وہ کل تک حکمران تھے، رعونت میں لتھڑے ہوئے رویے حلقہ بگوشوں اور عرض گزاروں کے درمیان ۔ تمکنت زعم کرم اور جاہ جلال ایسا تھا کہ پائوں زمین پر نہ ٹکتے تھے اور آنکھیں زمین پر بسنے والی مخلوق کو دیکھنے سے قاصر تھیں کہ نگاہوں کے سامنے نوشتہ دیوار ہیں۔ بس اپنے ہی اقتدار اور جاہ جلال کی شبیہ ٹھہری رہتی۔ عرصہ اقتدار کو لازوال سمجھنے والے اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو کچلنا جانتے تھے۔ ایسے میں ماڈل ٹائون کے سانحے میں 14پاکستانی شہریوں کو ریاستی دہشت گردی میں مار دیا جانا ان کے نزدیک ایک معمولی واقعہ تھا۔ جو اس لئے سرزد ہوا کہ لاء اینڈ آرڈر کو ٹھیک ٹھیک نافذ کیا جا سکے۔ ماڈل ٹائون کا سانحہ‘14پاکستانیوں کی شہادت۔ پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی رعونت سے بھری پریس کانفرنسیں کس کو بھولی ہوں گی۔ بڑی بڑی رعب دار مونچھوں کے ساتھ جرأت اظہار اور دبنگ انداز۔ طاقت اور طاقت کے اظہار کے اس سارے ماحول میں بالکل ایسے ہی فٹ بیٹھتا تھا جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔! الیکٹرانک میڈیا پر بھی’’فیس ویلیو‘‘ بہت تھی۔ مخالفین کے چیختے چنگھاڑتے ہوئے لہجوں اور دھواں دھار تقریروں کے بعد رانا صاحب نہایت اطمینان اور سکون کے ساتھ زہر میں بجھے ہوئے چند جملے یوں ادا کرتے کہ مخالف کے سر سے پائوں تک آگ بڑھک اٹھتی۔ رانا صاحب کی پوری شخصیت پر چھائی ہوئیں ان کی رعب دار بڑی بڑی مونچھوں اور گزشتہ شام کی مصروفیات کا پتہ دیتے ان کی آنکھوں میں اترے ہوئے خمار کے ساتھ‘ ان کا پورا چہرہ تاثرات سے عاری رہتا اور ایسے ہی سپاٹ چہرے کے ساتھ وہ سیاسی مخالفین پر کاری ضربیں لگاتے چلے جاتے۔ ہمارے ہاں سیاست اصول ‘ قاعدے اور ضابطے کے بل بوتے پر نہیں ہوتی۔ ایسے ہی ہتھکنڈوں کے ساتھ سیاسی محاذ جیتے جاتے ہیں۔ جن ہتھکنڈوں میں رانا ثناء اللہ اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ محاذ کو آگ لگا دینے والا طرز گفتگو‘ ہر قیمت پر اپنے آقائوں کے ساتھ وفاداری۔ یہی وہ خصوصیات رانا ثناء اللہ کو پنجاب ن لیگ کا صدر بناتی ہیں اور ن لیگ میں ان کے درجے کو بلند کرتی ہیں۔ پکڑ دھکڑ اور احتساب احتساب کے اس کھیل میں ن لیگ کی آدھی قیادت جیلوں میں ہے یا جیل یاترا کو جانے والی ہے۔ ان حالات میں رانا ثناء اللہ کا دھر لیے جانا اس لئے بڑی خبر تھی کہ وہ اس زوال آثار موسم میں اپنی پارٹی کے بیانیے کو آگے بڑھانے والے موثر سیاسی رہنما تھے(رہنما لکھنا بس مجبوری ہی سمجھیں۔ ہمارے ہاں ہر سیاستدان‘ ایک سیاسی رہنما ہوتا ہے) رانا ثناء اللہ کی گرفتاری نے ہیڈ لائنز بنائیں۔ بریکنگ نیوز اور بریکنگ فالو اپ پیکج‘ ٹی وی چینلوں پر دھرا دھڑا چلے۔ اقتدار ‘ اختیار اور رعونت سے بھرے اتنے برس ایسے گزرے کہ گمان ہی نہیں تھا کہ اس دنیا میں جو بویا ہے وہ کاٹنا پڑتا ہے جو دیا ہے وہی لینا ہے۔ جو کیا ہے وہی بھرنا ہے۔ دنیا جو عبرت کی جا ہے ہم نے اسے تماشا سمجھ لیا۔ یہاں تو ہر عمل کا ردعمل انسان کو بھگتنا ہی پڑتا ہے۔اب لاہور شہر کے بیچوں بیچ‘ پر رونق اور ٹریفک کے اژدھام سے اٹے ہوئے راستوں کے ساتھ ساتھ کیمپ جیل ایستادہ ہے۔ ماہ جولائی کے جان نکالنے دینے والے حبس آلود موسم میں۔ جب سورج بھی آگ برساتا ہو تو مختصر پیمائش کی بیرکوں میں ناقابل برداشت گرمی ہونے لگتی ہے۔ ان بیرکوں میں کل کے اہل اختیار و اقتدار‘ بنیانیں اور نیکریں پہنے‘ گرمی ‘ حبس اور مچھروں سے نبرد آزما ہیں۔ خواجہ برادران‘ سعد رفیق اور سلمان رفیق‘ نواز شریف کے دور میں پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے بعد پنجاب کے سابق دبنگ وزیر قانون بھی قانون کے شکنجے میں پھنس کر یہاں اپنی بیرکوں میں موجود ہیں۔ قانون کے شکنجے سے زیادہ شاید یہ تقدیر کا شکنجہ ہے۔ جیل میں گرمی کے طویل دن اور حبس آلود راہیں‘ کیسے گزرتی ہیں ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ آسودگی اور آسائش میں زندگی گزارنے والوں کا ایک ایک پل سزا کا ہو گا۔ خواجہ برادران کچھ زیادہ نالاں رہتے ہیں۔ اپنی پارٹی قیادت سے بھی اور جیل کے ضابطوں اور قانون سے بھی۔ ملاقات کے لئے آنے والی ان کی بیگمات بھی قانون کے مطابق داخلے پر سرچ کروانے پر نالاں ہوتی ہیں۔ سنا ہے کہ اب ان کے احتجاج پر انہیں اس سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ اب تک کی خبروں کے مطابق رانا ثناء اللہ اس معاملے میں غیر معمولی تعاون کر رہے ہیں۔ جیل کے قاعدے اور قانون کے مطابق وہ تلاشی اور سرچ کو گوارا کرتے ہیں بالآخر وہ ایک قیدی ہی تو ہیں اور ان کی اہلیہ نبیلہ رانا بھی جیل کی ان فارمیلٹیز کا برا نہیں مناتیں ۔رانا ثناء اللہ کی گرفتاری کے بعد سے وہ منظر عام پر ہیں اپنے ظاہری حلیے سے وہ ایک سادہ سی خاتون دکھائی دیتی ہیں۔ البتہ انداز و اطوار اور گفتگو بغیر کسی لگی لپٹی کے جرات مندانہ اور دبنگ ہے شوہر نامدار سے پہلی ملاقات جیل میں ہوئی تو پہلے اپنے جذبات پر قابو نہ رہا اور رونے لگیں۔ پھر جذبات کچھ تھمے تو حکمرانوں کے خلاف مغلظات کا ایک طوفان برپا کر دیا۔ بالکل اکھڑ پنجابیوں کے مخصوص انداز میں۔ پھر کہا کہ ’’رانا صاحب تسی فکر نہ کرو میں ورکراں نوں آکھیا اے رانا صاحب اندر نیں تے میں آپ رانا ثناء اللہ آں۔ بس تُسی گھبرانا نئیں! سیاست بر طرف مجھے ایک خاتون کا یہ جرات مندانہ انداز اچھا لگا۔ باقی جو جس نے کیا وہ اپنی زندگی میں بھرے گا۔ یہی کائنات کا نظام ہے، ایک خاص مدت کی مہلت انسان کو ملتی ہے۔ اقتدار اور اختیار بھی ایک خاص مدت کی مہلت ہے۔ مگر ہم اسے لازوال اور ہمیشہ رہنے والا سمجھتے ہیں۔ اقتدار کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو بالآخر ریگ رواں پہ فقط ایک نقش قدم ثابت ہوتا ہے۔ کاش اقتدار میں رہنے والوں اور خود کو خدا سمجھنے والوں کو افتخار عارف کے یہ اشعار سمجھ میں آ جائیں: جاہ جلال دام درم اور کتنی دیر ریگ رواں پہ نقشِ قدم اور کتنی دیر حلقہ بگوشوں عرض گزاروں کے درمیان یہ تمکنت یہ زعمِ کرم اور کتنی دیر شام آ رہی ہے ڈوبتا سورج بتائے گا تم اور کتنی دیر ہو‘ ہم اور کتنی دیر!!