حکومت نے پٹرول کی کھپت میں اضافے کے پیش نظر آئندہ ماہ 7لاکھ 7ہزار ٹن پٹرول درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو ایک ماہ کے دوران پٹرول کی درآمد کی سب سے زیادہ مقدار ہو گی۔ لگتا ہے کہ حکومت نے بھی اونٹ کی طرح اپنی کوئی بھی کل سیدھی نہ رکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے کہ نئے کپڑے عید کے بعد بنائے جا رہے ہیں اور وقت پر کوئی کام نہیں کیا جا رہا۔ پٹرول کئی برسوں بعد نچلی سطح کی قیمتوں پر آیا بھی تو غریب عوام قطرے قطرے کو ترس گئے۔ مہنگا تھا تو مل رہا تھا، سستا ہوا تو غائب ہو گیا۔ کئی دوسرے مافیاز کے بعد ایک اور بڑے پٹرول مافیا نے عوام کا کچومر نکال دیا۔ یہ بد انتظامی کی انتہا ہے، پٹرول درآمد کرنے کی ضرورت تو اس وقت زیادہ تھی جب عوام پٹرول پمپوں پر لمبی قطاریں لگا کر کھڑے تھے اور انہیں پٹرول نہیں مل رہا تھا، لیکن چور بازاری میں مہنگے داموں فروخت ہو رہا تھا۔ جب پٹرول مہنگا کر دیا گیا تو پٹرول پمپوں سے بھی ملنے لگا یہ بد انتظامی نہیں تو کیا ہے کہ جب ضروری تھا،درآمد نہیں کی گیا،مہنگا ہوا تو درآمد ہو رہا ہے، یہ کیا حکمت عملی ہے؟ جواب دہ کون ہے؟دونوں طرف سے سارا بوجھ عوام پر لادا جا رہا ہے، مافیاز عوام کو الگ تنگ کر رہے ہیں۔ حکومتی بد انتظامی سے اب ان کی جیبیں خالی کی جا رہی ہیں۔ پٹرول بحران کا ذمہ دار کون ہے،اس کا تعین کیا جائے اور ذمہ داروں کو سزا دی جائے تا کہ آئندہ یہ بھیانک کھیل دوبارہ نہ کھیلا جا سکے۔