نصف صدی گزر گئی‘ پتا ہی نہیں چلا۔ وہ واقعات جنہوں نے ہماری زندگیاں بدل دیں۔ ان دنوں میں بھی سڑکوں پر تھا۔ ہمارے کیمپس بھی سراپا احتجاج تھے ادھر پیرس میں طلبہ بپھرے ہوئے تھے۔ پہلے انہوں نے کیمپوں پر قبضہ کیا‘ پھر فیکٹریوں پر قابض ہو گئے۔ مزدور بھی اس تحریک کا حصہ بن گئے۔ وہ صدر ڈیگال کی علیحدگی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ہم ایوب خاں سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ اس تحریک نے مغربی یورپ اور امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ہماری تحریک سے اس کا کوئی واسطہ نہ تھا۔ مگر تاریخ کا یہ عجیب معاملہ ہے کہ ایسے واقعات دنیا میں اکثر اکٹھے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں تیس چالیس برس بعد دنیا ایک کروٹ لیتی ہے اور ایک نسل اپنے سے پہلی نسل سے معاملات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ مرحلہ پہلے انیسویں صدی کے تیسرے عشرے کے نصف آخر میں آیا جب ترقی پسند تحریک نے ادب میں پر پرزے نکالے اور اس کے متوازی اس کے مخالف ایک زبردست طوفانی لہر اٹھ کھڑی ہوئی۔ان دونوں لہروں نے برصغیر کے نوجوان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کیا کیا خواب دیکھے گئے پھر عالم گیر جنگ کے شعلے بھڑکے اور آزادی کا سورج طلوع ہوا یہ ہمارے بڑوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب تھا۔ دوسرا مرحلہ وہ آیا جب میری نسل نے شعور کی آنکھ کھولی۔ میں نے عرض کیا کہ بعض اوقات مختلف انداز میں دنیا بھر میں لہریں اٹھتی ہیں۔ جیسے جب یہاں ادھر مصر‘ تیونس سے عرب بہاراں کا آغاز ہوا۔ ادھر امریکہ سے وال سٹریٹ پر قبضہ کرنے کی تحریک چل پڑی۔ دونوں کتنی مختلف تھیں مگر وقت ایک ہی تھا۔ نتائج مگر کیا نکلے۔ عرب بہاراں نے سلطنتیں الٹ دیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سارا مشرق وسطیٰ ایک طوفان کی زد میں تھا۔ قذافی کی لاش بے گورو کفن پڑی ہوئی ہے۔ صدام حسین تختہ دار پر لٹک رہا ہے۔ بشار الاسد اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ پورا عالم عرب‘ بلکہ عالم اسلام عجیب طوفانوں کی زد میں نظر آ رہا ہے۔ کہاں گئے وہ خواب جو اس تحریک کے آغاز میں دیکھے گئے تھے۔ بادشاہتوں‘ آمریتوں کا تختہ الٹ دینے کے خواب۔ ایک آزاد‘ خوشگوار زندگی کے خواب‘ سب بکھر گئے۔ میرے سب خواب بکھر گئے۔ میرے خواب بکھرتے جاتے ہیں‘ مجھے شکتی دو۔ پیرس میں بھی یہی ہوا تھا۔ عرض کیا پوری دنیا بدل گئی۔ ایک نئے عہد نے جنم لیا۔ یہ مابعد جدیدیت کے خانے میں جو جو رویے فٹ کئے جا سکتے ہیں۔ وہ سب اس ناکام انقلاب کے ریجن سے پھوٹے۔ اس کے ردعمل کے طور پر یا اس سے قدم ملانے کی کوشش میں۔ میں نے دو چار دن پہلے اس پر ایک مضمون کہیں دیکھا تھا۔ اس وقت سے کتابوں میں کھو گیا ہوں۔ معاشرے میں کیا کیا ابال آئے تھے۔ ڈیگال جیت گیا‘ مگر اپریل 69ء میں مستعفی ہو گیا۔ ایشیا کا ڈیگال جسے ہم ایوب خان کہتے ہیں۔سیاسی جنگ ہار گیا اور ڈیگال سے پہلے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوا۔ اہل مغرب سوچنے لگے‘ یہ ہمیں کیا ہو گیا تھا۔ ایسے ایسے رویے پیدا ہوئے کہ فرانسیوں نے سوچنا شروع کیا یہ انقلاب فرانس کیا شے تھا۔ طبقاتی کشمکش کیا ہے۔ اصل کشمکش تو نسلی ہوا کرتی ہے۔ فلسفے بدل گئے۔ رویے بدل گئے‘ مزدوروں کی تحریک بھی دم توڑ گئی حتیٰ کہ 1981ء میں متراں کو کامیابی ہوئی تو بائیں بازو نے سکھ کا سانس لیا۔ مگر اسی وقت دوسری لہر چل پڑی تھی۔ دو چار برس ہی میں تھیچر ازم‘ ریگن ازم نے سرمایہ دارانہ تصورات میں نئی جان ڈال دی۔ پھر دیوار برلن بھی ڈھے گئی۔ مگر اس دوران بائیں بازو کے ریجن سے بھی کیا کیا لہریں اٹھیں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ تین افراد نے بیسویں صدی کے ذہن پر سب سے زیادہ اثر ڈالا‘ بلکہ اسے مرتب کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ مارکس‘ فرائڈ اور آئن سٹائن۔ یہ میں جس دور کا ذکر کر رہا ہوں اس میں مارکسی انقلاب بجھتے ہوئے چراغ کی طرح لو دے رہا تھا۔ بار بار بھڑک اٹھتا تھا۔ فلسفے کی دنیامیں ایک انقلاب آ رہا تھا۔ انسان سب کچھ تہس نہس کر رہا تھا بڑا دلچسپ مطالعہ ہو گا اس عہد کا، آج اہل مغرب اسے بڑی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ پھر یہ ہوا کہ اس مابعد جدیدیت کی کوکھ سے کئی بلائوں نے جنم لیا یہ این جی اوز‘ یہ سول سوسائٹی سب اس کی پیداوار ہیں۔ جو غیر انقلابی بھی ہے اور غیر سیاسی بھی۔ زندگی کے ہر شعبے پر اثر پڑا۔ سیاست کی اقدار بدل گئیں اورانداز بھی۔ سوچ کے زاویے بدل گئے۔ صدیوں کی فکری کاوشیں غارت گئیں۔ اپنے ہاں کی تاریخ بھی کم دلچسپ نہیں۔یہ 68ء ہی کی تحریک تھی جس نے ایک طرف بھٹو ازم کو جنم دیا تو دوسری طرف شوکت اسلام کا علم بلند کیا۔ کیا زمانہ تھا بھاشانی کا جلائو گھیرائو عروج پر تھا اور بھٹو کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔ بھاشانی مجیب الرحمن سے مار کھا گیا اور ہمارے ہاں بھٹو حالات کے ہاتھوں پٹ گیا۔ ملک ٹوٹ گیا اور ہم طوفان کا شکار ہو گئے۔ عجیب انتشار تھا۔ ذہنوں کا انتشار جس میں ہم بہہ چلے گئے۔ آگے بڑھتے گئے۔ ضیاء الحق بھی گوار محسوس ہوا بلکہ افغان جنگ نے اسے ہیرو بنا دیا۔ وہاں 68ء کے بعد مابعد جدیدیت اوراس کے ریجن سے پھوٹنے والے رویے اور فلسفے چھا گئے ادھر ہمارے ہاں سیاسی‘ سماجی اور تہذیبی سانچے بدلنے لگے۔ ذرا غور کیجیے‘ بھٹو ازم صرف سوشلزم کا نام نہ تھا۔ اس کے لیے تو اور بہت نام تھے۔ مولانا بھاشانی کا تو اس نسل کو نام تک یاد نہ ہو گا۔ پھر کیا کیا ٹریڈ یونین لیڈر اٹھے تھے۔ یہ سب لیفٹ کی تحریکیں تھیں جو دیکھتے دیکھتے پٹنے لگیں۔ ٹریڈ یونین بھی لیفٹ کے ہاتھ سے نگل گئی۔ رائٹ کے ہاتھ میں ضیاء الحق آئے۔ وہ سب جو جمہوریت کے علمبردار تھے۔ ضیاء الحق کے ساتھ بہت آرام دہ اور پرسکون محسوس کرتے تھے۔ مغرب نے 68ء کے بعد بہت کچھ دیکھا ہے اور وہ بہت کچھ پر پچھتایا بھی ہے۔ ہم نے بھی بہت کچھ دیکھا ہے مگر ہمیں دکھائی نہیں دے رہا۔ تاریخ کا یہ سبق ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے‘ بے سمت اور بے معنی تبدیلی کے خواب اس نسل کو بہت سہانے لگتے رہے ہیں۔ یہ نسل گزشتہ نصف صدی کی بساط لپیٹ دینا چاہتی ہے۔ ذرا غور کیجیے، اس پورے عرصے میں کیا کیا ہوا۔ مغرب والوں نے اپنے اندازے لگا رکھے ہیں۔ ہم نے تو ابھی سوچنا ہے فرصت ہی نہیں ملی۔ اتنی خبر ضرور ہے کہ بہت کچھ بدل چکا ہے اور ہم اب بھی نصف صدی پہلے کھڑے سوچ رہے ہیں کہ ہمیں کہاں جانا ہے۔ ہمارے تو سوال بھی نئے نہیں ہیں۔ آفاق سے جواب کیا آئیں گے۔ ہمارا سیاسی منظر اسی طوفان کا ظاہر ہے جو ہمارے باطن میں جوش مار رہا ہے۔ ایسا انتشار ہم نے کب دیکھا ہو گا۔ اب تو کسی انقلاب کی توقع رہی ہے نہ تبدیلی کا خواب سہانا دکھائی دیتا ہے، ہم نے جو دیکھنا تھا دیکھ لیا۔ دنیا بھی بہت دیکھ چکی ہے۔ میں سوچتا ہوں میری نسل اگر بیٹھ کر اپنی زندگیوں کا جائزہ لے تو اسے سوچنے کے لیے بہت کچھ ملے گا۔ ہماری تو یونیورسٹیاں بھی ایسی ہیں ،ان موضوعات پر کوئی ریسرچ کراتی ہی نہیں ہیں‘ کم از کم ایسے زندہ موضوعات پر۔ ایک تحریر پڑھتے ہوئے میں سوچنے لگا کہ یورپ والے تو فکر میں ہیں کہ وہ ڈیگال کے خلاف کیوں اٹھے تھے۔ ہم نے تو یہ سوچا بھی نہیں کہ ہم نے ایوب خاں کو کیوں نکالا تھا۔ کیا یحییٰ خاں کے اللے تللے دیکھنے کے لیے۔ ملک کو دولخت کر کے بھٹو کو راج سنگھاسن سونپنے کے لیے۔ اس کے بعد ملک پرجوبیتا‘ اس دوران کیا کبھی ہم نے اپنا تجزیہ کیا‘ حالات کو پرکھا۔ ہماری سوچ کے زاویے‘ ہمارے تجزیے کے انداز آج بھی وہی ہیں جو تھے۔ ہم لکیر کے فقیر بنے بیٹھے ہیں۔ ہم معاملات کو گہرائی میں جا کر سوچنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم نے خود کو صرف سیاسی جوڑ توڑ کی حد تک محدود کردیا ہے۔ اب تو کوئی نظریاتی جماعت بھی نہیں۔ جماعت اسلامی کی سوچ بھی سیاسی ہے اور اس ملک کے کیمونسٹ بھی این جی اوز کو پیارے ہو گئے۔ نظریاتی دور تو گزر چکا۔ یہ کون سا دورہے جس میں ہم جی رہے ہیں۔ کبھی سوچا ہم نے ،ہمارے خواب کیا تھے اور ان کا کیا بنا۔ اور اب ہمارے خواب کیا ہیں اور ان کا کیا بنے گا۔ کبھی سوچا ہم نے۔