کہا گیا کہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام ریکوڈک میں مدفون سونے اور تانبے کے ذخائر خود نکال کر بروئے کار لا ئیں گے ۔ چنانچہ ان کی اس ڈیڑھ ہو شیاری نے برعکس نتیجہ دیا ،یعنی بُری طرح مات کھائی ۔وہ اسطرح کہ انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی ) نے جمعہ 12جولائی2019ء کو فیصلہ ٹھیتیان کمپنی کے حق میں دیدیا۔اور پاکستان پر تقریباً چھ ارب ڈالر یعنی تقریباً9کھرب48ارب پاکستانی روپے کا جرمانہ عائد کردیا۔ یعنی لینے کے دینے پڑگئے۔گویا اس معاہدے کی منسوخی گلے کی ہڈی بن گئی ۔ ٹی سی سی چلی کی ’’انڈو فا گسٹا ‘‘ اور کینیڈا کی ’’بیرک گولڈ‘‘ کا مشترکہ منصوبہ تھا ۔ ٹھیتیان کمپنی کو 1993ء میں سونے اور تانبے کی ذخائر کی تلاش کا لائسنس جاری کیا گیا تھا ۔رپورٹس کے مطابق کمپنی نے بائیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کی ۔ کانکنی پر تین ارب تیس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ تھا ۔ دراصل کمپنی کے ساتھ معاہدہ کھلی آنکھوں کے ساتھ نہ کیا گیا۔بالکل ایسے ہی جیسے نوے کی دہائی میں سیندک میں سونے اور کاپر کے ذخائر چینی کمپنی کے حوالے کئے گئے۔ وہاں بھی صوبے کا مفاد مایوس کن طور پر نظر انداز کیا گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ریکوڈک کے ذخائر سیندک سے گیارہ گنا زیادہ ہیں۔اور ریکوڈک کو دنیا میں سونے کے پانچویں بڑے ذخیرے کا درجہ حاصل ہے ۔ یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان منصوبوں سے بلوچستان کی تقدیر بدل جائے گی ، شاید کسی کی بدلی ہو یا بدل جائے ۔ بہر حال جیسے تیسے مائننگ کا کام جاری تھا۔ یقینا عالمی معیار کے مطابق سب کچھ ہورہا تھا کہ اس دوران بلوچستان حکومت نے ریکوڈک کے ذخائر از خود بروئے کار لانے کا بڑے اعتماد کے ساتھ دعویٰ و اعلان کردیا۔ چنانچہ 2010ء میں کمپنی سے معاہدے کی منسوخی کی با تیں ہونے لگیں۔تب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔آصف علی زرداری صدر مملکت تھے ۔نواب محمد اسلم رئیسانی بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے۔ نواب رئیسانی نے کہا کہ ہمارے پاس ماہرین اور اہلیت کی کمی نہیں اور منصوبے پر خود کام کریں گے ۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا نام بھی سامنے آیا ۔جس نے تھر میں کوئلہ کے ذخائر سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر بھی حکومت کو چونا لگایااور ریکوڈک میں بھی سرمائے کے ضیاع کا ذریعہ بنے۔ تب بعض ماہرین پکار اُٹھے کہ اس منصوبے پر کام ڈاکٹر ثمر مبارک مند، بلوچستان حکومت یا حکومت پاکستان کے بس کی بات نہیں ۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ قومی دولت اور وسائل کے ضیاع کا باعث ہوگا،اور چند لوگوں کے عیش و عشرت کا ذریعہ بن جائے گا۔ چنانچہ ویسے ہی ہوا،اور اب حکومت کو مزید بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔بدعنوان افسرشاہی اور ابن الوقت عناصر نے یقینا نواب رئیسانی کی درست رہنمائی نہیں کی۔ جن کے پیش نظر فنڈز کا فوری اجراء ہو تا ہے ۔تاکہ ان کے شکم بھریں۔ ایک چھوٹی سی مثال کو ئٹہ کے اندر نکاسی آب کے منصو بے کی ملاحظہ ہو ،کہ یہ منصوبہ فنی و عقلی لحاظ سے قطعی قابل عمل نہ تھا ۔مگر محکموں کے شکم پرست حکام و ماہرین نے شہر کی مختلف شاہراہوں کو خندقوں میں تبدیل کرد یا ۔