دوپہر ایک دو بجے تک سب آنا شروع ہوتے اور پھر رونق لگتی چلی جاتی ۔ ڈرامہ پروڈکشن کا یہ آفس بالکل شاہ نور سٹوڈیو کے عقب میں یا قریب ترین تھا۔ مُراد علی کا چونکہ بچپن بھی سٹوڈیو میں ہی گزرا تھا، تو وہ فلم اور فلمی شخصیات کی ڈائرکٹری تھا۔ کون فلم میں کام کر رہا ہے؟ کون چھوڑ گیا ہے؟ کو ن کتنے میں بُک ہو گا؟ کس کے پاس ڈیٹس ہی نہیں۔ کون بالکل فارغ گھر بیٹھا ہے۔ ایسے میں سٹوڈیوز سے فنکار آتے رہتے اور کاسٹنگ بھی ہوتی رہتی ۔ کچھ دیر کیلئے عابد علی صاحب اپنی معاونت کیلئے فلم کا ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی بلایا ۔ اس کے پاس کام کم تھا ، سانولی رنگت اور بالکل سفید بالوں کے ساتھ وہ صحافی دانشور لگتا تھا۔ کام کو خوب سمجھتا تھا اور سکرپٹ کی تکنیک کو بھی ۔ میں چونکہ اس دنیا میں بالکل نیا تھا ایسے میں وہ صاحب جن کا نام حسن زبیری تھا میرے کاغذوں کے پلندے کو سارٹ آئوٹ کرنے میں میری مدد کر دیا کرتے تھے۔ مراد علی آدھا کچا اور آدھا پکا ڈائریکٹر تھا ۔ اُس نے دیکھ کر کام سیکھا تھا ۔ تعلیم یافتہ نہ تھا اس لیے عابد علی صاحب اسے اتنا ہی کام لیتے جتنا وہ کر سکتا ۔ انہی دنوں ایک صحافی ایک مشہور بیوٹی پارلر کی مالکہ کے پیسوں سے ایک ٹی وی سیریل بنا رہے تھے۔ مراد چونکہ اُن کے ساتھ کام کر چکا تھا اور مشہور تھا کہ وہ صحافی فلم میکنگ کا ڈپلومہ امریکہ سے لے کر آئے ہیں۔ ایسے میں مراد اُن کے ساتھ کام کے تجربات کو ہم سے شیئر کرتا ۔ کیمرہ ، لائٹس اورایکشن کے پیرائے میں ایسے ایسے لطیفے سناتا کہ ہم بہت دیر تک ہنستے رہتے ۔ وہ صحافی آجکل ایک سکہ بند دانشور کے طور پر مشہور ہے۔ برادرم حسن نثار صاحب کی وجہ سے دفتر میں غیر فلمی مگر اپنے اپنے شعبوں کی مشہور شخصیات کی آمد و رفت جاری رہتی۔ میں چونکہ اُنہیںہی اسسٹ کر رہا تھا تو پتہ چلتاکہ آج محمد علی درانی آرہے ہیں۔ ’’ان سے ملیے یہ امیر العظیم ہیں‘‘۔ سَر عمران خان کا فون ہے۔ ذرا قاضی حسین احمد کا نمبر دیکھیے اس ٹیلی فون بُک میں ۔ حسن بھائی فلاں سیاست دان بات کرنا چاہتا ہے۔ کالم وہ گھر سے لکھ کر آتے تھے۔ مگر کام شروع کرنے سے پہلے اکثر اس پر ہلکی پھلکی گفتگو ضرور کرتے ۔ ایسے میں عابد علی جوکے ادا کار ہونے کے علاوہ ایک پڑھے لکھے اور ذہین فنکار تھے شریک گفتگو رہتے۔ ایک دن حسن نثار صاحب کہنے لگے ’’یہاں سے مون مارکیٹ کتنی دور ہے؟ میں نے کہا ’’ بس پانچ سے دس منٹ کا فاصلہ ہے‘‘۔ ’’ وہاں پر ہارون الرشید صاحب انتظار کر رہے ہیں۔ ۔۔۔ آگے اُنہیں راستے کا پتہ نہیں۔ کوئی جا کر اُنہیں لے آئے۔ ‘‘ ہمارے تخیل میں ہیجان سا پیدا ہو گیا۔ ’’ جی میں لے آئوں ‘‘؟ آپ چلے جائیں۔ میں ہارون صاحب کو لیکر دفتر واپس آگیا۔ اُنہوں نے دفتر میں داخل ہونے سے پہلے پوچھا ’’اندر اور کون کون ہے؟ جی سب جا چکے ۔ میاں امجد فرزند ۔ عابد علی صاحب حسن بھائی اور بس۔ اسکے بعد ہارون صاحب اس سلیکٹڈ سی کمپنی کا حصہ تھے۔ ہم خاموش سامع اور ناظر کی طرح اُن سب کو دیکھ بھی رہے تھے اور سُن بھی ۔ خاص طور پر حسن صاحب اور ہارون صاحب کے مکالمے اور گفتگوکو ۔ ڈرامہ سرکس پر مبنی تھا۔ سرکس میں واقعی ہوا پر ہی رقص ہوتا ہے۔ ایسے میں لیڈرول کے لیے پہلے شان اور پھر معمر رانا کا انتخاب ہوا۔ ہیروئن کے لیے بہت سے نام زیر غور آئے۔ فرح شاہ تو باقاعدہ دفتر بھی آئیں مگر عابد علی صاحب سیمی راحیل کو اس رول کے لیے سب سے موزوں تصور کرتے تھے۔ جب بنیادی کرداروں کے لیے کاسٹنگ مکمل ہو گئی تو ایکسٹراز اور بونے منتخب کرنے کا وقت آیا۔ مُراد علی سٹوڈیو سے کافی بونے اور ایکسٹرا ایکٹرز لے آیا۔ ایک بونا جس کا میں نام بھول گیا ہوں سب کی توجہ کا مرکز بن گیا ۔ خاص طور پر حسن نثار صاحب اور عابد علی کی ۔ اُس کی آنکھیں صرف سُرخ نہیں بلکہ بہت زیادہ سُرخ تھیں۔ سانو لا رنگ کثرتِ سگریٹ نوشی سے سیاہی مائل ہو چکا تھا۔ اس وقت بھی وہ خاصا ابنارمل لگ رہا تھا۔ حسن نثار صاحب نے مسکراتے ہوئے اُسے قریب بلایا اور گفتگو ہونے لگی ۔ کہنے لگا میں شاعر بھی ہوں اور سنگر بھی۔ حسن بھائی نے مزید کریدا تو کہنے لگا اگر اجازت ہو تو میں اپنا تیار کر دہ نغمہ آپ کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں۔ کسی طبلے یا ہار مونیم کی ضرورت نہیں۔ میں ایک دھاتی پلیٹ اور اٹھنی کے سکے سے کام چلا سکتا ہوں۔ گانے کے بول تھے ’’ برس رہا ہے پانی صنم ۔۔۔ کوئی سنا دو کہانی صنم۔ پتہ نہیں سب متاثرہوئے یا نہیں مگر سب ہنس پڑے ۔ حسن بھائی نے اُسے انعام بھی دیا۔ ایسے میں عابد علی نے اُس سے مسکراتے ہوئے پوچھا ’’سگریٹ پیتے ہو؟ اس جملے میں طنز بھی تھا اور مزاح بھی ۔ بونے کا جواب سونے پر سہاگہ تھا۔ ’’جی سادے پیتا ہوں‘‘۔ مسلسل شوٹنگ ہوتی رہی ۔ رائٹر اور ڈائریکٹر مسلسل ڈسکشن کرتے ۔ سکرین پلے میں تراش خراش ہوتی۔ حسن صاحب کو نیا آئیڈیا آتا،وہ عابد علی سے گفتگو کرتے ۔ مکالموں کو اور پالش کیا جاتا۔ میاں امجد فرزند اپنی تجاویز دیتے مگر ماننا نہ ماننا پروفیشنلزکا کام تھا ۔ سبھی نے بڑی محنت کی ۔ عابد علی صاحب ایڈیٹنگ اور مکسنگ کے مراحل میں شامل رہے ہر پروفیشنل ڈائریکٹر کی طرح ۔ بعد میں اُن سے ملاقاتوں کا سلسلہ کم سے کم تر ہوتا چلا گیا ۔ حسن نثار صاحب سے ملاقاتیں اور قربتیں بڑھتی چلی گئیں۔ میرا خیال ہے ’’ہوا پہ رقص ‘‘کی ٹیم میں سے ضیاء خان ہی عابد علی صاحب سے رابطے میں رہا۔ عابد علی صاحب کے روزانہ اتنا وقت گزارا ۔ اُن کی شخصیت کے وہ پہلو سامنے آئے جو سکرین سے بالکل الگ تھے۔ مشہور ادا کارہ ایمان علی اُن کی صاحب زادی ہیں۔ عابد علی جب ٹی وی میں کا میابی کی ابتدائی سیڑیاںچڑھ رہے تھے تو اُنہوں نے اپنی ایک ’’کو آرٹسٹ‘‘حمیرا علی سے شادی کر لی۔ عابد علی صاحب بہت سینئر تھے اور میں بہت جونئیر ۔ عابد علی پر جو تبصرہ حسن نثار صاحب نے کیا تھا وہ حاصلِ کلام ہے۔ ’’عابد علی بہت ہی TODAY قسم کا پریکٹیکل سا آدمی تھا۔ شاید یہی وجہ اُس کی خوبی یا خامی تھی۔ لاہور آیا تو کوئٹہ بھول گیا۔ کراچی شفٹ کیا تو لاہور بھول گیا۔ وہ بے پناہ قوت برداشت کا مالک تھا جو زندگی میں بے شمار پرسنل اور پروفیشنل دھچکے کامیابی سے برداشت کر گیا۔ جن کی تفصیل میں جانا ضروری ہے نامناسب‘‘۔