ایک دہائی قبل کشمیر یونیورسٹی نے انسانی حقوق کا ڈپلومہ کورس شروع کیا تھا، چند سال بعد ہی اسکی بساط لپیٹ لی گئی کیونکہ طالب علم سیاسی اور جمہوری حقوق کے متعلق سوال پوچھنے لگے تھے۔ اس ڈیپارٹمنٹ کو بند کرنے کی وجہ بتائی گئی کہ کشمیر میں انسانی حقوق کے فیلڈ میں کیریئر یا روزگار کی کمی ہے۔ میں نے کہا کہ متبادل جمہوری مخرجوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مساجد کو سیاسی طور پر استعمال کرنا تو ایک مجبوری بن گئی ہے اور یہ کشمیر کی پچھلے 500سالوں کی تاریخ ہے۔ وزیر نے یہ بھی بتایا کہ حریت کانفرنس کے رہنما اپنی شناخت اور عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں۔ دوسری طرف ان پر غصہ بھی تھا کہ انہوں نے کل جماعتی وفد کے ارکان سے ملنے سے انکار کرکے پوری بھارتی پارلیمنٹ کو بے وقار کردیا، جس کا انہیں حساب دینا پڑے گا۔ میں نے سوال کیا کہ اگر یہ رہنما واقعتاً بے وقعت ہوچکے ہیں تو ان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ وزیر موصوف کے بقول کشمیرکا روایتی اسلام خطرے میں ہے، وہاں وہابیت اور سلفیت وغیرہ نے جڑیں گاڑ لی ہیں جس کا تدارک ضروری ہے کیونکہ موجودہ تحریک کو یہی نظریہ لیڈ کر رہا ہے۔کئی گھنٹوں تک چلنے والی یہ بریفنگ جب ختم ہوئی تو دوبارہ بتایا گیا کہ یہ ایک بیک گراونڈ بریفنگ تھی اور یہ کسی بھی طورپر میڈیا میں رپورٹ نہیں ہونی چاہئے۔ مگر اگلے دن بھارت کے دو کثیر الاشاعت اخباروں ٹائمز آف انڈیا اور ہندوستان ٹائمز میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے یہ بینرہیڈ لائن تھی اور پھر کئی ماہ تک چینلوں کیلئے کشمیر میں القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کی آئے روز کی خوراک بنی رہی۔ معلوم ہوا کہ ان اخباروں کے مدیران کو دیر رات ہدایت دی گئی تھی کہ اس وزیر موصوف کی بریفنگ کی رپورٹنگ چھپنی چاہئے، جس سے ایک تو اس بریفنگ کا بنیادی مقصد فوت ہوا، دوسرا جس طرح پاکستان نے دنیا بھر میں سفارتی مشن بھیجے تھے اسکو ایک طرح سے سبو تاژ کرنا بھی تھا ۔ کیونکہ دنیا کے جس ملک میں بھی یہ مشن گئے وہاں انکو کشمیر اوراسکے عالمی دہشت گردی سے منسلک ہونے کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ میری بے جا مداخلت اور سوال کرنے کی جراٗت سے وزیر موصوف اتنے ناراض ہوئے کہ مجھے صحافت سے ہی چلتا کرنے کی انہوں نے کوشش کی جس میں بہر حال وہ کامیاب تو نہیں ہوئے۔ خیر ا ب دو سال بعد جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے مرکزی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹوں اور ایک برطانوی تھنک ٹینک کی ایک اسٹڈی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ تحریک کشمیر کا عالمی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ جدوجہد سلفی، وہابی یا کسی اور نظریہ سے وابستہ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ پچھلے سال ایک ملاقات میں جموں و کشمیر کے ایک سینئر پولیس افسر ، جو اسوقت جنوبی کشمیر میں تعینات تھے اور بھارتی فوج کے ایک کمانڈر نے بھی کچھ اسی طرح کا تجزیہ پیش کیا تھا۔ وہ بھارتی میڈیا کی اس روش سے خاصے نالا ں تھے، جس میں وہ بار بار کشمیر میں آئی ایس آئی ایس کے عنصر کو زبردستی اچھال کر حالات کو شام، عراق و افغانستان سے ملانے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ جان بوجھ کر مزید ظلم و ستم کیلئے راہ ہموار کرنے نیز عالمی برادری کو خوف زدہ کرنے کیلئے کیا جا رہا تھا۔ اسی پولیس افسر کے بقول ایک انگریزی میڈیا چینل کے ایک رپورٹر نے آئی ایس آئی ایس کا جھنڈہ درز ی سے سلوا کر سرینگر کے پرانے شہر کے ایک کمرے میں چند نقاب پوش نوجوانوں کے ہاتھوں میں دیکر اسکی عکس بندی کی تھی۔اس ویڈیو کو لیکر اس چینل نے کئی روز تک اس پر پروگرام چلائے۔پولیس نے اس درزی کی نشاندہی پر جب رپورٹر کے خلاف کاروائی کرنے کی کوشش کی تو نئی دہلی سے پیام آیا کہ معاملہ کو دبایا جائے۔ اب ان مطالعوں کے مطابق برہان وانی کی شہادت کے بعد جن 265نوجوانوں نے عسکریت جوائن کی ان میں محض دو فیصد کسی نہ کسی صورت میں مدرسوں یا کسی نظریہ سے وابستہ تھے۔ ان نوجوانوں میں اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور عام طور پر کھاتے پیتے مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور سیاسی طور پر خاصے باشعور تھے۔ 64فیصد کسی بھی شدت پسند نظریہ سے تو دور بلکہ سیاسی طور پر خاصے لبر ل خیالات کے قائل تھے۔47فیصد نوعسکریت پسندوں کا تعلق ایسے علاقوں سے تھا جہاں ان کی رہائش گاہ کے دس کلومیٹر کے دائرہ میں یا تو کوئی انکاونٹر ہوا تھا یا سکیورٹی فورسز نے زیادتیاں کی تھیں۔ برطانوی اسکالرز کی اس تحقیق The Spider of the Caliphate کے مطابق عالمی دہشت گر د تنظیموں کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کسی فرد کی اسطرح کی تنظیم میں بھرتی ہونے سے قبل نفسیاتی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔وہ روابط منقظع کرتے ہیں اور دنیا اور اہل خانہ سے الگ تھلگ رہنا پسند کرتے ہیں۔ مگر اس طرح کا کوئی نفسیاتی رجحان کشمیر میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ عسکریت میں شامل ہونے کے بعد بھی ان نوجوانوں کے اپنے دوستوں اور اہل خانہ سے معمول کے روابط دیکھنے کو ملے اور نہ ہی ان میں سوسائٹی سے بیزاری دیکھنے کو ملی جو القاعدہ یا آئی ایس آئی ایس کے ارکان میں عام رجحان ہے۔ اس اسٹڈی اور جموں و کشمیر پولیس کی تحقیق کا ماحاصل یہی ہے کہ نئی دہلی کو اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ کشمیر سیاسی مسئلے کے علاوہ غصب شدہ حقوق کی بازیابی کا معاملہ ہے۔ امن اور قانون کے نام پر اور تحریک کو عالمی دہشت گردی سے منسلک کرکے وقتی فائدہ تواٹھایا جاسکتا ہے لیکن اس سے مسئلہ ختم نہیںہوسکتا۔ یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ کشمیر کاز ہلاکت خیز اسلحہ کے انباروں ، سات لاکھ افواج کی تعیناتی ، مظالم ومصائب کی گھٹاوٗں اور انسانی حقوق کی پا مالیوں کے باوجود زندہ وجاوید حقیقت ہے اور اس کے منصفانہ حل سے ہی برصغیر کی ہمہ گیر تعمیر و ترقی ، امن و سکون اور نیک ہمسائیگی مشروط ہے۔