بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک کے سونے اور تانبے کے ذخائر کی دریافت کیلئے کان کنی کاکام چلی کی فرم ٹیتھیان کو تفویض کیا گیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق 12 ملین ٹن تانبے اور 21 ملین اونس سونے کے ذخائر ریکوڈک چاغی کے پہاڑوں میں دبے ہوئے ہیں۔ سونے کے ذخائر کی مالیت 100 ارب امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ٹیتھیان کو 1993ء میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری کیا گیا تھالیکن جنوری 2013 ء میں اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ جس میں جسٹس گلزار اور جسٹس عظمت شیخ بھی شامل تھے نے یہ منصوبہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کمپنی کا لائسنس منسوخ کر دیا تھا۔اس کے بعد کمپنی معاملہ ’انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹز‘ میں لے گئی جس نے معاہدہ ختم کرنے پر پاکستان پر تقریباً چھ ارب ڈالر کا جرمانہ کر دیا۔گویا کہ حال ہی میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا پیکیج ملا ہے جو چار سال میں ملے گا،اتنا ہی جرمانہ یکمشت پاکستان کو کمپنی کو ادا کرنا پڑے گا۔ اس معاملے کی تحقیقات کیلئے وزیر اعظم نے کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے جو 1993ء سے ناکامی کے ذمہ داروں اور سابق چیف جسٹس سے بھی پوچھ گچھ کرے گا۔ کمیشن بنانا اچھی بات ہے تاکہ آئندہ ایسی فاش غلطیاں سرزد نہ ہوں ۔بعض حلقوں کا دعویٰ تھا کہ بلوچستان جیسے حساس صوبے میں غیر ملکیوں کو یہ ٹھیکہ دے دینا کہاں کی دانشمندی ہے، یہ کام تو ہم خود کر سکتے ہیں لیکن پہاڑوں سے کان کنی کوئی آسان کام نہیں،اس کیلئے جو خصوصی مہارت درکا ر ہوتی ہے وہ ہمارے معدنیات کی تلاش کرنے والے محکموں، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن اور نجی شعبے کے پاس بھی نہیں ہے۔کمیشن جس نتیجے پر بھی پہنچے بین الاقوامی قانون کے تحت خطیر رقم تو ہمیںادا کرنا ہی پڑے گی اور اس وقت جس طرح پاکستان قریباً قلاش ہو چکا ہے شاید یہ ادائیگی ناممکنات میں سے ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں میڈیا سمیت سب کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے،ہرمعاملے کو قومی اور سکیورٹی مفادات کے خلاف قرار دیکر ایک ہذیانی کیفیت طاری کر دی جاتی ہے۔اس ضمن میں بھی میڈیا کا یہی رول تھا۔بعض ماہرین کے مطابق چلی کی یہ کمپنی اب بھی ٹھیکہ لینا چاہتی ہے،اس سے بہتر شرائط پر دوبارہ بات چیت کر کے معاہدہ کر لیا جائے کیونکہ گزشتہ چھ برسوں میں اس منصوبے پر کوئی پیش رفت بھی نہیں ہو سکی۔ ماضی میں فاضل جج صاحبان کے اس قسم کے فیصلوں سے پاکستان کو اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔جسٹس افتخار چودھری نے جو خود کو ایک’’انقلابی جج‘‘سمجھتے تھے ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ اور سٹیل ملز کی نجکاری روکنے سمیت کئی دیگر معاملات میں پاکستان کے خزانے کو نقصان پہنچایا،بد قسمتی سے سستی شہرت حاصل کرنا عدلیہ کی آزادی کا نعم البدل نہیں ہے۔ اتوار کو ہی ایک اور بڑی خبر بم بن کر قارئین اور ناظرین پر گری ،وہ برطانوی اخبار ڈیلی میل کے رپورٹر کا یہ انکشاف تھا کہ شہباز شریف اور ان کے خاندان نے زلزلہ زدگان کی برطانوی امداد چرا کر اپنے اکاؤنٹ میں ڈلوائی۔ان کے مطابق 2003ء میں شہباز شریف خاندان کی دولت تین کروڑ تھی جو 2018ء تک 40 ارب روپے تک پہنچ گئی۔ یہ انتہائی سنگین الزام ہے کہ زلزلہ زدگان کیلئے دی گئی رقم ہڑپ کر لی گئی۔