جس پر تقریبا تین ارب روپے لگے، یعنی فی الاصل دیدہ و دانستہ ڈبو دیے گئے ۔ جنوری 2013ء میں عدالت عظمیٰ کے اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ٹھیتیان کمپنی کا لائسنس منسوخ کرکے معاہدہ کالعدم قرار دے دیا۔ ریکوڈک کیس کا فیصلہ سنانے والے تین رکنی بنچ میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ ججوں میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید شامل تھے۔جیسے ذکر ہوا کہ کمپنی نے دعویٰ داخل کردیا ۔ ستم یہ کہ یہ اس مقدمے کی پیروی بھی درست سمت اور سنجیدگی کے ساتھ نہیں کر پائے ۔وکیلوں کو بھاری معاوضے دیئے گئے۔ حالانکہ معاہدے کی منسوخی کے فیصلے سے رجوع کا آپشن موجود تھا۔ ٹی سی سی بات چیت کے ذریعے یعنی عدالت سے باہر تنازع حل کرنے پر بھی تیار تھی۔ گویا نواب محمد اسلم کے بعد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، نواب ثناء اللہ زہری ، عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ بن گئے۔ ان سب نے ہر وقت خوش کن فضاء بنائے رکھی۔بہر حال جام کمال کو اس فہرست سے نکالتے ہیں وہ اس لئے کہ ان کے وزیراعلیٰ بننے تک معاملات پوری طرح خراب ہوچکے تھے۔ دریں اثناء وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 14جولائی2019ء کو بھاری جرمانے اور مالی نقصان کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کی ہدایت کردی۔اس ضمن میں اٹارنی جنرل آف پاکستان انور منصور خان کے دفتر سے اعلامیہ بھی جاری ہوا۔ یہ کمیشن ریکوڈک معاملے میں ذمہ داران کا تعین کرے گا۔ کمیشن مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے بھی سفارشات دے گا۔ کمیشن 1993ء سے لیکر اب تک پاکستان کو اتنے بھاری نقصانات کا سبب بننے والے مقدمے کے تمام ملوث افراد سے پوچھ گچھ کرے گا۔ اور وجوہات کے تعین کے ساتھ ساتھ ذمہ دارافراد کے خلاف کارروائی کی سفارش بھی کرے گا۔ یہ امر سچ ہے کہ اس تناظر میںسنگین بے اعتدالیاں ہوئی ہیں اور وکیلوں کو بھاری فیسیں ادا ہوئیں ۔ نیز مقدمے کی پیروی کو بھی سیر سپاٹوں اور عیش و عشرت کا ذریعہ بنایا گیا۔ وزراء اعلیٰ، وزرائ، ایم پی ایز، چیف سیکریٹریز ، سیکریٹریز سے لیکر نچلی سطح کے افسران تک ہجوم کی صورت میں مقدمات کی سماعت کے دنوں میں امریکہ، فرانس اور انگلینڈ جاتے تو کئی شہروں کی سیر کرکے آجاتے۔یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کس وکیل کو اس کی اہلیت سے بڑھ کر معاوضہ دیا گیا اور یہ بھی تحقیق ہو کہ کون کون حکومت اور بیورو کریسی کے اندر سے غیر متعلق یا غیر ضروری پیروی کیلئے سرکار کے خرچ پر بیرون ملک جاتے رہے ہیں۔ماہرین کے مطابق اگر بلوچستان کے گزشتہ تین چار سال کے دوران بجٹ کے حجم کو دیکھا جائے تو عالمی عدالت کی جانب سے عائد کیا گیا یہ جرمانہ بلوچستان کے تین سالوں کے بجٹ کے برابر ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال کی زبانی بلوچستان حکومت اب تک فیس کی مد میں ڈھائی سے تین ارب روپے کی ادائیگی کر چکی ہے ۔ وزیراعلیٰ سابق حکومتوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ بلوچستان میں معدنیات کے اچھے قواعد و ضوابط ہیں۔ جلد بازی میں کمپنی کے ساتھ معاہدہ مسترد نہ کیا جاتا ،بلکہ کمپنی کو خلاف ورزیوں پر مرحلہ وار نوٹسز جاری کیے جاتے تب جاکر معاہدے کو منسوخ کیا جاتا تو شاید بلوچستان کو نقصان نہ پہنچتا۔غرض اس ضمن میں تحقیقات اورذمہ داروں کا تعین ضروری ہے ۔