ریڈیو پاکستان ملتان کے نشریاتی سفر کو پچاس سال مکمل ہو گئے گزشتہ روز ریڈیو پاکستان ملتان میں گولڈن جوبلی تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔ اسٹیشن ڈائریکٹر کوثر ثمرین نے ریڈیو پاکستان کی اہمیت اور ریڈیو ملتان کی خدمات بارے گولڈن جوبلی تقریبات کی لائیو نشریات میں بتایا گیا کہ ریڈیو پاکستان ملتان نے بہترین خدمات پر بہت سے اعزازات اور قومی ایوارڈز حاصل کئے اور وسیب کے ٹیلنٹ کو اجاگر کیا۔ ریڈیو ملتان سے پٹھانے خان، ناہید اختر، منصور ملنگی، جمیل پروانہ، نصیر مستانہ، نگینہ نرگس، نسیم اختر، امبر آفتاب سمیت سینکڑوں لوگ ریڈیو پاکستان ملتان سے وابستہ رہے۔ ریڈیو ملتان کے معروف پروگرام ’’جمہور دی آواز‘‘ نے عالمگیر شہرت حاصل کی اور عظیم خدمات کے اعتراف میں ریڈیو پاکستان ملتان کے دو سٹوڈیوز پرائیڈ آف پرفارمنس گلوکارہ ثریا ملتانیکر اور عالمی شہرت یافتہ براڈ کاسٹر شمشیر حیدر ہاشمی کے نام منسوب کئے گئے ہیں۔ سرائیکی وسیب میں ایک بھی ریڈیو اسٹیشن نہ تھا ، وسیب کے لوگ ریڈیو کی آواز کو ترستے تھے ۔ ان کی تشنگی ریڈیو پاکستان لاہور یا پھر آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے پوری ہوتی۔ وسیب کے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کے مطالبے پر 21 نومبر 1970 ء کو ریڈیو پاکستان ملتان کا آغاز ہوا ۔ ریڈیو کی پالیسی کے مطابق پروگراموں کی شرح 60 فیصد مقامی زبان میں اور 40 فیصد قومی زبان میں ۔ سرائیکی پروگرام کی نشریات سے وسیب میں انقلاب آ گیا ۔ پہلے ہم لسنر تھے ، دور سے ریڈیو کی آواز سنتے تھے۔ 1994 ء میں ملتان میں قیام ہوا تو ریڈیو سے وابستگی بڑھ گئی ، مختلف ادبی پروگراموں کا حصہ بنتے آ رہے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالت جنگ یا حالت امن میں ریڈیو کی خدمات دیگر ذرائع ابلاغ سے بہت زیادہ ہیں ۔ سرائیکی خطہ دریاؤں کی سرزمین ہے ۔ سیلاب اور وسیب کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ سیلاب کے دوران جب آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں ، لوگ بے گھر اور بے سروساماں ہو کر دور دراز ٹیلوں پر پہنچتے ہیں تو وہاں نہ اخبار ہوتا ہے اور نہ ٹیلی ویژن ۔ وہاں ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے ، وہ ہے ریڈیو ۔ آج تو سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ سہولت ہوئی ہے ورنہ آج سے ایک دو عشرے پہلے یہی کیفیت تھی ۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ پی ٹی وی اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔ ہر بجلی بل کے ساتھ 35 روپے ٹی وی ٹیکس افسران کے کے اللو تللوں کے لیے بھتہ ہے۔ یہ رقم ریڈیو پاکستان کو ملنی چاہئے۔ آج ریڈیو پاکستان کی ابتر پوزیشن ہے ۔ریڈیو ملتان آنے جانے سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ بہت سی چیزوں کی جانکاری ملتی ہے ۔70 ء کے عشرے میں ریڈیو پاکستان ملتان میڈیم ویوز 1035 ایک اسٹیشن تھا اور جملہ سٹاف کی تعداد تقریباً 200 تھی ۔ جبکہ آج میڈیم ویوز 1035 کے ساتھ ساتھ ایف ایم 103 ، ایف ایم 93 ، ایف ایم صوت القرآن 93.4 یعنی چار اسٹیشن کام کر رہے ہیں اور سٹاف کی تعداد 45 ہے ۔ ریڈیو کے چار بنیادی شعبے ہیں ۔ جن میں پروگرامز ، انجینئرنگ ، نیوز سیکشن اور ایڈمن سیکشن شامل ہے ۔ حالت یہ ہے کہ چاروں شعبوں میں سٹاف نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ریڈیو پاکستان ملتان کے تین اسٹیشن علیحدہ علیحدہ مقامی طور پر پروگرام پروڈیوس اور نشر کرتے ہیں ۔ ریڈیو پاکستان کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے ، تمام کام صدر دفتر کی ہدایات کے مطابق سر انجام دیئے جاتے ہیں ۔ موجودہ حکومت سے توقع کی جا رہی تھی کہ ریڈیو پاکستان میں بہتری لائی جائے گی مگر صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہو چکی ہے۔ اس اہم قومی مسئلے پر وزیر اعظم اور وزیر اطلاعات کو خود توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف ریڈیو ملتان بلکہ وسیب سمیت سارے ملک کے تمام ریڈیو اسٹیشنز کی حالت ابتر ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ریڈیو پاکستان ملتان کا قیام انقلاب تھا ، ریڈیو پاکستان ملتان نے قومی اور عالمی سطح پر وسیب کے شاعروں کو متعارف کرایا ۔ ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کی آواز بنا ۔ریڈیو سے وابستہ بہت سے لوگوں کو روزگار حاصل تھا مگر ریڈیو پاکستان ملتان میں ایک عرصے سے شعبہ موسیقی بند ہے ، ادبی پروگرام دھکے سے چلایا جا رہا ہے۔ مشاعرہ ، ڈرامہ وغیرہ آج بھی بند ہے ۔پہلے حکومت تخت لہور کی تھی مگرآج مرکز اور صوبے کا اقتدار وسیب کے پاس ہے ، مگر سرائیکی وسیب کے اسٹیشنوں میانوالی ، بہاولپور ، دیرہ اسماعیل خان، سرگودھا اور ملتان وغیرہ پر کوئی توجہ نہیں ہے ۔ سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی کے دور میں ڈیرہ غازیخان، لیہ، بہاولنگر، رحیم یار خان، وہاڑی، جھنگ اور راجن پور میں ایف ایم ریڈیو قائم کرنے کا منصوبہ بنا تھا جس پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ آج بھی اس منصوبے کو قابل عمل بنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ حکمران ریڈیو پاکستان ملتان کے مسئلے حل کرنے کی بجائے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ ریڈیو پاکستان ملتان سے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی خواہش پر سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بلوچی سروس شروع کرائی ۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا اپنا ایک ضابطہ ہے ، اسی ضابطے کے تحت پورے ملک میں پروگرام کے اوقات ترتیب دیئے ہوئے ہیں ، اس ضابطے کے تحت ہر اسٹیشن 60 فیصد مقامی اور 40 فیصد قومی زبان میں پروگرام نشر کرتا ہے ۔ ضابطے کے مطابق ریڈیو پاکستان ملتان سرائیکی اور اردو میں پروگرام نشر کر رہا ہے ، بلوچی زبان کی ترقی ہونی چاہئے مگر یہ کام ریڈیو پاکستان کوئٹہ بہتر طور پر سر انجام دے رہا ہے۔ میں ابھی بلوچستان کے دورے سے آیا ہوں سرائیکی بلوچستان کی قدیم زبان ہے اور اب بھی بلوچستان کے بہت سے اضلاع میں سرائیکی بولی جاتی ہے۔ کیا ریڈیو پاکستان کوئٹہ یا بلوچستان کے دیگر اسٹیشنز سرائیکی میں پروگرام نشر کرنا پسند کریں گے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو ریڈیو پاکستان کے ارباب اختیار کو اپنے غلط فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ شعرو ادب کے حوالے سے بھی ریڈیو پاکستان ملتان کی بہت خدمات ہیں۔ سید حسن رضا گردیزی، ڈاکٹر مہر عبدالحق، ڈاکٹر طاہر تونسوی، پروفیسر شوکت مغل، حسین سحر، آسی کرنالی، انور جمال، ڈاکٹر اسلم انصاری، ارشد ملتانی، ارشد صدیقی، اللہ بخش یاد، ملک اقبال حسن بپھلا، حبیب فائق، امید ملتانی، خادم ملک ملتانی، حیدر گردیزی، ایم بی اشرف، مظہر کلیم و دیگر سینکڑوں افراد نے ریڈیو پاکستان ملتان میں خدمات سر انجام دیں اور نام کمایا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف ریڈیو ملتان بلکہ پاکستان کے تمام ریڈیو اسٹیشنوں کی حالت زار پر توجہ دی جائے کہ یہ پاکستان کا قومی ادارہ ہے اور دفاعی نقطہ نظر سے بھی اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