شہباز شریف کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ان پر ایک پائی کی کرپشن ثابت ہوئی تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔برطانوی اخبار کے مطابق زیر حراست پاکستانی شہری مشتاق چینی شہباز خاندان کیلئے منی لانڈرنگ کرتا رہا اور میاں صاحب کے داماد علی عمران جو قانون کی دسترس سے بچنے کیلئے بیرون ملک جا چکے ہیں نے امداد میں سے دس لاکھ پاؤنڈ وصول کئے جو شہباز شریف کے خاندان کے اکاؤنٹ میں منتقل کئے گئے۔شہباز شریف کے چھوٹے بیٹے سلمان شہباز نے جو اب برطانیہ میں مقیم ہیں اس رپورٹ کی سختی سے تردید کی ہے اور اسے سیاسی قرار دیا ہے۔مسلم لیگ ن کی ترجمان محترمہ مریم اورنگزیب نے بھی اس سٹوری کو ایک سازش قرار دیا ہے۔ن لیگ کے مطابق 2005ء میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے اور نہ ہی پنجاب میں زلزلے سے تباہی ہوئی تھی، شہزاد اکبر کو اس کا جواب دینا چاہئے تھا۔ میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وہ ڈیلی میل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرینگے جس کیلئے انہوں نے سلمان بٹ کو وکیل مقرر کر دیا ہے جو قانونی کارروائی کیلئے لندن پہنچ گئے ہیں۔یقیناً پاکستان کے برعکس برطانیہ میں ہتک عزت کے قوانین خاصے سخت ہیں اور انہیں وہاں جلد یا بدیر انصاف مل جائے گا۔خبر دینے والے رپورٹر ڈیوڈ روز نے بھی اصرار کیا ہے کہ اس کی خبر درست ہے اور اس کے پاس ثبوت موجود ہیں ۔ حکومتی ترجمان کیلئے یہ خبر تو من بھاتا کھاجہ ہے، معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا شہباز شریف اور ان کے خاندان کے کالے دھن اور منی لانڈرنگ سے متعلق مزید حقائق سامنے آگئے، منی لانڈرنگ کی واردات حدیبیہ پیپر مل سے شروع ہوئی اور زلزلہ متاثرین کے لیے برطانیہ کی طرف سے دی گئی امداد پر بھی اس خاندان نے ہاتھ صاف کیے۔ پاکستانی ٹیکس دہندگان کی ہڈیاں چوسنے کا اعزاز تو انہیں حاصل رہا ہے لیکن منی لانڈرنگ اور کرپشن کا ماہر یہ خاندان برطانیہ کو بھی چونا لگانے سے باز نہیں آیا۔پیسے کی حرص اور ہوس کو سامنے رکھتے ہوئے اس خاندان نے پاکستان کی عزت اور توقیر کو بھی دنیا بھر میں تار تار کردیا۔ شہباز گل، علی زیدی، شفقت محمود، معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اور دیگر بھی اسی طرح کھل کر شہباز شریف خاندان پر تنقید کررہے ہیں۔واضح رہے کہ ڈی ایف آئی ڈی برطانوی محکمہ برائے بین الاقوامی ترقی کا دنیا بھر میں سب سے بڑا پروگرام ہے۔اس کے مطابق یہ ادارہ تعلیم، صحت بالخصوص پرائمری ایجوکیشن پر اربوں روپے خرچ کرتا ہے۔ ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ برطانیہ نے ڈیلی میل کی خبر کی سختی سے تردید کی ہے۔اس کے مطابق ایرا کو پراجیکٹس جن میں زیادہ تر سکولز شامل تھے مکمل ہونے کے بعد رقم دی گئی، ادائیگیاں باقاعدہ آڈٹ اور تصدیق پرکی گئیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ڈیلی میل نے سنسنی خیز سرخی کے علاوہ متن میں اپنے الزامات کی تصدیق نہیں کی۔دوسری طرف ڈیلی میل اپنی رپورٹس کے حوالے سے متنازعہ اخبار رہا ہے جس کے بارے میں وکی پیڈیا بھی قرار دے چکا ہے کہ ہم اسے قابل بھروسہ ذریعہ تصور نہیں کریں گے۔ مسلم لیگ ن کے ترجمانوں کا کہنا ہے کہ ڈیلی میل میںمتذکرہ خبر شہزاد اکبر کی کاوشوں کا نتیجہ ہے لیکن اگر الزام میں کوئی صداقت بھی ہو تو اب ہمیں سوچنا چاہئے کہ اگر ہم اپنے گھریلو جھگڑے کوبین الاقوامی اداروں کو متنازعہ بنا کرطے کریں گے تو اس کا فائدے کے بجائے نقصان ہی ہو گا۔ ایسے معاملات میں ہاہاکار مچانے اور ہذیانی کیفیت پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ پہلے اس ضمن میں سرکاری اور عدالتی سطح پر تحقیقات تو کرلی جائے۔ ڈیلی میل کی رپورٹ میں برطانوی نژاد پاکستانی آفتاب محمود کو گواہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے لیکن ڈی ایف آئی ڈی جس کے مبینہ طور پر پیسے خورد برد ہوئے ہیں کا رپورٹ میں موقف ہی نہیں ہے۔