکومت نے اپنا پالیسی فیصلہ واپس لیتے ہوئے روسی ویکسین کی کی قیمت 8449 روپے مقرر کرنے کا کہاتونجی کمپنی نے روسی ویکسین کی من پسند قیمت نہ ملنے پر ویکسین واپس بھجوانے کی دھمکی دیدی۔کمپنی کہتی ہے حکومتی قیمت پر ویکسین کی فراہمی ممکن نہیں۔وزارت صحت کے افسران نے سی ای او ڈریپ عاصم رؤف اور انکی ٹیم کی انتھک کاوشوں پر پانی پھیردیا۔عاصم رؤف اور انکی ٹیم سے مشاورت کی گئی ہوتی تو حکومت کو یوٹرن لینا پڑتا اور نہ ہی ملکی وعالمی سطحی پر سبکی کا سامناکرنا پڑتا۔عاصم رؤف نے انتہائی قلیل عرصے میں ڈریپ میں آٹو میشن سمیت فارماسوٹیکل کمپنیوں کا قبلہ درست کرنے کیلئے متعدد اصلاحات کی ہیں لیکن حکومتی مشینری ڈریپ کے مؤقف کو سمجھنے اور اس پر عملدرآمدسے مکمل قاصرہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے عوام کو نجی کمپنیوں کی لوٹ مار سے بچانے کیلئے ایک ورکنگ پیپر پیش کیا ہے،جو بنیادی طور پر وزارت صحت کے ماہر افسران اورمشیران کی ذمہ داری تھی۔پی ڈی ای نے حکومت سے سفارش کی ہے 13 کروڑ 70لاکھ افراد کو کورونا ویکسین درکار ہے لہٰذا اگر حکومت ان تمام افراد کو خود ویکسین فراہم کرتی ہے تو اس پر لاگت 438ارب روپے جبکہ عوام اور قومی خزانہ 726 ارب روپے کا چونا لگنے سے بچ جائیں گے۔کیونکہ نجی شعبے کے ذریعے یہ لاگت 1164ارب روپے تک جاپہنچے گی۔نجی کمپنی جو ویکسین 8ہزار 449 روپے پر فروخت کرنے کیلئے تیار نہیں‘یہی ویکسین حکومت عوام کو 3ہزار220 روپے پر فراہم کرسکتی ہے۔اب دیکھتے ہیںکیا طاقتور کمپنیاں کے مالکان قانون کے تابع آتے ہیں یا وزارت صحت کے افسران ڈرگ کمپنیوں کے تابع آکر 700ارب روپے غریب عوام کی جیبیوں سے نکالنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ دوسرا معاملہ پٹرول بحران کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہے۔ وفاقی کابینہ نے ساڑھے تین ماہ کی تاخیر کے بعد بالآخر پیٹرولیم کمیشن انکوائری رپورٹ کی سفارشات کی روشنی میں قومی خزانے اور عوام کو 25ارب روپے سے زائد نقصان پہنچانے میں ملوث آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پیٹرول پمپ مالکان کے خلاف کارروائی کی منظوری جبکہ وفاقی سیکرٹری پیٹرولیم اسد احیاء الدین سمیت پیٹرولیم ڈویژن میں موجود پٹرول بحران کے ذمہ دار اعلیٰ حکام کو بچالیا ہے۔ایف آئی اے انکوائری کمیشن نے سیکرٹری پٹرولیم ڈویژن اسداحیا ء الدین سمیت اعلیٰ عہدوں پر موجود ذمہ داران کے خلاف کارروائی اور اوگرا کو تحلیل کرنے کی واضح سفارش کی تھی۔ آئل کمپنیاں عدالتوں سے ممکنہ کارروائی کے خلاف حکم امتناع حاصل کرچکیں جبکہ طاقتور افسران کو کابینہ نے بچا کر وزیراعظم کے بیان کی نفی کردی کیوں کہ طاقتور آج بھی قانون سے آزاد اور ملک ٹریک پر واپس آنے کے بجائے بدستور ڈی ٹریک ہے۔سلیم کوثر نے شاید انہی کے بارے میں کہاتھا: کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے!