لاہور(خصوصی رپورٹ )معروف صحافی و کالم نگار شاہین صہبائی نے واشنگٹن میں وزیراعظم عمران خان سے اپنی ملاقات کااحوال بتاتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ میں تین دن تک عصاب شکن مصروفیات کے باوجود بھی عمران خان تازہ دم اور اگلا معرکہ سرکرنے کیلئے بے تاب ہونگے مجھے گمان بھی نہ تھا مگر عمران خان اپنی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں اور چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کیلئے پوری دل جمعی سے تیار تھے ، خوش قسمتی سے میں وہ آخری شخص تھا جس سے خان نے ایئر پورٹ روانگی کیلئے امریکی پروٹوکول کے حصار میں آنے سے پہلے الگ ایک گھنٹہ تمام معاملات پر دل کھول کر بات کی۔ ہم ماضی میں بھی مل چکے تھے اور میں یہ بات اچھی جانتا تھا کہ خان گفتگو کے دوران دل سے بات کرتے ہیں اور کھلے دل سے مخاطب کی بات سنتے بھی ہیں ۔یہ انکی مہربانی تھی کہ انہوں نے مجھے امریکہ میں پاکستانی سفیر کے گھر میں ماسٹر بیڈ روم میں بلا لیا جبکہ انکی کابینہ کے ارکان نیچے سیڑھیوں اور لابی میں انکی آمد کے منتظر‘ باہمی گپ شپ میں مصروف تھے ۔ میں جب بیڈ روم میں داخل ہوا تو خان ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے جی ہاں بیڈ روم میں ڈائننگ ٹیبل!بجائے اس کیلئے وہ مجھے خوش آمدید کہتے انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو یہ کمرہ کسی بھی سیون سٹار ہوٹل سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور میں جب بھی واشنگٹن آیا اسی کمرے میں رہنے کو ترجیح دونگا۔ میں نے جواب میں کہا جی ہاں میں یہاں متعدد بار پہلے بھی جب ملیحہ لودھی ‘ حسین حقانی اور شری رحمٰن سفیر ہوا کرتے تھے آ چکا ہوں انہوں نے سوالیہ انداز میں استفسار کیا حسین حقانی کے زمانے میں بھی؟ میں ابھی سنبھل کر بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ عمران نے سوال داغ دیا میں اس میڈیا کا کیا کروں یہ ناقابل برداشت حد تک بے لگام ہو چکا ہے میں سب کو اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کچھ تو زیادہ ہی شرانگیز ہو چکے ۔ میں اچھی طرح جانتا تھا عمران کیا کہنا چاہتے تھے ۔ میرا جواب تھا جناب وزیر اعظم صاحب آپ کو اس معاملہ میں نہایت احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ کسی بھی طرح کی سختی پر میڈیا کی آزادی کا واویلا شروع ہو جائیگا۔ آپ درست کہتے ہیں لیکن جب پاکستان میں ہر کسی کا بلا امتیاز احتساب ہو رہا ہے تو پھر میڈیابھی مقدس گائے نہیں ہونی چاہئے انکا یہ کہنا درست تھا میرے خیال میں یہ بات صرف عمران خان ہی کہہ سکتے ہیں یہ کوئی غیر قانونی امرہے نہ ہی اس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے مگر بدعنوان حکمرانوں میں کبھی یہ جرات نہیں ہوسکتی کہ وہ میڈیا کے عفریت سے پنگا لیں۔ میں نے عمران خان کو بتایا کہ میں نے میڈیا کے احتساب کے بارے میں بہت پہلے 90کی دہائی میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا اور میرا ایک آرٹیکل 28دسمبر 1990ء کو ڈان میں شائع بھی ہوا تھا۔ جس کو بعد میں ضمیر نیازی نے اپنی کتاب پریس انڈر سیج(Press Under Siege)میں شائع کیا تھا۔ حوالے کیلئے میں ٹویٹر سے اسکی کاپی بھی پیش کر دی۔ اسکے بعد ہم نے طویل بات کی کہ اس حوالے سے کیا کچھ ہو سکتا ہے اور اسکے اثرات کیا ہو سکتے ہیں لیکن وزیر اعظم اس بات پر بضدتھے کہ میڈیا کو احتساب کے عمل سے گزرنا ہو گا اور انکا احتساب بھی اسی انداز میں ہو گا جیسا کہ سیاستدانوں کا ہو رہا ہے مثلاً ذرائع سے زائد آمدن اور اثاثے ‘ٹیکس کے معاملات اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے معاملات اور عدالتوں سے لئے سٹے آرڈر وغیرہ وغیرہ کیونکہ میں ایک طویل عرصہ سے اس شعبہ سے وابستہ ہوں اسلئے میں نے وزیر اعظم کو تفصیل سے مثالیں دیکر بتایا کہ کس طرح ماضی میں کچھ میڈیا ہائوسز پھیلتے گئے کس طرح ایک بلڈنگ سے پورا پورا بلاک انتہائی مہنگے کمرشل اثاثے بناتے گئے بالکل اسی طرح جس طرح آصف علی زرداری نے کلفٹن میں بلاول ہائوس کے اردگرد کی عمارتوں کے مالکان کو ڈرا دھمکا کر اونے پونے داموں ہتھیا لیا۔ یہ ایک طویل سلسلہ ہے کہ کس طرح بدعنوان حکمرانوں نے اسلام آبادمیں مہنگی ترین املاک میڈیا ہائوسز کو خوش کرنے کیلئے الاٹ کیں‘ تاکہ انکے مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکے ۔ خان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ نہایت تجسس سے سنتے رہے گفتگو کے دوران بہت سے میڈیا مالکان کے نام آئے جن کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں‘ حاصل گفتگو یہی ہے کہ اب میڈیا کے گرد گھیرا تنگ ہونے جا رہا ہے اور یہ مقدس گائے اب قربان گاہ کی طرف کھینچی جانیوالی ہے ۔ صحت مند گائیں گڑ گڑائیں گی اور کمزور گائیں چہچہائیں گی۔ اب اس بات پر سوچ بچار شروع ہوا کہ آخر میڈیا کا احتساب کریگا کون؟ پیمرا کو بھی استعمال کیا جا سکتا تھا مگر اس کیلئے ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جو ساکھ اور پیشہ ور صلاحیت کا حامل ہو۔ یقینا اس کیلئے مار اور پیار کی پالیسی ہی اختیار کی جا سکتی ہے ۔ اس حوالے سے میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور جو ایسا نہیں کرے گا وہ خمیازہ بھی بھگتے گا۔ میڈیا کے منہ زور بیل کوسینگوں سے پکڑ کر پٹخنے کیلئے خان جیسے دل و گردے کی ضرورت ہے ۔اس دوران دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور وزیر اعظم کو کھانے کیلئے نیچے آنے کی درخواست کی گئی جہاں وزیر اعظم کی کابینہ کے وزراء شاہ محمود قریشی‘ علی حیدر زیدی ‘ رزاق دائود اور حفیظ شیخ کیساتھ پاکستان کے سفیر اسد خاں کے ہمراہ علی جہانگیر صدیقی بھی منتظر تھے اور پھر وزیر اعظم کے ایئر پورٹ کو نکلنے کو بھی صرف 20منٹ ہی رہ گئے تھے ۔ مگر عمران خان کسی قسم کی مداخلت کے موڈ میں نہ تھے ، انہوں نے کہا کہ میں صرف دہی ہی لونگا اور سامنے پڑے دہی کے پیالے سے گھونٹ بھر لیا۔ اسکے بعد ہماری گفتگو کا محور وزیر اعظم کادورہ امریکہ رہا انہوں نے محض تین دن میں وہ کچھ حاصل کر لیا جو کسی اور کیلئے تین ہفتوں میں بھی ممکن نہ تھا۔ان کا کہنا درست بھی تھا ۔انہوں نے نہایت مصروف دن گزارے انہوں نے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا ‘امریکی تھنک ٹینک میں سوالات کے جوابات دیئے ‘امریکی کانگریس کے درجنوں ارکان کیساتھ بات چیت کی ‘اسکے علاوہ وائٹ ہائوس میں 3گھنٹے مصروف ترین دن گزرا۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ امریکی صدر کسی بھی ہیڈ آف سٹیٹ کی آمد پر اپنے دفتر میں ہی طویل پریس کانفرنس کریں مگر عمران خان سے ملاقات میں انہوں نے نہایت فراخدلی کیساتھ میڈیا کے سوالات کے جوابات دیئے ۔اس دوران ٹرمپ کے کشمیر کے حوالے سے بیان نے عالمی میڈیا میں ہلچل اور بھارتی میڈیا میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ انکے بیان سے پاکستان کے موقف کو پذیرائی ملی اور پذیرائی بھی ایسی کہ جس کا پاکستان مدتوں سے خواب دیکھ رہا تھا۔ پاکستانی سفارت کاروں نے برسوں یہ کلمات سننے کیلئے دن رات ایک کئے مگر یہ اعزاز بھی عمران خان کو ہی حاصل ہوا ۔ انکا جادو ٹرمپ کے سرچڑھ کر بولتا رہا۔ عمران خان اس کامیابی کے بعد اب ملکی معاملات اور خارجہ امور میں اپنی بھر پور کارکردگی دکھانے کیلئے تیار ہیں ۔ان کو یقین ہے کہ وہ طالبان کو افغانستان حکومت سے مذاکرات پر قائل کر لیں گے ۔ امریکی صدر کی تجارت میں مراعات کی یقین دہانی سے تجارت اور عسکری سطح پر پاکستان کو آسانی حاصل ہو گی اور امریکہ اور پاکستان میں ماضی کی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہو گی‘ پاکستان میں ڈالر بھی آئینگے ۔ اسکے بعد انکی تمام تر توجہ اپوزیشن پرمرکوز رہی قومی خزانہ پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں’ انہوں نے یہ جملہ متعدد بار دھرایا کہ میں ان کو نہیں چھوڑونگا، انہوں نے قانون اور سسٹم کو تباہ کر دیا ،اب وقت آ گیا ہے کہ انکے گرد گھیرا تنگ کیا جائے ۔ وہ ایک یہ بات دہرائے جا رہے تھے کہ اب کچھ معاملات سیدھے ہوئے ہیں ان کو حساب دینا ہو گا۔ ان لوگوں نے ملک تباہ کر دیا اس حوالے سے جو میں سمجھ پایا ۔اب وہ یہ تھا کہ اب احتساب بلا امتیاز نہیں ہے ۔ عمران خان کڑے احتساب کیلئے پورا زور لگا رہے ہیں مگر اداروں اور عدالتوں کی موشگافیوں کے باعث ایسا نہیں کر پا رہے ۔انکے خیال میں نیب ایک خود مختار ادارہ ہے مگر اب بھی اتنا آزاد نہیں جتنا خاں صاحب اداروں کو دیکھنا چاہتے ہیں کہ ملکی ادارے اپنے پائوں پر کھڑا ہوں اور بغیر کسی خوف اور جانبداری کے شفاف انداز میں انصاف سے کام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے علیم خان کے معاملہ میں مداخلت نہ کی اس حوالے سے انہوں نے مزید بات نہ کی۔ جب میں نے ان سے کہا کہ نواز شریف کے مقابلے میں آصف زرداری کے احتساب میں ہاتھ نرم محسوس ہوتا ہے تو عمران خان نے اس تاثر کو یکسر مسترد نہ کیا۔ لیکن یہ اشارہ ضرور دیا کہ معاملات منظم انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ان میں کسی قسم کا رخنہ برداشت نہیں کیا جائے گا ۔یہ بات قابل فہم ہے کہ عمران خان کو پارلیمنٹ میں جو عددی برتری حاصل ہے اور جس قسم کے معاشی بحران کا سامنا ہے ان کا تقاضاہے کہ معاملات کو دانشمندی سے آگے بڑھایا جائے وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے جس سے سیاسی نظام ہی درہم برہم ہو جائے اور سیاسی ڈیڈ لاک کا سامنا کرنا پڑے انہوں نے اپنے ایک سال کے اقتدار میں متعدد بار سمجھوتہ بھی کیا تاکہ ملکی معاملات اور معیشت کا پہیہ رواں رہے ۔ وہ معاملات کو نہایت دانشمندی سے چلا رہے ہیں اور روشن مستقبل کیلئے پرامید ہیں۔ انہیں عام آدمی کی مشکلات مہنگائی افراط زراوراپوزیشن کے شور و غوغا کا بھی بھر پور احساس ہے اور وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تمام مشکلات انکی ساکھ کو ابھی تک متاثر نہیں کر سکی ہیں اب ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے معاشی حالات کنٹرول میں آ گئے ہیں لیکن ہم نے قوم کو ہمیشہ سچ بتایا ہے اور لوگ ہماری مشکلات کو سمجھ بھی رہے ہیں اب مشکل وقت گزرنے والا ہے ان کو پختہ یقین تھا کہ اب مشکل وقت گزر چکا ہے اور اچھے دن آنیوالے ہیں۔ میں نے ریکوڈک کا معاملہ چھیڑا تو انکا کہنا تھا کہ اسکی وجہ ابتدائی سطح پر بدعنوانی تھی مگر ان کو یقین تھا کہ عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد پاکستان کیلئے نئے راستے کھل گئے ہیں اور پاکستان ان ذخائر کو اپنی خوشحالی کیلئے استعمال کریگا۔ میں نے جب ریکوڈک کے بارے میں لکھنا شروع کیا تھا اور معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا اس وقت سے کچھ ذرائع میرے ساتھ رابطے میں تھے اور اب بھی ہیں۔میں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ اس حوالے سے کچھ سرمایہ کار میرے ساتھ رابطے میں ہیں جو ریکوڈک کے ذخائرکا 10فیصد پہلے دینے پر آمادہ ہیں اور ہر سال پاکستان کوملین آف ملین ڈالر ملیں گے ۔تو انکی آنکھوں میں امید کی چمک واضح دکھائی دی انہوں نے فوراً کہا آپ مجھے انکے نمبر دیں میں ان کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دونگا مگر ان کو اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ اس معاملے میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے ، انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ معاملات اتنی سرعت سے نہیں بڑھ رہے جتنی وہ چاہتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ حکومت اور عسکری قیادت کے معاملات میں جس قدر ہم آہنگی ہے ماضی میں کبھی نہ تھی۔ آخر میں جب روانگی میں چند منٹ رہ گئے تو انہوں نے مجھے سیڑھیاں اترتے ہوئے اپنا نیا ذاتی نمبر دیا اور رابطے میں رہنے اورپاکستان آنے پر ملنے کا کہا اور نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے رخصت ہوئے ۔